شائستہ جبیں:
غلام شبیر پنجاب کےایک دور اُفتادہ گاؤں کا رہائشی ہے. اس کے پاس چند ایکڑ زرعی زمین ہے جس میں وہ چارہ اور سبزی اُگا کر نہ صرف بھینسوں کوپالتا ہےبلکہ اس کی گزر اوقات کا ذریعہ ہی زرعی زمین اور مال مویشی ہیں۔ سبزی اور دودھ بیچ کر وہ اپنےکنبے جس میں وہ دونوں میاں بیوی، ان کےچاربچے اور بزرگ والدین شامل ہیں، کی کفالت کرتا ہے.
اس کےبیوی بچےکھیتوں میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں کیونکہ وہ اکیلا اتنی جسمانی مشقت کا متحمل نہیں ہوسکتا. دیہاتی پس منظر رکھنے والے یہ بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ زمین میں کچھ اُگانا، کاشت کرنا، کس قدر جسمانی مشقت کا حامل مشکل ترین کام ہے. اس کےلیے افرادی قوت درکارہوتی ہے۔ غلام شبیرجیسےمعمولی کاشتکار جو زرعی عمل میں آسانی فراہم کرنے والی مشینری اور برقی آلات خریدنےکی استطاعت نہیں رکھتے، ان کےلیےیہ عمل مزید مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہےکہ اس کے تمام اہلِ خانہ کو اس کا ساتھ دینا ہوتا ہےتا کہ وہ معاشی آسودگی حاصل کرسکیں. کرائے پرٹریکٹر بُلوا کر ہل چلانا، زمین کوسیراب کرنا، موسمی شدت سےچارے اور سبزیوں کو محفوظ رکھنا، چارہ کاٹ کر بھینسوں کوڈالنا، پانی پلانا، سبزی ہر روز شام کوکھیتوں سےچُن کر، صاف کرکےدھوکے سبزی خریدنےوالےکو پہنچانا، دودھ صبح شام ہوٹل پر دینا، اس مشقت کےنتیجےمیں وہ اس قابل ہوتاہےکہ اپنےآٹھ افراد پر مشتمل کنبےکاخرچ اُٹھاسکے۔
اس کےلیےزندگی اپنےخاندان کی ضروریات کوپوراکرنےکےلیےہر طرح کی جسمانی مشقت کوتیار رہنے کا نام ہے. اس کی پوری دنیا انہی آٹھ نفوس کےگرد گھومتی ہے جن کی ضروریات کی فراہمی کو وہ اپنا مقصد حیات سمجھ کر محنت کرتاہے۔
اس کی دنیا اپنے مخصوص اندازمیں چل رہی تھی کہ کورونا وائرس نامی زوردار پتھر سے اس میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔ غلام شبیرکی چوبیس گھنٹوں میں واحد تفریح رات کے وقت مقامی زمین دار کےڈیرے پرایک گھنٹہ گزارناتھا جہاں سارے گاؤں کے مرد جمع ہوتے، خبریں سنی جاتیں اور علاقےکے حالات سےبھی آگاہی رہتی.
پہلےپہل تو یہی معلوم ہواکہ چین میں کوئی بیماری پھیل گئی ہے جو ایک سےدوسرے کولگتی ہے، لیکن اُسےیہ اندازہ ہرگزنہیں تھا کہ یہ بیماری دنیا کےدیگرممالک کےساتھ ساتھ اس کےملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لینےوالی ہے. غلام شبیرکو تیرہ مارچ کی رات ڈیرہ پر ہی پتہ چلا کہ بیماری اس کے اپنے ملک میں بھی پہنچ گئی ہے اور حکومت سب کچھ بند کررہی ہے۔
دیگردیہاتیوں کی طرح اس نےبھی یہی سمجھا کہ یہ بندش شہروں میں ہوگی، لیکن اگلی صبح اُس کےلیے بہت سی حیرت اور پریشانی کامؤجب بن کرآئی جب ضلعی انتظامیہ کی طرف سےدکانوں اور آمد ورفت کی بندش کا اعلان ہوا اور پولیس نے اس بندش کویقینی بنانےکوگشت شروع کردیا، ہوٹل والےنےدودھ لینےسے اور سبزی والےنےسبزی اُٹھانےسےانکارکردیا۔
غلام شبیرکی آنکھوں کےسامنےاندھیراچھاگیا کیونکہ اس کےپاس نہ تو ان اشیاء کو محفوظ کرنےکا کوئی انتظام تھا اور محفوظ کرکےکرتا بھی کیا، اٌسےتو روزانہ کےاخراجات انہی پیسوں سے پورے کرنےتھے. دو دن وہ لوگوں کو مفت دودھ اور سبزی دیتارہا تا کہ خراب ہونےکی بجائے لوگوں کےکام آجائے. لیکن اُسےبھی تو خرچ چلانا تھا،
