سید کاظم حسن نقوی:
میرا تعلق یوپی کے شہر امروہہ کے ایک شیعہ گھرانے سے ہے جو تقسیم ہند کے بعد کراچی میں آکر آباد ہوا، میرے دادا شاگرد تھے رئیس امروہوی، سید محمد تقی،اور جون ایلیا کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا کے۔ میرا کوئی تحریکی یا جماعتی پس منظر نہیں تھا۔
پروفیسر تقی حسن نقوی جو France میں فلسفے کے استاد ہیں رشتے میں میرے تایا ہیں۔ ایک دن انہوں نے باتوں ہی باتوں میں تذکرہ کیا کہ
”آج کا نوجوان بہت خوش قسمت ہے کہ علم کے ”دور مودودی“ میں بس رہا ہے ورنہ ہمارے زمانے میں تو یہ عالم تھا کہ کوئی بھی نوجوان بال بڑھا کر داس کیپیٹل ہاتھ میں لیے مارکس کا فلسفہ بگھار کر ہمیں اپنے جال میں پھانس سکتا تھا اور دین و مذہب کی اساس پر اس کے حملوں کے مقابل ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ مگر آج دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ میں سید مودودی کی کتابوں کی صورت میں وہ ہتھیار موجود ہے کہ جس سے ناصرف وہ اپنی مدافعت کرسکتا ہے بلکہ جارحانہ علمی اقدام بھی کرسکتا ہے“۔
یہ کہہ کر انہوں نے سید مودودی کی کتاب ”تنقیحات“ میری طرف بڑھا دی اور مجھے کہا کہ اسے غور سے پڑھنا۔ میں نے کتاب ہاتھ میں لی اور پڑھنا شروع کیا۔ میں نے کتاب کو کیا پڑھا،گویا اس کتاب میں خود کو مجھ سے پڑھوایا۔ کیا کمال کی کتاب تھی، روایتی کتابوں سے بالکل مختلف، بالکل جدا، سلجھا ہوا اسلوب، مدلل انداز اور دلائل کا سیل رواں۔
اس کتاب کا حرف حرف میرے دل پر نقش ہو گیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے اس سے بہتر کتاب آج تک نہ پڑھی تھی۔ سید مودودی کی عظمت کی دھاک میرے دل پر بیٹھ گئی۔ پھر راولپنڈی میں قیام کے دوران میرے دیرینہ، ہم مشرب اور ہم راز دوست(جس کو نہ جانے کیوں نام ظاہر کرنے سے چڑ ہے) نے میری تحریکی حوالے سے ذہن سازی میں بہت کردار ادا کیا۔ مگر اس کے بعد ایک عرصہ تک سید مودودی کی کوئی کتاب پڑھنے کا موقع نہ ملا۔
میں اپنے معمولات میں مگن ہو گیا اور اس کتاب کا تاثر دماغ کے پچھلے گوشے میں منتقل ہو گیا۔ 2016 میں میں تعلیم کی غرض سے لندن میں گیا۔ وہاں میری جماعت میں صرف ایک اورمصری مسلمان تھا اس کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے، احمد الحامد میری اس سے دوستی ہو گئی جو کہ بے تکلفی میں بدلتی چلی گئی۔
ایک دن اس نے مجھے سید قطب کی ایک کتاب دی اور کہا کہ اس کو پڑھو، واقعی سید قطب کی عربی کتاب کا انگریزی ترجمہ لا جواب تھا۔ ذہن کو متاثر کرنے والا ایک علمی اور ادبی شاہکار تھا۔ اس کتاب کے بعد اس میں اور مجھ میں کتابوں کا تبادلہ مسلسل ہوتا رہا ایک دن اس نے مجھے سید مودودی کی کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہTowards Understanding Islamدیا ۔
میں ایک عرصے بعد سید مودودی کی کوئی کتاب دیکھتے ہی چونک پڑا ۔ میں نے متجسس انداز میں اس سے پوچھا:” تم سید مودودی کے بارے میں اور کیا جانتے ہو؟“ اس نے کہا:” کیا تمہیں یاد ہے کہ میں نے تمہیں پہلی کتاب سید قطب کی دی تھی تو سنو امام مودودی عدالت کے کٹہرے میں سید قطب کا اقرار جرم اور امام مودودی کا اسم مبارک پھانسی گھاٹ کی کوٹھڑی میں سید قطب کی تسبیح صبر اور وظیفہ استقامت تھا۔“
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی تھی۔ دراصل سید مودودی سے محبت،ان کے افکار سے موافقت اور مصر میں ان کا پرچار سید قطب کے جرائم سمجھے گئے اور اس پر انہیں بالآخر موت کی سزا سنا دی گئی، میں نے اپنا ٹوٹا ہوا بندھن پھر سے استوار کیا۔ تنقیحات کے بعد دینیات، دینیات کے بعد خطبات، خطبات کے بعد تفہیمات۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری، سید مودودی کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں۔
میں نے کتابیں پڑھنے کے دوران یہ محسوس کیا کہ میرا قلب و ذہن بدل چکا ہے، اب میرے اندر سے صدا آ رہی ہے جو مجھے سیدی کے فکر کی طرف بلا رہی ہے۔ مجھے عمل کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ اس انقلاب کی طرف پکار رہی ہے کہ جو انسانیت کا مقدر ہو چکا ہے۔ میں نے احمد الحامد سے اپنا راستہ رابطہ مزید استوار کیا اور اس کے ساتھ اخوان کے اسٹڈی سرکلز میں جانا شروع کردیا۔
