ڈاکٹرعاصم اللہ بخش، کالم نگار

کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرعاصم اللہ بخش:
بیجنگ اور شین زنگ کے درمیان واقع، ’’ووہان“، چین کا بڑا صنعتی شہر ہے۔ دسمبر 2019 سے ووہان عالمی میڈیا کی ہیڈلائنز کا مرکز بنا ہوا ہے، کیونکہ یہاں ایک ایسی بیماری کا انکشاف ہوا جو آج عالمگیر وبا کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جسے ہم ”کرونا وائرس“ یا ”Covid-19“ کے نام سے جانتے ہیں۔

ووہان کی کل آبادی ایک کروڑ دس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر پر اڑھائی سے تین لاکھ افراد شہر کے اندر داخل ہوتے ہیں، یا یہاں سے باہر کا سفر کرتے ہیں۔ جب اس بیماری کا آغاز ہوا تو کوئی اس کی حقیقت سے واقف نہیں تھا، کوئی احتیاطی تدابیر نہیں تھیں، کسی Social Distancing کا تصور نہ تھا۔

لوگ کھلم کھلا شہر میں آ جا رہے تھے، روز مرہ کی زندگی پوری طرح رواں دواں تھی، الغرض، کسی وبا کے پھیلنے کے تمام امکانات پوری طرح موجود تھے۔ اس سب کے باوجود پورے چین میں کل اکیاسی ہزار افراد میں اس بیماری کے آثار ظاہر ہوئے، اور ان میں سے تین ہزار کی بیماری اس قدر شدید نوعیت کی تھی کہ وہ جان بر نہ ہوسکے۔ یعنی ایک کروڑ دس لاکھ کی شہر کی آبادی، اتنے زیادہ لوگوں کا شہر میں آنا جانا، حفاظتی اقدامات مفقود، اور اس سب کے باوجود کل 81 ہزار افراد متاثر ہوئے۔ یہ ایک منظر نامہ ہے ۔

دوسری جانب منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ دنیا بھر کے اہم ترین مذہبی مقامات، بلا تخصیصِ مذہب، اس وقت وقت عبادت گزاروں سے خالی ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں چوبیس گھنٹے عبادت گزاروں کا جم غفیر رہتا تھا تھا۔ لیکن اب ان سب کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشہ کے باعث عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔

مندرجہ بالا دونوں منظرناموں کو ملا کر دیکھا جائے تو تصویر کچھ یوں بنتی ہے :
1۔ یہ بیماری کسی ایسی صورتحال کی پیامبر نہیں کہ یہ ہر صورت لاحق ہو کر ہی رہے گی یا اگر ہو جائے تو یہ لازماً پروانہ اجل ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کسی مایوسی، کسی سراسیمگی کی ضرورت نہیں۔

2۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنی وبائی صورت میں یہ ایک سنگین چیلنج ہے۔ کوئی بھی phenomenon جب معمول سے بڑھ جائے تو معمول کے انتظامات/وسائل چٹخنے لگتے ہیں۔ وبائی صورت میں ہم نہیں جانتے کہ یہ مرض کس کو کس وقت آ جکڑے اور اس وقت اس شخص کی عمومی صحت کی کیا پوزیشن ہو۔ گویا ہمیں اس میں سے Element of Surprise کا خاتمہ کرنا ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے پھیلاؤ کی کَڑیاں توڑنا کلیدی اہمیت کا حامل اقدام ہے تاکہ بالخصوص یہ معاشرے کے ان طبقات کو متاثر نہ کرے جو بڑھتی عمر یا گرتی صحت کی وجہ سے سے اس کا باآسانی شکار بن سکتے ہیں۔ اسی لیے عبادت گاہوں کو بھی بند کیا گیا جن سے انسان کی شدید ترین جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔ اس سے آپ یہ جان لیجیے کہ یہ کس قدر سنجیدہ معاملہ ہے۔

اس تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ افراتفری کسی مسئلہ کا حل نہیں، نہ ہی اشیائے خور و نوش کا اسٹاک ہمیں کوئی تحفظ دے سکتا ہے۔ گھبراہٹ کے بجائے احساس ذمہ داری ہمارے لیے زیادہ اہم محرک ہونا چاہیے۔ بات سادہ ہے، بنیادی طور پر خطرہ فرد کو نہیں،

فرد کا علاج ممکن بھی ہے اور شافی بھی، اصل چیلنج معاشرے کے Vulnerable حصہ کو درپیش ہے۔ اور معاشرے کے مذکورہ طبقات ہمارے اپنے گھر میں کسی بزرگ یا کسی بیمار عزیز رشتہ دار کی صورت موجود رہتے ہیں۔

یہ وقت ان کے لیے اہم ہے، اور ان کے بچاؤ کے لیے ہمیں بحیثیت قوم ایک مشترکہ کوشش کرنی ہے۔ اس کا پہلا اور اہم ترین زینہ احتیاط ہے، خود محفوظ رہیں تاکہ اپنے پیاروں کو محفوظ رکھ سکیں۔ بس !


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں