رانا عمرفاروق ، ڈی پی او جہلم ایک غریب، بزرگ خاتون کی شکایت تحریر کرتے ہوئے

اچھی تصویروں کی ضرورت ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:
اگلے روز روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد کے مارکیٹنگ ایگزیکٹو برادرم فرخ عباسی کو بہت شاکی پایا کہ کرونا وائرس اس قدر خطرناک نہیں جتنا کہ میڈیا کا رویہ۔ اُس لمحے ان کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ آپ افراط اور تفریط کا شکار ہیں۔

آج صبح سویرے جاننا چاہا کہ کرونا وائرس نے پاکستان اور باہر کی دنیا میں کتنے لوگوں کو متاثر کیا؟
”روزنامہ دنیا“ کی ویب سائٹ پر خبروں کا انداز دیکھ کر دل دہل گیا۔ کچھ سرخیاں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:

”پاکستان میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں شروع“
”کرونا وائرس نے پاکستان میں پنجے گاڑ لیے، مریضوں کی تعداد 288 تک جا پہنچی“
”ایران کو کرونا وائرس اور امریکی پابندیوں نے جکڑ لیا، بڑی تباہی کا خدشہ“

یقیناّ پاکستان کے سارے ذرائع اس انداز میں خبریں پیش نہیں کرتے، بالخصوص جب وزیراعظم عمران خان سمیت تمام قائدین قوم کو کرونا وائرس سے خوفزدہ نہ ہونے کی نصیحت کررہے ہیں، جب بتایا جارہا ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح محض ایک سے تین فیصد ہے۔ شفایاب ہونے والوں کی شرح وزیراعظم عمران خان کے بقول ستانوے (97) فیصد جبکہ ماہرین طب کے مطابق ننانوے(99)فیصد ہے۔

ایسے میں خبر دینے والوں کو کچھ سلیقہ سیکھنا چاہئیے۔ کیا ضروری ہے کہ قوم کو شدید خوف کا شکار کرکے ہی خبر بیچی جائے!!! لوگ ایسی خبر دیکھتے ہیں، ان کے دل بھی دہشت زدہ ہوتے ہیں لیکن پھر وہ ایسی صحافت سے متنفر ہوتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر نجی ٹی وی چینلز کے ہاں خبر دینے اور خبر سنانے کے انداز کا شدید ناقد ہوں۔ نجی ٹی وی چینلز کی خبریں سن کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کچھ اچھا نہیں ہورہا ہے۔ مسائل کو ہرگز چھپانا نہیں چاہئیے لیکن جو کچھ اچھا ہورہا ہے، اسے بھی پیش کرنے کے لئے خبرنامے میں چند منٹ رکھنے چاہئیں۔

آخر اچھی خبروں سے نئے بلکہ نت نئے صحافیوں کو دشمنی ہی کیا ہے!! آج بعض ذرائع ابلاغ پر خبریں دیکھ اور سن کے خواہش پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن ہی ہوتا تو اچھا تھا، اگرچہ وہ صرف ”سب اچھا“ ہی کی خبر دیتا تھا۔ ”سب بُرا“ کی نسبت ”سب اچھا“ فطری طور پر اچھا لگنے لگتا ہے۔

آج صبح سویرے ایک اچھی تصویر دیکھی، جو حقیقی معنوں میں اچھی اور سچی تصویر تھی۔ برادرم افضل کامیانہ نے اپنے فیس بک اکائونٹ کی وال پر لگائی اور ساتھ لکھا تھا:

”عادتیں ہی نسل کا پتا دیتی ہیں صاحب وگرنہ کسی کے ماتھے پر کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ جہلم کی تاریخ کی سب سے بہترین تصویر ہے۔ یہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر یعنی DPO جہلم رانا عمر فاروق ہیں۔
ڈی پی او صاحب!
آپ کے والدین کو سلام جنہوں نے آپ کی اتنی اچھی تربیت کی۔ “

ڈسٹرکٹ پولیس افسر ایک ماں کے قدموں میں بیٹھ کر اس کی شکایت تحریر کررہا ہے۔ میں تو صبح سے اس تصویر کے سحر میں مبتلا ہوں، بار بار دیکھتا ہوں۔

ہوسکتا ہے کہ ہمارے پولیس افسران، اہلکار بھی اس تصویر کو دیکھ کو ایسا ہی پولیس افسر بننے کی کوشش کریں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تصویر باقی سرکاری محکموں کے افسران حتیٰ کہ معاشرے کے دیگرشعبوں کے لوگوں پر بھی سحر طاری کردے۔ اور وہ بھی ایسا ہی طرزعمل اختیار کریں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسی اچھی تصویریں بنانی اور بنوانی چاہئیں اور انھیں خوب عام کرنا چاہئیے۔

اب آپ بتائیے کہ یہ تصویر دیکھ کر آپ کو کیسا محسوس ہورہا ہے؟ ممکن ہو تو اس تحریر کے آخر میں تبصرے کے خانے میں دوچار لفظ ضرور لکھئیے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں