محمد بلال اکرم کشمیری:
انسان کی تاریخ جنگ و جدل سے عبارت ہے،خواہ جنگ کا مقصد لسانی و مذہبی ہو یا وسائل کا حصول۔غرض ہر قوم کی تاریخ میں آتش و آہن کی داستانیں ملتی ہیں،جنگ میں فتح کا اندازہ فوج کے ساتھ ساتھ اسلحے کی تعداد سے لگایا جاتاتھا۔ماہرین حرب دشمن کو شکست دینے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے تھے،روایتی حملوں سے ہٹ کر نئے حملے کی تدبیر ہی فتح سے ہمکنار کرتی تھی۔
حال ہی میں چین کے اندر ”کرونا“نامی وائرس کی ایک قسم (COVID-19) نے تباہی مچائی، ہزاروں متاثر ہوئے اورسینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ پھر یہ وائر س یہاں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گیا، تادم تحریر پاکستان،ایران،انڈیا اور آسٹریلیا سمیت 188 ملکوں کے باشندوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ یہ وائر س اصل میں ہے کیا؟ کیا یہ تیار شدہ ہے یا پھر واقعی یہ کوئی قدرتی آفت ہے؟
قدیم زمانے میں محاصرہ ہونے پر فوج مختلف جڑی بوٹیوں کو جلا کر ان کا دھواں دشمن پر چھوڑتی تھی جس سے دشمن محاصرہ ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا۔اس کے علاوہ دشمن پر شہد کی مکھیوں کے چھتے پھینک دیئے جاتے تھے جس سے دشمن کی ڈھالیں اور تلواریں کسی کام کی نہ رہتیں اور مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے قافلے میں افراتفری پھیل جاتی۔
اطباء بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں پر تحقیق کرتے تاکہ ان کی افزائش کرکے انہیں دشمن پر چھوڑا جا سکے۔حیاتیاتی و کیمیائی علوم نے جوں جوں ترقی کی اس کے ساتھ ہی کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں میں بھی اضافہ سامنے آیا۔ایک طرف میڈیکل سائنس کو انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیا گیا تو دوسری جانب اس کا تاریک پہلو بھی سامنے آیا،
تجربات کے نتائج میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا وہ دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔یہ بات تو قدیم طریقہ کار کی تھی جب لوگ جدید کیمیکل اور حیاتیات سے زیادہ واقف نہیں تھے لیکن بدلتے وقت کی ایجادات اور تجربات نے انسانیت کے پرخچے اڑا دیئے۔
جوہری جنگ
یہ سب سے زیادہ خطرناک جنگ ہے،جس میں جوہری طاقت کا استعما ل کیا جاتا ہے،دوسری جنگ عظیم (1945-1939) کے اختتام پر امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیئے،جس سے ہیروشیما میں 90,000سے 166,000افراد جبکہ ناگاساکی میں 60,000سے80,000افراد ہلاک ہو ئے۔وہاں طویل عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ بچے پیدا ہوتے رہے۔
پاکستان سمیت دنیا میں متعدد ممالک کے پاس ان ہلاکت خیز بموں کی کثیر تعداد آج بھی موجود ہے۔ان خطرناک جوہری ہتھیاروں میں ایٹم بم، ہائیڈروجن بم،نیوٹران بم اور ڈرٹی بم قابل ذکر ہیں۔مگر اس واقعہ کے بعد دوبارہ دنیا میں کسی جگہ ایٹم بم استعمال نہیں کیا گیا۔
کیمیائی جنگ
اس جنگ میں زیادہ تر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اسے ہوا یا پانی میں ملا دیا جاتا ہے یا پھر گیس کی شکل میں خارج کیا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران بیلجیم کے قصبے ویسپر میں 22اپریل 1915ء کو جرمن فوج نے پہلا کیمیائی حملہ کیا اور فرانس کی دو ڈویژن پر150ٹن کلورین فضا میں چھوڑی جس سے متعدد فوجی اس زہریلی گیس کا شکار ہوگئے۔
جولائی1917ء میں (جرمن فوج ہالینڈاور بیلجیم کو روندتی ہوئی فرانس کی سر زمین تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی) جرمن فوج نے بیلجیم کے قصبے ویسپر کے نزدیک ”مسٹرڈ“ گیس کا استعمال کیا۔اس کے اثر سے ابتدائی طور پر چھینکیں آتیں اور آنکھوں میں جلن پیدا ہو جاتی،اور اگر یہ گیس جسم کے کسی حصے کو چھوجاتی تو وہاں آبلے پڑ جاتے تھے اور ان زخموں کو مندمل ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا تھا۔
بعد ازاں ورسل معاہدے کی رو سے جرمنی کو ایسی گیس بنانے اور اس کے استعمال سے روک دیا گیا۔جنگ عظیم اوّل میں جہاں راکٹوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا وہاں کیمیائی ہتھیاروں کا بھی خطرناک حد تک استعمال ہوا۔ان کیمیائی حملوں میں ”آنسو گیس“ ”اعصاب شکن گیس“کے علاوہ ”کلورین گیس“ کا بھی استعمال ہوا۔
دوسری جنگ عظیم(1939-1945) میں برطانیہ نے1942میں آپریشن ویجیٹیرین (Operation Vegetarian) کے دوران جرمن جانوروں کے کھانے میں ”اینتھراکس“ ملا دیا تھا۔ بعد ازاں ان جانوروں کے ذریعے سے یہ خطرناک بیماری دودھ اور گوشت کی شکل میں جرمنوں میں منتقل ہوئی۔
آج کیمیائی حملوں کے طریقوں میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور کیمیائی حملے میزائل کے ذریعے کیے جارہے ہیں،مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے باوجود تمام ممالک خود تو کیمیائی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہو نا چاہتے ہیں مگر دوسروں کو اس عمل سے روکنا چاہتے ہیں۔امریکا نے بھی کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود یہ کہہ کر عراق پر حملہ کیا کہ عراق کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔
مظلوم کشمیریوں کے خلاف ”مرچی گرنیڈ“ کا استعمال کیا گیا جو اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف کر رہا ہے جس میں سرخ مرچوں کے علاوہ ایسے کیمیکل کام میں لائے جاتے ہیں جو پھٹنے کے بعد دھواں پیدا کرتے ہیں جس سے دم گھٹنے لگتا ہے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جا تاہے۔جنگ عظیم اول(1914-1918) کے خاتمے کے بعد جاپان نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیق کی غرض سے ”یونٹ 731“ بنایا،جس میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنائے جاتے اور انہیں جنگی قیدیوں پر استعمال کیا جاتا،کم و بیش ایک ہزار قیدی ان خطرناک تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن جنگ عظیم دوئم میں شکست کے خوف سے اس نے اس یونٹ کو تباہ کر دیا۔
22فروری 2011ء کو اس یونٹ میں کام کرنے والی ایک نرس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وہاں انسانیت سوز تجربات کیے گئے۔اس نرس نے بتایا کہ جب جاپان نے ہتھیار ڈالے تو انہیں سینکڑوں لاشوں کو دفنانے کا حکم دیا گیا اور یہ سب کام امریکی فوج کے پہنچنے سے پہلے کرنا تھا۔اس یونٹ کا تعلق جاپان کی امپیریل فوج سے بتایا جاتا ہے جس نے قیدیوں پر حیاتیاتی تجربے کیے۔
حیاتیاتی جنگ
حیاتیاتی جنگ کا سرا صدیوں پہلے کی تاریخ سے ملتا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ترکوں اور منگولوں نے بیماری سے مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ محصور علاقوں میں منگولوں اور ترکوں نے طاعون زدہ لاشیں پھنکوائی جس سے دشمن میں طاعون پھیل گیا اور سینکڑوں افراد نے جان گنوائی،
ایسا ہی ایک حملہ گریٹ نادرن وار (عظیم شمالی جنگ) میں روس نے سویڈن پرکیا۔دشمن کے پانی کے ذرائع میں ایسے پودے ڈالنے کی مثالیں موجود ہیں جن سے اس پانی کو پینے والے بیمار یا ہلاک ہوئے۔1918ء میں سپینش وائرس سے 40 سے 50 ملین افراد ہلاک ہوگے۔بعد ازاں 2009ء میں آنے والے سوائن فلو (H1N1،H1N2, H3N1, H3N2) سے دو لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے۔
2014ء میں ایبولا وائرس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے، مغربی افریقی ممالک میں ایبولا وائرس سے چار ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھنے والا یہ وائرس امریکا اور یورپ میں بھی پہنچا۔ مغربی ممالک کے ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ شام اور عراق میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجو ایبولا وائرس کو بائیو ویپن(Bio weapon) کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں،
جنگجو خود کو ایبولا سے متاثر کر کے مغربی ممالک آ سکتے ہیں اور یہاں وائرس دیگر انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ اس وقت فوجی تجزیہ کاروں کا موقف تھا کہ موجودہ حالات میں ایبولا کو بائیو ویپن کے طور پر استعمال کرناعین ممکن ہے۔
امریکا کے نیول وار کالج میں قومی سلامتی کے پروفیسرکیپٹن(ر)البرٹ شمکس کے مطابق ایبولا کو بائیو ویپن کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی مکمل طور پر قابل عمل ہے اور شدت پسند اس مقصد کیلئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں۔
امریکا کی خاتون پروفیسر امینڈا ٹیک مین نے عالمی جریدے گلوبل پالیسی میں ایک مضمون لکھا کہ ایبولا کے حیاتیاتی حملے سے دنیا کو سخت خطرہ ہے اور اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے کہ ایک جنگجو خود کو ایبولا سے متاثر کرے اور پھر مغربی ممالک میں گھسنے میں کامیاب ہو جائے جہاں ایئرپورٹس پر مسافروں کا سخت طبی معائنہ کیا جا رہا ہے، تاہم بعض دیگر ماہرین کے مطابق ایبولا کو کئی دیگر طریقوں سے بھی دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہے۔
اس خدشے کے پیش نظر امریکا اور یورپی ممالک کے انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر نہ صرف ہائی الرٹ جاری کر دیا گیابلکہ ماہرین نے مسافروں کا سخت طبی معائنہ بھی کیا۔ایبولا سے متاثرہ شخص دو تین ہفتوں تک بخار، گلے، پٹھوں اور سر کے درد میں مبتلا رہتا، مریض کو قے آتی اور خارش ہوتی تھی۔ مرض شدید ہوجائے تو جسم کے کسی حصے سے خون بہنے لگتا۔ایبولا خون، پسینے، تھوک، فضلے اور جسمانی تعلقات کے ذریعے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا۔
ایبولا خشک آب و ہوا والے علاقوں میں چند گھنٹوں سے زائد زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ ایبولا وائرس افریقہ میں چمگادڑوں سے انسانوں اور جانوروں میں منتقل ہوا،اس کا پہلا کیس1976 ء میں سوڈان میں سامنے آیا۔2014ء میں عالمی ادارہ صحت نے ایبولا کو گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایڈز کے بعد ایبولا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس ہے۔
یادرہے کہ حیاتیاتی ہتھیار (Biological weapon) یا جراثیمی ہتھیارسے مراد ایسے ہتھیار ہیں جن میں عموماً جراثیم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ایسے ہتھیار اعلانیہ اور خفیہ طور پر مختلف ممالک تیار کرتے ہیں۔حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار سب سے پہلے امریکا اور برطانیہ نے تیار کیے،ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلاً گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں،اگرچہ ظاہراً 1970ء میں ان کی تیاری امریکا نے بند کر دی تھی۔
اسی طرح امریکا میں یورپی ممالک نے جنگوں کے دوران بہت سی ایسی بیماریاں پھیلائیں جن سے امریکا کے قدیم باشندے لاکھوں کی تعداد میں ہلاک ہوئے۔1756ء سے1763ء میں فرانسیسیوں نے امریکا کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈینز) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے،جنھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جنہیں خسرہ تھا۔ایسے ہی کمبل1834ء میں رچرڈ ہنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر فروخت کیے۔
