نرگس کا پھول

نرگس کا پھول

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف:
وہ ایک پرکشش چہرہ کے ساتھ پرکشش جسم بھی تھا. غضب کے پیچ وخم کے ساتھ بل کھاتی کمر کے ساتھ اس کی حرکات و سکنات پر ہر نگاہ جمی تھی. سپر مارکیٹ میں پہلی بار میں نے کسی خواجہ سرا کو اتنی خوداعتمادی سے اپنی مخصوص باڈی لینگویج کے ساتھ سامان چنتے، ٹرالی بھرتے دیکھا تھا۔

میں بھی ان دیکھنے والوں میں سے تھی، اس کی ٹھوڑھی کا گڑھا اور گھنی پلکیں دونوں ہی مجھے اس کی جانب گاہے بہ گاہے متوجہ کرتیں اور میں ٹرالی کو حرکت دیتے گردن گھما کر دیکھ ہی لیتی.
یہ دونوں چیزیں مجھے ماضی کے دھندلکوں سے دلشاد کو نکال کر حال میں مجسم کر گئیں تھیں.

دلشاد کو دیکھ کر ایک رعب سا پڑجاتا، خوب طویل القامت، اور مضبوط جسم کے ساتھ ہلکے رنگوں کے شلوار قمیض، پیر میں مردانہ ڈیزائن کے سادہ چپل، آواز بھی شفیع محمد جیسی.

مجھے حیرت ہوتی کہ خواتین کی اس جگہ پر ان صاحب کی موجودگی کا کیا کام جن کی گڑھے والی ٹھوڑی اور آرک شکل کی بھنویں مجھے ان کی جانب متوجہ رکھتیں۔

میں ان دنوں اسکول کی طالبہ تھی.. اور یہ جگہ ایک نفیس سا کلینک تھا جو جزوی طور پر پارلر کی خدمات بھی مہیا کرتا لیکن اس کا بنیادی مقصد خواتین کے ان جسمانی بالوں کا علاج تھا جو غیر متوازن ہارمونز کی بنا پر غیر فطری جگہوں پر ظاہر ہوکر ان کی ہیئت بگاڑ دیتے ہیں۔

اس جگہ لکڑی کی جعفری کا خاصا استعمال تھا، جو ہر وقت چمکتی رہتیں. مالکن کسی نامور لائق طبیب کی زوجہ محترمہ تھیں جو تعلیم یافتہ اور باوقار دکھتی تھیں۔

ان خاتون نے انگلینڈ سے electrolysis کا جدید کورس انیس سو اسی کی دہائی میں کرکے کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں خواتین کے لیے یہ جگہ قائم کرکے عظیم خدمت کی۔ جمیلہ کے جمال کو برقرار رکھنے میں مدد دی۔

میری ایک عزیزہ کو بھی ہارمونز کے مسائل بنا یہ شکایت تھی، سو کبھی کبھار ان کے ساتھ جانا ہوجاتا. نوے کی دہائی شروع ہوچکی تھی، لیکن دلشاد کی موجودگی اس وقت تک خواتین کے درمیان عجیب لگی، حسینہ معین کا قباچہ عورتوں کے مذاق کا نشانہ بنتا دیکھ چکے تھے لیکن دلشاد کا بھنویں بنوانا اس ماحول میں کسی کو عجیب نہ لگتا. جلد ہی میری عزیزہ نے بتایا کہ دلشاد دراصل خاتون ہیں اور ائرلائن کمپنی میں اچھی پوسٹ پر.

اس عمر میں یہ بات بہت ہی سنسنی خیز تھی کہ اتنا شاندار نظر آتا مرد اصل میں عورت ہے. اور بہت لائق عورت ہے. اس کے چہرے پر بال کی کثرت کا مسئلہ اسے یہاں لاتا . وہ جو طبعاً عورت تھی.. بس اس حد تک اپنے آپ کو عورت جیسا اہتمام دیتی جو اسے مرد اور عورت کی درمیانی مخلوق میں معلق نہ دکھائے۔

اس کی آواز میں نارمل انداز تھا، مضبوطی تھی جو ایک بااثر پوسٹ پر کام کرنے والے کے اندر لاشعوری طور اتر جاتی ہے، اور سلجھا طریقہ جس نے میری یادوں کے کارڈ میں دلشاد کو کبھی خواجہ سرا کی فہرست میں نہ رکھا.

بقول ناصر کاظمی وہ ایسا نرگس کا پھول تھا جو کالے پتھر کی سیڑھی پر کھلا تھا۔

نصرت یوسف کی مزید کہانیاں پڑھیے:
پھڑپھڑاتے پر

“جتنے رنگ ہیں چاہت کے…..”

خواب تھا کوئی…

سانس گرہن

سدا جیۓ

وہ ہے نا….

پل بھر میں

ہیروں کی کان

سجی خدمت، نیا اردو افسانہ

بلیک ہول: نئی اردو کہانی

قطرے

دھبے

خوش بخت

احساس

پنکھ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں