بعض انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے جڑے ہوئے بعض سوالات الجھنوں میں ڈالے رکھتے ہیں، یہ اردو کہانی ایسی ہی الجھنوں کو سلجھاتی ہے
سمرہ ملک، کراچی:
”مجھ سے نماز نہیں پڑھی جا رہی، میں سارا دن یا تو اپنے کام میں مصروف رہتی ہوں یا پھر موبائل میں کچھ سیکھتے ہوئے وقت گزر جاتا ہے ۔ “
”نماز پڑھتے ہوئے دھیان آج کل بہت بھٹک رہا ہے وہ جو کھچاؤ اللہ کی طرف محسوس ھوتا تھا وہ نہیں ہورہا۔“
میرا دل بھاری سا ہورہا ہے ایک ہفتے سے اور اللہ جی! سوری مگر میرا دل نہیں لگ رہا نماز میں۔“
آمنہ چودہ سال کی تھی اور بنا ماں باپ کے اپنے نانا کے ساتھ پلی بڑھی تھی۔ جب وہ چھ سال کی تھی تو اس کی مما نے اسے ڈائری لکھنے کی عادت ڈالی تھی، اسے سکھایا تھا کہ جو بھی مشکل ہو یا کوئی بھی بات جو آپ کسی سے نا کہہ سکتے ہو وہ اللہ سے کہہ دیا کرو۔ تب وہ چھوٹی تھی، اسے سمجھ نھیں آتی تھی کہ وہ کیسے جانے گا اس کا بہترین حل نکالتے ہوئے۔
نادیہ نے اسے ڈائری لکھنا سکھا دیا تھا تاکہ وہ اللہ سے باتیں کیا کرے ۔ کچھ عرصہ بعد ہی آمنہ کے والدین کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگئی ، اب اس کے نانا اسے اپنے ہاں لے آئے تھے اور ان ہی کے شہر سے اس کا نظام زندگی دوبارہ تسلسل میں آیا۔
ہمیشہ کی طرح آمنہ ڈائری لکھتے لکھتے سو گئی تھی، رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ جب نانا کمرے میں اسے دیکھنے آئے۔ اسے لٹاتے ہوئے انہوں نے بستر ٹھیک کیا اور ڈائری رکھتے رکھتے ان کی نظر پڑی۔ انہیں تشویش ہوئی کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہے؟ جو آمنہ کو الجھن میں ڈالے ہوئے ہے یا پھر یہ اللہ سے دوری اسی کی دی گئی آسائشوں کی وجہ سے ہے؟
اکثر انسان آسائشوں کا مزہ چکھتے چکھتے حقیقت فراموش کر بیٹھتا ہے کہ یہ اسے اللہ ہی نے دی ہے اور اس کا سب سے پہلا حق ہے بندے پر کہ وہ اس کی بندگی کرے مگر ہم اس دنیا میں اتنا کھو جاتے ہیں، احساس ہی نہیں رہتا کہ اس کی دی ہوئی امانتوں، نعمتوں اور صلاحیتوں میں خیانت کر رہے ہیں۔
نانا نے صبح ناشتے کی میز پر آمنہ کو گم سم بیٹھا دیکھ کر بات کا آغاز کیا (جو اس ڈر میں بیٹھی تھی کہ نانا نے ڈائری نا پڑھ لی ہو اور وہ ڈانٹیں نا کیونکہ نانا نے شروع سے اسے دین کے قریب رکھنا چاہا تھا اور پابندی وقت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سختی رکھی تھی)
”کیا ہوا بچے اتنا خاموش کیوں ہو؟ اسکول میں کوئی مسئلہ ہے؟ آج تو اتوار ہے نا ہمیشہ کی طرح اتوار والی خوشی نھیں دکھائی دے رہی، بتاؤ مجھے!!!“
آمنہ نے پریشان ہوتے اور الجھتے ہوئے نانا کی طرف دیکھا اور کچھ نا کہنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ نانا کہہ اٹھے :
”بیٹا! زندگی میں کوئی بھی پریشانی ہو یا کوئی بات پریشان کر رہی ہو تو بلا جھجھک نانا سے کہنا۔ نانا ہیں سننے کے لیے، نانا کے پاس آخری سرمایہ بس تم ہی ہو نانا کی جان۔ (نانا اس کی الجھن بھانپ گئے تھے تب ہی انہوں نے اسے ایسا ماحول دینا چاہا کہ وہ ڈرے بغیر کہہ دے )
نانا ۔ ۔ وہ ۔ ۔ مجھ سے نماز نہیں پڑھی جا رہی۔ (آمنہ نے سر جھکا لیا)
نانا چند لمحے خاموش رہے پھر مضبوط مگر نرم آواز میں گویا ہوئے:
”کیا کوئی بات ہے یا کسی نے کسی حوالے سے کوئی بات کی ہے؟
ایسا کیا ہے جو نماز میں دھیان نہیں لگ رہا کیا چیز پریشان کر رہی ہے؟“
آمنہ نے بلا توقف کہا ”نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے نانا !!“
مگر جب میں نماز پڑھنے کھڑی ہوتی ہوں تو بہت بے دلی سے پڑھی جاتی ہے، میرا ذہن بھٹک جاتا ہے، دوسرے خیالات آنے لگتے ہیں، مجھے لگتا ہے اللہ مجھ سے ناراض ہے شاید۔“
”تو اسے منالو۔۔“ آمنہ نے یک دم سر اٹھایا
”اتنا آسان ہے؟“
”ہاں بالکل۔۔“
”وہ کیسے؟“
”نماز میں اس سے گفتگو کے ذریعے ،“ آمنہ کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
”نانا! وہی تو نہیں پڑھی جارہی۔“
چند لمحوں بعد نانا نے سوال کیا:” تمھیں کیا خیالات آتے ہیں نماز میں؟“
آمنہ کو اس سوال کی توقع نہیں تھی، وہ گھبرائی، پھر اس نے ہتھیار ڈال دیے وہ حل چاہتی تھی۔
”نانا! مجھے کسی کام کے خیالات آنے لگتے ہیں، کسی کی کوئی بات یاد آجاتی ہے، کوئی بھولی بسری یاد آجاتی ہے اور۔۔“
”اور ؟ اور مجھے عجیب سے وسوسے آنے لگتے ہیں، میرا دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔“
”کیسے وسوسے ؟“
”نانا! مجھے خیال آتا ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کر رہے ہیں مگر وہ کہاں ہے، دکھائی نہیں دیتا، یہ تو ہمارا یقین ہے کہ اللہ ہے“
”نانا!! مجھے معاف کردیں، میں استغفار پڑھتی ھوں، آپ پلیز کچھ غلط نا سوچیے گا“ آمنہ نانا کے تاثرات بدلتے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
”سب سے پہلی بات اللہ جب ناراض ہوتا ہے تو سجدے کی توفیق چھین لیتا ہے، وہ تم سے ناراض نہیں ہوا، سمجھو آزما رہا ہے۔ “
”وسوسے شیطان ڈالتا ہے جب کوئی بندہ اللہ کی قربت حاصل کرنے لگتا ہے تو سمجھو وہ سیڑھیوں کی لائٹ بند کردیتا ہے اور اندھیرے کے طور پر ایسے سوالات پھینکتا ہے اور کہتا ہے لو! اب تلاش کرو راستہ ۔
جو خالص ایمان والے ہوتے ہیں وہ اس آزمائش سے گزر جاتے ہیں کچھ نا کچھ سیکھ کر، باقی بھٹک جاتے ہیں ، اور بیشک کون ہے جو اللہ کے سوا ہدایت دے اور کون ہے جو گمراہ کیے ہوئے کو ہدایت دے؟
ہدایت اسے ملتی ہے جس کے دل میں اسے پانے کی لگن ہو، جستجو ہو،
بیٹا! اللہ آزماتا ہے کیونکہ وہ ایسے امتحان لیتا ہے جیسے تم سکول میں محنت سے دیتی ہو یہاں اختلاف بس اتنا ہے کہ اعمال اور ایمان کی بنیاد پر ہوتا ہے امتحان۔
جب کوئی شخص کہتا ہے کہ وہ ایمان لے آیا ہے تو واقعی وہ لے آیا ہے یا خود کو دھوکا دے رہا ہے۔ ایمان لانا بس اللہ کو ایک ماننا نہیں ہے، اس پر توکل کرنا ہے، اس کی رسی تھامے رکھنا ہے جیسے کوئی طوفان میں گھرا ہو اور کوئی سہارا تھاملے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اللہ فرماتا ہے :
”جو ایمان لے آئے کیا وہ یہ کہہ دینے سے چھوٹ جائیں گے اور آزمائے نا جائیں گے۔“ القرآن ۔
(آمنہ دم سادھے سن رہی تھی۔)
نانا لمبی سانس لینے کے بعد گویا ہوئے۔۔
”میں تمہیں سمجھاتا ہوں، ساتھ جواب دینا۔۔“ آمنہ نے گردن ہلائی۔
”سوال دہراؤ اپنا“
