ڈاکٹرجویریہ سعید:
اہل خانہ گھروں میں محدود ہوگئے ہیں تو خواتین کی مصروفیات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ گھر کی صفائی ستھرائی، کھانے پکانا ، برتن دھونا اور ایسے کئی کام بڑھ گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی سختیاں شروع نہ ہوئی تھیں تو کچھ خواتین مہمان داری کے بڑھ جانے کی وجہ سے بھی کاموں میں بے پناہ اضافے پر ہلکان ہورہی تھیں۔
اس صورتحال میں وہ سوال پھر اٹھا کہ بیٹوں کو گھر کے کاموں میں شمولیت اور خصوصاً اپنے کام خود کرنے پر کیسے تیار کیا جائے؟
اس سے قبل بھی بات ہوتی رہی ہے کہ مرد حضرات گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں یا نہیں۔
پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ گھر کے کاموں میں مردوں کی شمولیت کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین اپنی ذمہ داریاں ان پر ڈال دیں۔ اور حضرات گھر کے باہر کی ذمہ داریوں کے ساتھ کچن اور لانڈری بھی سنبھال لیں۔
گھر کیا ہے؟ اور گھر کا کام کیا ہے؟ آپ کے یہاں کاموں کی تقسیم کیسی ہے؟ آپ کی اور آپ کے شوہر کی مصروفیات کیا ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کام نہیں، احساس اہم ہوتا ہے۔ تو کیا آپ اور آپ کی زندگی کے ساتھی ایک دوسرے کے لیے قدر و تشکر کا احساس رکھتے ہیں؟
اور اس احساس کے اظہار کی صورت کیا ہے؟
یہ باتیں زیادہ اہم ہیں۔
سو گھر کے کام تو بہت سے ہوتے ہیں۔
صرف کچن اور لانڈری ہی گھر کے کام نہیں اگرچہ یہ سارا دن کی مشقت تو ہے۔
گھر کے فنانسز، سودا سلف لانا، گاڑی کی مین ٹیننس، بل، فیسیں، گھر اور اس کے سازوسامان کی مرمت ، بچوں کی تربیت، رشتے داروں سے معاملات وغیرہ وغیرہ۔ تو جائزہ لیں کہ
• اگر آپ کے یہاں کاموں کی مناسب تقسیم ہے تو ایسے میں اگر آپ اور آپ کے شوہر اپنے اپنے کاموں کو مناسب طور پر کرتے ہیں۔
• ضرورت پڑنے پر اور ایک فارغ ہو تو دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔ (مثلاً آپ بیمار ہیں، آپ کے کام بہت بکھرے ہوئے ہیں اور وہ نسبتاً فارغ ہیں )
• اگر آپ دونوں ایک دوسرے کے کاموں کی قدر کرتے ہیں اور اس کا مناسب طور پر اعتراف و اظہار بھی کرتے ہیں۔ (زبانی، یا کہیں گھما پھرا کر، تحائف دے کر، یا بچوں کو کہہ کر کہ امی/ابو تھکے ہوئے ہیں ، ان کو تنگ نہ کیا جائے، یا آپ کو تھکا ہوا دیکھ کر کم پر راضی ہو جائیں اور کہیں کہ ابھی جو آسانی سے ہو وہ کر لیں، باقی بعد میں کرلیجیے گا، یا کہیں کہ آپ تھکے ہوئے ہیں ، اب آرام کر لیجیے)
•گھر کے معاملات میں کمی بیشی ہوجانے پر آپے سے باہر نہیں ہوتے، سمجھتے ہیں اور غصہ و طعنہ زنی نہیں کرتے۔
• اگر آپ ایک دوسرے پر کاموں کا زیادہ بوجھ دیکھ کر ایک دوسرے کی سہولت کا انتظام کردیتے ہیں۔( مثلا پاکستان میں کام والی مددگار ، باہر ممالک میں ڈش واشر اور دوسری مشینری کا انتظام کردینا)۔ بچوں کو ڈاکٹر کے پاس یا دوسرے اہم اپائنٹمنٹ کے لیے لے جانا۔
• جب آپ مصروف ہوں تو بچوں یا گھر والوں کو سنبھال لینا۔ رشتے داروں کے معاملات میں آپ کو سہارا دینا بھی بہت بڑا کام ہے۔
تو یہ سب بھی مدد ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے سے بھی شکریہ کرنا چاہیے۔
آپ یقین کریں کہ تو تو میں میں کے ماحول میں زوجین میں سے کسی ایک کا یہ کہہ دینا کہ
”یار میں آپ کی فلاں چیز کی/کا بڑا معترف ہوں“
”آپ کی یہ خوبی تو مجھے بے حد پسند ہے۔“
اور / یا
”مجھے تو اس خوبی میں آپ سب سے اعلیٰ لگتے/لگتی ہیں۔ یہ بات میں نے اوروں میں کم ہی دیکھی ہے۔“
گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم سب کو محبت کا اعتراف اور ستائش و تائید چاہیے ہوتی ہے۔ وہ مل جائے تو جادو کا سا اثر کرتی ہے۔
اس سب کے بعد عرض ہے کچھ وہ کیسز جہاں زوجین یا شوہر حضرات مذکورہ بالا نکات میں سے کسی بات کے روادار نہ ہوں اور ان میں سے کسی ایک چیز پر بھی آمادہ نہ ہوں تو یہ ایک abusive relationship ہے جو رشتے و تعلق کو تباہ کرتی ہے۔
سوشل میڈیا یا تقریبات میں چونکہ لوگوں کی خوشی و غم کا بڑا مصنوعی تاثر پڑتا ہے۔ کتنے ہی لوگ کسی کی متاثر کن تصویر یا روداد یا کومنٹ سے رشک و حسد میں مبتلا ہوتے ہیں اور بہت سے خود ملامتی اور حسرت میں اور کچھ لوگ فخر و تکبر میں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم چیزوں کو ذرا وسیع کینوس میں دیکھیں۔ اور چند باتوں یا تصاویر سے اپنے اندر کوئی منفی تاثر نہ ابھرنے دیں۔ یہ ورچوئل دنیا ہے جہاں الیوزن پیدا کرنا مشکل کام نہیں۔
معاملات کی بہتری کے لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا اور چھوٹی چھوٹی اور بڑی باتوں پر ایک دوسرے کی تعریف اور اظہار محبت زخموں کو بھر دیتا ہے اور زندگی بہتر ہوجاتی ہے۔
پھر ایک دعا کو حرز جاں بنانا چاہیے
اللھم الف بین قلوبنا
و اصلاح ذات بیننا
واھدنا سبل السلام
(بیٹوں کی تربیت کے لیے کیا کوششیں کی جائیں، اس پر آئیندہ بات کی جائے گی ۔ ان شاءاللہ)