اسی دوران پاکستان سے آئے جماعت اسلامی سے وابستہ کچھ افراد سے رابطہ ہوا اور ان کے ذریعے سے UK Islamic Mission تک رسائی۔ میں دنیا کی مقدس ترین تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔ عظیم ترین تحریک عالمگیر تحریک نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر پھیلی ہوئی تحریک امریکا ، یورپ اور آسٹریلیا میں سرگرم عمل تحریک۔
یہ تحریک اس قدر عظیم ہے اس کا اندازہ باہر سے نہیں لگایا جا سکتا۔ میں مذہبی طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا ،کسی نے پوچھا تک نہیں۔ بس! مقصد پر focus اقامت دین کی جدوجہد،انقلاب کی دھن،دنیا کو بدل دینے کا سودا۔ یہ کیا معجزہ ہے کہ جس سے میں وابستہ ہو چکا ہوں اور ہاں! اس دفعہ کبھی کسی کو ووٹ نہ کرنے والے ڈیفنس کراچی میں مقیم میرے گھر والوں نے میرے ٹیلی فون پر اصرار کرنے پر جماعت کو vote بھی دیا۔
3 پر “میں ، سید مودودی اور جماعت اسلامی” جوابات
اللہ مغفرت فرمائے بردار ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی اور شہادت کا درجہ عطا فرمائے
اس لئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کسی وبائ مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا اللہ کے ہاں شہادت کا درجہ پائے گا اور ڈاکٹر سومرو تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہوئے جس خدمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل ترین خدمت قرار دیا ہے افضل الاشغال – خدمت الناس
میں برادر عبدالقادر سومرو کو زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں ۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں ہمارا ساتھ رہا۔اگر میری یادداشت درست ہوگی تو ہمارے زمانے میں ناظمین جمعیت سندھ کی ترتیب میں پیر عبدالرحمن قریشی ، نور محمد پٹھان کے بعد غالبا تیسرے ناظم برادرم ڈاکٹر عبدالقادر سومرو تتھے
انہوں نے بھٹو دور میں سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس وقت کام کیا جب پیپلز پارٹی کے گھر سندھ میں اس کا عروج تھا اور تعلیمی اداروں میں “ جئیے سندھ “جیسی متعصب لسانی پارٹی کا راج تھا اور مکمل بدمعاشی تھی ۔ وہ کسی اور کو تعلیمی اداروں میں گھسنے نہیں دیتے تھے، ان کے ہاسٹل اسلحہ سے بھرے ہوتے تھے اور ہوسٹلز میں رہنے کی اجازت صرف انکو دی جاتی تھی جو جئیے سندھ میں شامل ہوں ۔
اس سخت آزمائشوں سے بھر پور دور میں برادر ڈاکٹر عبدالقادر سومرو نے نہ صرف پورے سندھ میں اپنے جرات مندانہ اور مدبرانہ قیادت سے ساتھیوں کو حوصلہ دیا بلکہ جمعیت کو سندھ کے تعلیمی اداروں میں منظم کرویا اور سندھ میں طلبہ یونیئنز کے انتخابات میں نمایاں کامیابیاں دلوائیں
اسلامی جمعیت طلبہ سندھ کا دفتر حیدرآباد میں تھا ، میں آصف مسعود جامعی کے ساتھ کبھی کبھی ان کی معاونت کے لئیے کراچی سے حیدرآباد جاتا تھا جو کہ سندھ جمعیت کے معتمد ( سکریٹری) تھے تو گا ہے ڈاکٹر شہید سے ملاقات رہتی ۔
اس کے علاوہ جب میں جماعت اسلامی سکھر کا امیر تھا تب بھی ڈاکٹر سومرو سے نیاز حاصل کرنے کا شرف رہتا تھا اگرچہ اس زمانے میں وہ ملازمت کے سلسلے میں اپنے آبائ شہر سے دور رہے ۔ وہ ایک مخلص اور محبت کرنے والے انسان تھے
ڈاکٹر شہید سندھ کے مردم خیز علاقے شکار پور کے رہنے والے تھے ان کے والد بھی جماعت اسلامی کے قدیم رکن تھے ان کے دادا بھی اپنے علاقے کے شہرت یافتہ صوفی بزرگ تھے اور انکے مریدوں کی بڑی تعداد سندھ میں سومرو قبیلے میں پائ جاتی ہے
ڈاکٹر شہید بہت مرنجا مرنج ، نرم مزاج اور گرم جستجو کی شخصیت تھے۔ انکی بہترین اخلاقی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے ااور تحریک سے عشق کی حد تک لگاؤ دیکھتے ہوئے ، اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سندھ ، عظیم سندھی عالم ، مفکر اور مدبر رہنما، مولانا مودودی کے رفیق مولانا جان محمد عباسی نے ڈاکٹر سومرو کو اپنی دامادی میں لے لیا تھا اور اپنی عزیز جان بیٹی سے ڈاکٹر سومرو کی شادی کردی تھی ۔
اس موقع پر ہم اپنی بہن سے تعزیت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی برادر عبدالقادر سومرو کو جنت میں بلند درجات عطا فرمائے اور بہن کو صبر جمیل عطا فرمائے
شمس خان
بہت خوب۔۔۔۔۔۔لمہے بھر کیلیے میں تو کھو ہی گیا تھا تحریر می،کیا ہی کہنے سید مودودی کے اور کیا کہنے فاضل لکھاری کے۔۔۔
This is a great effort. I am highly impressed.