بیسویں صدی میں امریکا میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے جن میں انتھراکس جیسے جراثیم شامل تھے۔سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد جراثیم اور ان کے توڑ تیار کیے۔کورین جنگ (1950ء1953-ء)کے دوران امریکا نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا۔(اگرچہ امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار کیا ہے)۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکا خود اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں کا شکار ہونے والا تھا جب امریکی کانگرس اور دیگر سرکاری دفاتر کو ایسے خط ملے جن میں انتھراکس کے جراثیم پاؤڈر کی شکل میں موجود تھے لیکن تاحال اس کاروائی کے ذمہ داروں کا اور ان کے مقاصد کا پتہ نہیں چل سکا۔
حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کی روک تھام کے لئے اقدامات
ان جنگوں کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے،جن میں سے ایک جنیوا پروٹوکول ہے جسے17جون 1925ء میں پیش کیا گیا،اس معاہدے کی رو سے تمام ایسے ہتھیاروں پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے حیاتیاتی جراثیموں کو پھیلانے میں کسی بھی طرح مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔اس معاہدے پر ابتدا میں 38 ممالک نے دستخط کیے لیکن نومبر 2010ء تک یہ تعداد 137ممالک تک جا پہنچی۔
1922ء میں بھی واشنگٹن میں ایک ایسا ہی معاہدہ ہوا،وہ معاہدہ ناکامی کا شکار ہوگیا کیوں کہ فرانس نے یہ کہہ کر مخالفت کر دی کہ آبدوزوں کی جنگ پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔1972ء میں بائیو لوجیکل ویپن کنونشن (BWC) ہوا۔اسے بائیولوجیکل ٹاکسن ویپن کنونشن(BTWC) بھی کہا جاتا ہے۔اس معاہدے کی رو سے یہ طے کیا گیا کہ تمام حیاتیاتی ہتھیار تلف کر دیئے جائیں اور ان کے بنانے پر بھی پابندی عائد کی جائے۔اسی طرح 1993ء میں کیمیکل وپین کنونشن (CWC) ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC) نے کوشش کی کہ حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی عائد کی جائے۔اس سلسلے میں 6 فروری 1918ء میں زہریلی گیس کے استعمال کے خلاف اپیل کی۔ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بہت سے ممالک نا صرف انہیں تیار کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے استعمال بھی کرتے ہیں۔ان حملوں کے خطرناک اثرات سے بچنے کے لیے بھی اقدامات جاری ہیں،
اسرائیلی فوج اور محکمہ داخلہ کے تعاون سے اسرائیلیوں کو راکٹ حملوں اور کیمیائی جنگ سے بچنے کے لیے مشقیں کرائی جارہی ہیں،بھارت نے اپنے فوجیوں کو کیمیائی جنگ سے محفوظ رکھنے کی خاطر مخصوص طرز کا لباس تیار کیا ہے،احمد آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری ریسرچ ایسوسی ایشن اور بھارتی فوج کے طبی ماہرین نے مشترکہ طور پر کیمیائی جنگ سے محفوظ رہنے کے لیے لباس تیار کیا ہے،جو زہریلی گیسوں سے بچاؤ کیلئے موثر ثابت ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا نوآمد وائرس اور وبائی بیماریاں بھی ان ہی حیاتیاتی ہتھیاروں کا تسلسل ہیں جن کا الزام وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر لگایا جاتا ہے؟ اس بارے میں تاحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،تاہم دنیا کی تاریخ،جنگوں کے نت نئے طریقے اور دشمن ممالک میں دفاعی عمل کو کمزور کرنے کے لیے ایسے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