ابن فاضل:
جب سے کرونا کا پھیلاؤ شروع ہوا ہے. تب سے ماہرین طب اس کا علاج اور عدم پھیلاؤ کے طریقوں کی تلاش میں ہیں. اس کے ساتھ ساتھ ایک اور میدان میں بھی تلاش جاری تھی. اور وہ یہ کہ اس سے ہونے والے نقصان اور اموات کا کسی بھی امر سے کوئی تعلق مل جائے تاکہ اس سے ہورہے نقصان کی رفتار کو کم کیا جا سکے. لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی ٹھوس شہادت یا یوں کہہ لیں کہ کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا کہ جس سے وثوق سے کہا جاسکے کہ اٹلی، ہالینڈ اور امریکا میں اموات کی شرح چین جرمنی اور بطور خاص جاپان میں کیوں زیادہ ہے۔
اٹلی میں زیادہ شرح اموات کی ابھی تک جو واحد دلیل دی جارہی تھی، وہ یہ تھی کہ وہاں چونکہ بڑی عمر کے لوگوں کی تعداد اور شرح زیادہ ہے اس لیے وہاں اموات زیادہ ہوئیں مگر اس دعوے کی نفی جاپان کی صورت حال کرتی تھی. جاپان میں عمررسیدہ افراد کی شرح اٹلی سے بھی زیادہ ہے مگر شرح اموات انتہائی کم بلکہ ساری دنیا سے کم. بجز اس کے کہ انہوں نے کسی قسم کا لاک ڈاؤن بھی نہیں کیا۔ دوسری طرف امریکا اور ہالینڈ سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہاں پر عمر رسیدہ افراد کا تناسب بھی جرمنی کے مقابلے میں زیادہ نہیں.
آخر نیویارک انسٹیٹیوٹ اوو ٹیکنالوجی کے کالج آوو اوسٹیوپیتھک میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گونزالو اوٹازو کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس معمہ کو کھوج نکالا. تیس مارچ کو شائع کیے اپنے مقالے میں انہوں نے اعدادوشمار کی روشنی میں یہ بات واضح کردی کہ جن ملکوں میں ان کی آبادی کو بی سی جی کی ویکسینیشن ہوئی ہے. ان لوگوں پر کرونا وائرس کے اثرات بالکل کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جو لوگ بی سی جی ویکسین سے آگاہ نہیں، ان کی سہولت کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ وہی ویکسین ہے جو ٹی بی سے بچاؤ کے لیے سب لوگوں کو بچپن میں لگائی جاتی ہے. اس تحقیق میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ اگرچہ ٹی بی ایک بیکٹیریل بیماری ہے تاہم اس کی تمام علامات کرونا کی بیماری سے ملتی جلتی ہیں. اور جن لوگوں میں ٹی بی کے خلاف مدافعت موجود ہے ان پر کرونا کا اثر بہت کم ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کورونا وائرس:پاکستانیوں کو زیادہ خطرہ نہیں،صورت حال بہتر
ڈاکٹر گونزالو اوٹازو کی ٹیم نے اٹلی، جرمنی، امریکا، ہالینڈ اور جاپان کے دستیاب اعدادوشمار سے یہ بات نوٹ کی کہ اٹلی میں بی سی جی ویکسین 1985 میں باقاعدہ حکومتی سطح پر شروع کی گئی. اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اٹلی کے باشندے 1980 تک پیدا ہوئے وہ بحیثیت مجموعی اس ویکسینیشن سے محروم رہے یعنی پچاس سال سے اوپر کی تقریباً ساری آبادی.
دوسری طرف جاپان میں 1949 میں حکومتی سطح پر بی سی جی ویکسینیشن ہورہی ہے. اسی طرح جرمنی کی ساری آبادی کیلئے یہ لازمی ہے جبکہ ہالینڈ میں نہیں. اس سٹڈی کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کی صداقت کی جانچ کیلئے فوری طور پر تجربات شروع کردیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی امریکا میں عمر رسیدہ شہریوں اور طبی عملے کو فوری طور پر بی سی ویکسینیشن کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔
اب اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیں تو 2012 میں آغاخان یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کی کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں یوں تو 1949 سے ہی ٹی بی ویکسینیشن شروع کر دی گئی لیکن 1970 کے بعد سے یہ باقاعدہ کی جارہی ہے. ( اس ضمن میں اگر کسی کے پاس مزید درست معلومات ہوں تو براہ مہربانی شیئر کیجئے.) اگر یہ بات درست ہے تو پھر میرے ہم وطنوں کیلیے یہ بہت بڑی خوش خبری اور حوصلہ افزا خبر ہے. اللہ کریم کے فضل وکرم سے پاکستان جاپان کی طرح بہت زیادہ نقصان سے محفوظ رہے گا۔ انشاءاللہ
یہاں یہ بتانا بھی غیر ضروری نہ ہوگا. کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ٹی بی کی باقاعدہ ویکسینیشن 1949 سے ہی کی جارہی ہے. بلکہ ان کے حالت ہم سے اس معاملہ میں اور بھی بہتر اس لیے ہیں کہ وہ عرصہ دراز سے نہ صرف اپنی ضرورت کی ویکسین خود بنارہے ہیں بلکہ 2000 سے وہ باقی دنیا کو برآمد بھی کررہے ہیں.
ایک تبصرہ برائے “کرونا وائرس: پاکستان، انڈیا میں کیوں زیادہ نہ پھیل سکا؟”
منطقی بات, آج ہی اس بارے میں معلومات ملیں اور آپ نے تصدیق کر دی… بہت بروقت صحتمندانہ آرٹیکل. جیتے رہیں. آمین