”اللہ دکھائی نہیں دیتا، اس کا وجود کیسا ہے؟ جب وہ ہمیں نہیں دکھائی دیتا تو ہمیں کیسے دیکھتا ہے اور اتنی بڑی دنیا میں نانا کتنی جگہیں ہوں گی وہ بیک وقت ایک ساتھ سب کو کیسے دیکھائی دیتا ہے ؟
”میں تمہیں ایک مثال دے رہا ہوں اب،“
”ایک تاریک کمرہ ہے جہاں اتنا اندھیرا ہے کہ کچھ نہیں دکھائی دے رہا، سناٹا سا معلوم ہو رہا ہے حتی کہ وہاں بہت سا سامان پڑا ہے مگر اندھیرے کے باعث کچھ نہیں محسوس ہورہا۔ وہاں میں ایک موم بتی جلا دوں تو کیا ہوگا؟“
”نانا! روشنی ہوگی۔“
” روشنی کیا صرف اسی جگہ ہوگی جہاں موم بتی جلائی گئی ہے یا ساری جگہ؟“
”سارے کمرے میں پھیل جائے گی نانا۔۔ “
”تو کمرے کی ہر چیز دکھائی دے گی؟“
”جی! سب واضح ہوجائے گا۔“
”اچھا! اب یہ بتاؤ کہ اس روشنی کا وجود کیا ہے؟ تمہارے پاس ایک منٹ ہے سوچنے کو۔“
آمنہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا:” نانا! روشنی ، نور کی طرح ہوتی ہے اور اس کا کوئی وجود کیسے بتا سکتا ہے کہ یہ سخت ہے یا نرم ۔۔۔“
نانا نے سر ہلاتے ہوئے کہا،” ہاں! بالکل۔۔
اب بتاؤ تم اس روشنی کو دیکھ رہی ہو یا یہ تمہیں ؟ اور ان ساری چیزوں کو تم کیسے دیکھ سکتی ہو؟“
”نانا ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور ان چیزوں کی پہچان یہ روشنی کرا رہی ہے۔ “
”یعنی تم اس کمرے میں چلو گی تو دیکھ کر کہ کسی چیز سے ٹکرا نہ جاؤ جبکہ اندھیرے میں بچنا مشکل ہوتا ہے تو واضح ہوا صحیح راستہ یہ روشنی دیتی ہے۔
اب بتاؤ کہ یہ روشنی کمرے میں ہر چیز کو دیکھ رہی ہے یا کسی ایک چیز پر مرکوز ہے؟“
”نانا! سب چیزیں واضح دکھائی دے رہی ہیں تو مطلب ایک ساتھ سب کو دیکھ رہی ہے“۔
”اب سنو! اللہ کہتا ہے:
”وہ نور ہے ۔ آسمانوں اور زمین کا۔“
تم نے کہا روشنی کا کیا وجود ہوگا تو سوچو نور کا کیا وجود ہے؟
روشنی بیک وقت ایک ساتھ ہر چیز دیکھ رہی ہے تو وہ نور، وہ ذات جس نے ساری کائنات بنائی، جس کے قبضے میں ہماری جان ہے اس کے لیے بیک وقت سب پر نظر کرنا کیا مشکل ہے؟
(آمنہ کی الجھنیں سلجھ رہی تھیں)
اب آئی آخری بات،
میں کہتا ہوں کہ اس موم بتی کی لو کو مسلسل دیکھتی رہو“ پانچ منٹ بعد آمنہ نے نگاہیں پھیر لیں۔
”کیا ہوا؟
”نانا آنکھوں میں چبھ رہی ہے۔“
”یوں کہو کہ زیادہ دیر تاب نہ لا پائیں۔
اللہ نور ہے اور وہ ایسا نور ہے کہ اس کی تاب نہ لاتے ہوئی حضرت موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے تھے، تو ہماری اتنی اوقات ہے ؟
وہ ہمیں ہر وقت دیکھ سکتا ہے کہ وہ قادر ہے، ہم ہر وقت نہیں دیکھ سکتے، رہی کبھی کبھی کی بات، تو غور کرو کیا کبھی کبھی وہ محسوس نہیں ہوتا؟
جب نماز خلوص نیت سے پڑھی جائے تو اللہ محسوس ہوتا ہے، جب کوئی نیکی کی جائے، جب کوئی کام اس کی رضا کیلیے کیا جائے، جب روزہ رکھا جائے تو کیا وہ قریب محسوس نہیں ہوتا ؟ “
”جب بندہ اس سے کچھ مانگے اور وہ دیدے تو؟ جب آپنے اپنی کسی خواہش کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کیا دل میں کہا اور وہ پورا ہوجائے تو کون ہے جو قادر ہے ؟ یہ کائنات اور یہ ذات اس کے ’کن‘ کی محتاج ہے۔“
”اب بات رہی کہ اللہ سے دور ہو رہی ہو۔۔ دل نہیں لگ رہا۔۔۔ “
”بیٹا! جو اللہ کے جتنا قریب جاتا ہے وہ اس کے اتنا قریب آتا ہے، جو اس سے بات کرتا ہے وہ اس سے بات کرتا ہے، جو اس کی مانتا ہے وہ اس کی مانتا ہے، جو اس سے کلام کرتا ہے وہ اس سے کلام کرتا ہے، جو اللہ سے دور جاتا ہے پھر اللہ دیکھتا ہے کہ وہ کتنا دور جائے گا بیشک ہم سب نے لو ٹ کر اسی کے پاس جانا ہے اور وہی پلٹانے والا ہے مگر پھر آزمائش ہوتی ہے۔“
”اب بات آتی ہے کہ کیا کیا جائے۔ ؟ “
”اللہ قرآن میں فرماتا ہے :
”اللہ تمہارا سب سے بہترین دوست اور مدد گار ہے۔“
”مجھے بتاؤ، اگر تمہارا کوئی دوست جو تمہارے دل کے بے حد قریب ہو جس کے بغیر تمہیں لگے کہ زندگی میں وہ مزہ نہیں ہے، جس کے بغیر اداسی ہوجائے تو وہ تم سے اگر دور چلا جائے تو کیسا لگے گا؟ “
”یقیناً تم روگی، کھانا پینا چھوڑدوگی، ایڑیاں رگڑوگی، چلاؤگی، گڑگڑاؤ گی کہ اس نے ایسا کیوں کیا جبکہ تم نے اسے بہت مجبت دی۔
ایسا ہی ہوگا ؟ “
”جی نانا ۔ ۔“
”تو سوچو اللہ کی وہ ذات جو ہمارے لیے سب بہترین کرتی ہے، جو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتی ہے ، جب ہم اس بہترین ذات سے، اس کے ساتھ سے دور ہوجاتے ہیں تو اسے کیسا لگتا ہوگا ؟ حالانکہ وہ بنا کہے کیا نہیں کرتا، ہر نعمت، ہر آسائش، نیند ، کھانا ، کپڑے ، صحت ، عقل ، سوچ غرض ہر چیز اس کی دی ہوئی ہے اور اسی کی محتاج ہے اس کے اتنے احسان ہیں پھر بھی ہم غفلت برتتے ہیں مگر وہ ہم سے یہ سب نہیں چھین لیتا، وہ ہمیں مواقع فراہم کرتا ہے، وہ وقت دیتا ہے سنبھل جانے کو، وہ رحیم اتناہے کہ اس کے رحم کی وسعت ماپی نہیں جاسکتی پھر بھی جب اس سب کے باوجود ہم ایسا کرتے ہیں کہ اسی کی دی ہوئی نعمتوں میں کھو کر اسے بھول جاتے ہیں تو ذرا سوچو اسے کیسا لگتا ہوگا ۔ “
یہ بھی پڑھیے:
ہم اپنی نمازوں کو کیسے پُرسکون اور موثر بناسکتے ہیں؟
آپ کو پتہ ہے آخرت اور جنت کیوں ضروری ہے؟
اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اصل مزہ کیسے حاصل ہو؟
آمنہ کا دل ڈوبا، واقعی نماز میں دل نا لگنے کی وجہ یہی تھی کہ اس کو زیادہ سے زیادہ وقت اس نئی آئی ہوئی آسائش کے ساتھ صرف کرنا تھا اور وہ اس میں کھو کر دین کو پس پشت ڈال رہی تھی ،پرائیوریٹی یعنی ترجیح بدل گئی تھی ۔ اسے کافی افسوس ہوا ۔
نانا نے اس کے چہرے پر پھیلا ہوا سکون دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔
ایسی عمر میں بہت سے مواقع آتے ہیں سمجھانے کے، اصل امتحان تو بڑوں کا ہوتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کو کھو جانے اور اندھیرے میں ڈوب نے سے بچانے میں کامیاب ہوجائیں ۔
آمنہ مطمئن نانا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی اور ان سے اظہار محبت کیا ۔۔۔
”شکریہ نانا ابو! آپ نے مجھے وقت پر سنبھال لیا، اب میں ان شاء اللہ وقت پر نماز ادا کروں گی اور پہلی ترجیح کے طور پر خلوص نیت کے ساتھ ۔ “
”بالکل جو جتنا خلوص کے ساتھ حق ادا کرتا ہے اللہ اس کے خلوص کو اپنے ہاں مزید بڑھا دیتا ہے اور رحم فرماتا ہے، میری دعا ہے کہ اللہ تمہیں، مجھے اور تمام مسلمانوں کو ہدایت کی راہ پر رکھے اور بہترین مسلمان بننے کی توفیق اور استقامت عطا فرمائے آمین ۔“