وہ ہوٹل والےکےپاس گیاتو معلوم ہوا وہ چوری چھپےہوٹل چلا رہا ہے لیکن دودھ وہ آدھی قیمت پرلےگا کیونکہ اس کی سیل کم ہوگئی ہے، سبزی والےنےبھی خریدار کم ہونے کا بہانہ بنا کراونے پونےداموں سبزی اُٹھانےکا احسان کرنےکاکہا، صرف گاؤں کا دکاندار تھا جس کی دکان بھی کھلی تھی اور وہ پوری دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے پہلےسے خریدے مال پر بھی منہ مانگا اضافہ وصول کررہا تھا۔
ایک دورافتادہ گاؤں کےایک نیم خواندہ شخص کےلئےیہ کورونا نہیں رونا ہےکہ اس کی محنت بھی ویسی ہے، خرچ اور ضروریات بھی وہی ہیں جو پہلےتھیں لیکن اس کی آمدنی ایک جھٹکےسے ختم ہوگئی ہے۔ یہ بےبسی کی کیفیت، اپنی سفید پوشی کابھرم، تمام تر مشقت کےباوجوداہل خانہ کی ضروریات پوری نہ کرسکنےکا احساس اس کی روح کوگھائل کررہاہے۔ کورونا اُس تک پہنچےنہ پہنچے حالات کا رونا ضرورپہنچ گیا ہےاور اس رونےسے وہ جانبر ہوگا یا جان سےجائے گا، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرےگا۔
9 پر “ک…. کورونا، ر…. رونا” جوابات
بہت اچھی تحریر ہے… اس وقت ملک کی یہ حالت سب کے لیے ایک جیسی نہیں ہے..غریب کو رونا سے ذیادہ بھوک کی مشکلات کا سامنا ہے..
Dr shaista you have wrote a worth reading column which clearly depicts the situation of lower class layman. This corona lockdown means a variety of different meanings for different classess…
Dr Shaista Jabeen apki ye tehreer boht umdgi sy aj ky in masaeeel ki akasi krti hy jis sy oper ka tabka to phr bhi smbhal ky betha hy blky sb sy zda mutasir hmara nichla tabka ho rha hy.. Hmari dehati abadi bilkul ici tra sy hi ic beemari ki lapeyt m hy.
Jismani beemari m na hoty hoy b wo esi hi muaashi beemari sy do char hen..or ap ny ye aspect bilkul sahi byaan kia ky mehnat unki wesi hi 100% hy apny kam ky peechhy but unki ujraat ic wkt na hony ky brabar hy.. Bs dua hy ky halat jld behtr hon or govt ko b chahiye ky in ilako m b ja kr logo ki pursan e haal bney.. Shukriyaa
. Excellent dear
Buhhtttt hi khoobsurat tehreer ye reality ko represent kr rhi totally..nowadays daily wages people are very fed up of this situation..truly said that they affected with corona or not but definitely died of hunger
( کورونا اُس تک پہنچےنہ پہنچے حالات کا رونا ضرورپہنچ گیا ہےاور اس رونےسے وہ جانبر ہوگا یا جان سےجائے گا، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرےگا.)
کھچ زیادہ نہیں پھر بس ہو گا یہ کہ ہم کہتے پھیریں گے کہ۔۔۔
غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا۔۔۔۔
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی۔۔۔۔
بہت ہی عمدہ تحریر ہے اور اس کے لکھے والے کی احساس طبیعت کی ترجمانی کرتی ہے بےشک آج کل کے دور میں آپ جیسے لوگ ہی ان کی آواز بن سکتے ہیں… جاری رکہے جازاک اللہ
Dear Shaeta! Me read your,s heart touching story which explains difficultes of poors life in rural area.It’s tregdy of our nation
who trust and depend on glitter Governess but all glitter is not gold.
Jidaor meen lut jaey ghareebon ki kmai..
Us shahir ky Sultan sy koi bhool hui hy.
Stay blessed
No wonder writers are the most sensitive of human beings .And who can better portray the sufferings of mankind than these souls. Welldone Dr shaista . This society needs to be expressed further through the gemstones like you.