وزیراعظم پاکستان عمران خان

سب بوجھ ہٹانے کا فیصلہ،عمران خان کا آپریشن کلین اپ شروع

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عامر خاکوانی:
عمران خان کا آپریشن کلین اپ شروع ہوچکا۔ جہانگیر ترین اور خسرو بختیارکے گرد ایف آئی اے کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے، ترین صاحب کو زرعی ٹاسک فورس کی چیئرمین شپ سے ہٹایا جا چکا، صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری سے استعفا لے لیا گیا، خسرو بختیار بھی ماضی بن جائیں گے، رزاق دائود کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔

نسیم صادق جیسے بیوروکریٹ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ سب سے اہم یہ کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائیوں کا ذمہ دار وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم کو سمجھا جا رہا تھا، انہیں بھی ہٹایا جا رہا ہے۔ یہ بہت اہم اشارہ ہے۔ لگتا ہے کہ عمران خان نے اپنے سب بوجھ ہٹانے کے فیصلے کر لئے ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ آٹا کرائسس کے ہنگام پنجاب میں کوئی اور بڑی تبدیلی بھی آ جائے۔

مجھے ان لوگوں پر حٰیرت ہو رہی تھی جو پچھلے دو دنوں سے یہ لکھ رہے تھے کہ کچھ نہیں ہونا اور فرانزک آڈٹ میں جہانگیر ترین ، خسرو بختیار وغیرہ کو بری کر دیا جائے گا اور یہ محض ڈھکوسلا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ رپورٹ جاری ہی نہ کی جاتی۔ تجزیہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی وش فل تھنکنگ اورپسند نا پسند سے اٹھ کر صورتحال کو دیکھا جائے۔

یہ فیصلے بہرحال عمران خان کے فیصلے ہی ہیں۔ ان پر بے شک تنقید کریں یا ستائش کریں، مگر یہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے نہیں ۔ عمران خان نے آٹا سکینڈل کے بعد ہی سے جہانگیر ترین کے ساتھ فاصلے پیدا کر لئے تھے، دو ہفتوں تک ملاقات نہیں کی اور پھر ملاقات ہوئی بھی تو سردمہری ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت ہی باخبر حلقوں نے کہہ دیا تھا کہ خان صاحب کے دل میں دراڑ پڑ گئی ہے اور ایک بار جب ان کا شیشہ دل ٹوٹ جائے تو پھر وہ اپنے دیرنیہ دوستوں اور کزنز تک کی پروا نہیں کرتے۔

عمران خان نے بڑے فیصلے کئے ہیں، ان کے مضمرات ظاہر ہے گہرے اور سنگین بھی ہوسکتے ہیں۔ صورتحال کسی بھی طرف جا سکتی ہے، مگر اتنے بڑے فیصلوں کے لئے وزیراعظم نے اہم حلقوں سے یقیناً مشاورت کی ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں کیا نئی مووز آتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ردعمل بہت اہم ہے۔ گجرات کے چودھری تو اوپر سے اجازت لئے بغیر کھانستے بھی نہیں۔ البتہ وہ تلملا تو ضرور رہے ہوں گے۔

عمران خان کو چاہے اس کا نقصان ہو، مگر اس نے مورل گرائونڈ پر بڑی کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔ جو وعدہ اس نے کیا وہ پورا کر دیا۔ اپنے حامیوں اور کارکنوں پر یہ واضح کر دیا کہ وہ بے شک سیاسی کمپرومائز کر رہا ہے ،مگر ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا اور نہ ہی وہ کرپٹ لابی کے ہاتھوں میں کھیل سکتا ہے۔ اس کے سمجھوتے بھی ایک خاص حد تک ہی ہیں، ریڈ لائن کراس ہوتے ہی وہ بے لحاظ ہوجاتا ہے۔

میرے خیال میں عمران خان کے ان اقدامات کو سراہنا چاہیے۔ ایسا ہم نے ماضی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیشہ حکمرانوں نے اپنے طاقتور ساتھیوں کے خلاف جانے سے گریز کیا۔ مافیاز کو تو کوئی بھی نہیں چھیڑتا۔
اس میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بارے میں تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ متبادل وزیراعظم ہیں اور اہم حلقوں سے رابطوں میں ہیں۔

اس پس منظر میں شاہ محمود قریشی تو خود عمران خان کے لئے خطرہ ہیں۔ شاہ محمود کے مخالف جہانگیر ترین گروپ کو سیاسی مصلحت کے تحت عمران خان کو اپنےزیادہ نزدیک کر لینا چاہیے تھا، مگر خان نے خود جہانگیر ترین ہی کو اڑا دیا۔ یہ ایک بڑا خطرہ مول لینے والا کام ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
”نائب وزیراعظم“ کی چھٹی،کیا وزیراعظم سے بیوفائی کا نتیجہ ہے؟

ایک دلچسپ تھیوری یہ چلائی گئی ہے کہ عمران خان نے جہانگیر ترین کے خلاف کوئی بڑا ایکشن نہیں لیا، چئیرمین زرعی ٹاسک فورس تو وہ تھے ہی نہیں، اس لئے ہٹانا بے مقصد ہے جبکہ خسرو بختیار کی وزارت تبدیل ہوگئی تو اس کے خلاف بھی کچھ نہیں کیا گیا ۔

بھائی لوگو! ممکن ہے آپ اتنے سادہ ہوں کہ سامنے کی بات نہ سمجھ آ رہی ہو یا پھر عمران خان کے اتنے مخالف کہ نیند میں بھی کلمہ خیر نہیں ادا کر سکتے یا کوئی اور مجبوری دامن گیر ہو ، یہ سب چیزیں ہو سکتی ہیں، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ کے جاری ہونے اور جہانگیر ترین کے خلاف یہ خبر چلانے سے کہ انہیں زرعی ٹاسک فورس کی چیئرمینی سے ہٹا دیا گیا،

آپ کو لگتا ہے کہ اس سب کچھ سے جہانگیر ترین خوش ہوا ہوگا تو اپنی معلومات، تجزیے سب کچھ پر نظرثانی کریں۔ اسی طرح بے شک خسرو بختیار کو ابھی اور وزارت مل گئی، مگر کیا اس رپورٹ کے سامنے آنے سے جس سے نہ صرف اس کی فیملی بلکہ اس کا اہم ترین پارٹنر چودھری منیر بھی رسوا ہوا، اس سے کیا مخدوم خسرو بختیار خوش ہوا ہوگا؟

آپ مانیں نہ مانیں، سمجھیں نہ سمجھیں ،مگر عمران خان نے جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور بعض دیگر اہم طاقتور لوگوں بلکہ ایک طرح سے مافیاز کے خلاف بڑا دلیرانہ، پرخطر، جارحانہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ وکٹیں چھوڑ کر پیچھے ہٹ کر ڈو آر ڈائی والا شاٹ ہے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین وغیرہ کے تعلقات مثالی نہیں تھے، مگر جیسے بھی تھے ، اس رپورٹ کے بعد کبھی ویسے نہیں رہ پائیں گے۔ یہ تو سامنے کی حقیقیت ہے۔

عمران خان کے سامنے یہ بات یقیناً رہی ہوگی کہ جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کے کئی اہم الیکٹ ایبلز کے ساتھ گہرے ، ذاتی تعلقات ہیں، زرتاج گل سے اسحاق خاکوانی، نذیر جٹ سے خسرو بختیار،جبکہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں پورے اینٹی شاہ محمود قریشی گروپ کی سرپرستی جہانگیر ترین ہی کرتے رہے ہیں۔ اب اس موقع پر ترین کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے، یہ الگ سوال ہے،

مگر ایسا نہیں کہ جہانگیر ترین تحریک انصاف کی حکومت کو ڈینٹ نہیں ڈال سکتا۔ ہم سب یہ جانتے ہیں۔ یہ بھی کہ عمران خان نے اپنی حکومت تک دائو پر لگا دی ہے۔ اس کے باوجود اگر نہیں ماننا تو بے شک نہ مانئے۔ آپ کے ماننے، نہ ماننے سے حقائق تبدیل تو نہیں ہوجاتے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں