آدمی قبر کھود رہا ہے

زندہ میت (عربی سے اردو ترجمہ)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افسانہ:جمال جنید( دمشق)
عربی سے اردو ترجمہ: مدثر محمود سالار
پہلی نظر میں جو میں نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔
وہ منظر بلاشبہ دہشت ناک تھا، اور مجھ پر خوف سے لرزہ طاری ہوگیا۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ منظر میں کبھی بھول سکوں۔ میں اپنی عمر کی تیس بہاریں دیکھ چکا تھا اور غالباً میں دس سال کا تھا جب میرے چچا کا انتقال ہوا۔ میں چچا کی وفات کے بیس سال بعد ان کی قبر پہ آیا تھا۔ میں اپنے بڑے بھائی کو چچا کے پہلو میں دفن کرنے آیا تھا۔ اگر میں کسی کو بتائوں کہ میں نے چچا کی قبر میں کیا دیکھا تو یقیناً سب مجھ پر ہنسیں گے۔ وہ نہ صرف مذاق اڑائیں گے میری باتوں کا بلکہ مجھے پاگل قرار دیدیں گے۔

میں نے جب وہ منظر دیکھا تو میری زبان گنگ ہوگئی، میں نے چچا کی قبر کو کھلا پایا اور میرا چہرہ پتھرا گیا جب میں نے قبر میں جھانکا۔ میں نے مدد کے لیے آواز لگانا چاہی مگر میری آواز بند ہوگئی، حتی کہ میں کوئی حرکت بھی کرنے سے قاصر تھا۔

وہ تصویر میرے ذہن پر نقش ہوگئی ہے۔ میرے مدفون چچا کے چہرے پر سورج کی روشنی اس زاویے سے پڑ رہی تھی کہ چہرہ اس روشنی سے سرخ و سپید لگ رہا تھا۔ چچا کا چہرہ ایسے لگ رہا تھا کہ تازہ تازہ داڑھی صاف کی گئی ہو، ان کے بال صاف چمکتے ہوئے نظر آرہے تھے، اور ان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمایاں تھی جیسے انہوں نے ابھی صبح کا قہوہ پیا ہو۔

جب ہم کسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کمزور دلائل پیش کرتے ہیں تو لوگ نہ صرف ہنستے ہیں بلکہ ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے آپ کی بات ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ آہ ایسے لوگ اپنے کندھوں پر فقط اکیس صدیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں مگر اے قبر میں لیٹے ہوئے انسان! آپ تو پتھر کے دور سے بھی پہلے کے ایک مختلف شخص لگ رہے ہیں۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں طویل عرصے سے اس لمحے میں جی رہا ہوں جو میرے چچا کی ادھ کھلی آنکھوں میں رکا ہوا ہے۔ وہ آنکھیں میرا انتظار بیس سال سے نہیں بلکہ بیس صدیوں سے کررہی تھیں۔ میں نے آنکھ بند کرکے ان کی وفات سے پہلے کے منظر کو ذہن کے کسی کونے کھدرے سے جگانا چاہا۔ ان کا بیس سال پرانا چہرہ دھند میں لپٹا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی اپنی مکمل جزئیات کے ساتھ ان کے چہرے پر لوٹ آئی تھی، دھند چھٹنے لگی اور ان کا چہرہ واضح ہونے لگا۔ ان کے ہونٹ مضحکہ خیز انداز میں حرکت کرنے لگے۔ ان کی پلکیں جیسے حرکت کر رہی تھی اور چہرہ کھل اٹھا تھا۔ ان کی پلکیں رقص کناں تھیں کہ مجھے قبر کے اوپر سے ایسی آواز آئی گویا دور کسی اور کائنات سے کوئی پکار رہا:
اپنے چاچا کی ہڈیوں کو ایک طرف کرو، جلدی کرو، سورج غروب ہونے والا ہے۔

پہلے تو اس آواز نے مجھے متوجہ نہیں کیا مگر پھر میں چونک کے دیکھنے لگا کہ میرے چچا کا کفن جس میں ان کی ہڈیاں تھیں میرے پہلو میں پڑا تھا جسے میں بھولا بیٹھا تھا۔

میں نے کفن ہٹایا، چچا کے شیو چہرے کو دیکھ کر میں بڑبڑایا، یہاں ہڈیاں کہاں ہیں جنہیں ایک طرف کروں۔
کیا ان کے خوبصورت بالوں کو قبر کے ایک طرف رکھوں؟ یا ان کا صفاچٹ چہرہ اٹھائوں؟ یا ان کی مسکراہٹ؟ یہاں کوئی ہڈیاں نہیں۔ یہاں تو جسم اور جیتا جاگتا انسان ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں سوائے منہ کھول کر بولنے کے، اور اور اب ایسا لگا کہ وہ مزاحیہ انداز میں منہ کھول کر بات کررہے، پلکیں متحرک ہیں اور آنکھیں ادھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔

’’اٹھو چچا۔۔۔۔۔‘‘
’’اٹھو اور انہیں بتاو کہ تم زندہ ہو۔ ‘‘
میں چیخ کر کہنا چاہتا ہوں کہ میرے چچا زندہ ہیں تم نے انہیں بیس سال پہلے غلطی سے زندہ دفن کردیا تھا۔
اٹھو چچا! ان کی طرف دیکھو۔ اُن سے بات کرو۔ ان سے بات کرکے مسئلہ سلجھادو کہ تم مرے نہیں بلکہ زندہ ہو۔

پس میرا بھائی بھی زندہ ہی ہوگا، ہم اکٹھے گھر واپس جائیں گے۔
چچا لگتا ہے وقت کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے اور گیا ہوا وقت واپس آگیا ہے۔
چچا دیکھو میرا بچپن بھی لوٹ آیا ہے،

آہا آپ زندہ ہوگئے ہو، یونس علیہ السلام کے بعد آپ پہلے انسان ہو جو زمین کے اندھیروں سے زندہ لوٹ آئے ہو، جیسے یونس مچھلی کے پیٹ سے زندہ واپس آئے تھے۔
اٹھو نا چچا!!

یہاں موجود لوگوں سے بات کرو، ان کو ان کی پرانی باتیں یاد کراو، ان کے لطیفے، ان کے مصائب، ان کی خوشیاں، ان کی ناکامیاں اور کامیابیاں یاد کراو۔
یہاں جو جو زندہ لوگ تمہیں نظر آرہے ان کو سلام کرو، آپ کے اہل خانہ، پڑوسی، سب کو سلام کرو۔
میری خاطر اٹھ جائو ، اگر میری عزت کا خیال ہے تو اٹھ کر میری تصدیق کردو کہ ہاں میں سچ کہہ رہا اور میرا چچا زندہ ہے۔

برائے مہربانی اٹھ جائو۔ میری عقل کام کرتی ہے، میں آپ کا مسکراتا چہرہ دیکھ رہا ہوں اور آپ کے ماتھے پر آئے ہوئے بال بھی حقیقی ہیں۔
باہر لوگ میرے اشارے کے منتظر ہیں کہ میں اپنے بھائی کو آپ کے ساتھ لٹادوں ، میں ششدر کھڑا ہوں، کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں؟

میں نے اوپر دیکھا، مجھے لگا میں صدیوں سے یہاں گڑا ہوا ہوں۔ میں جب چچا کے چہرے کی طرف دیکھتا تو مجھے راحت و سکون محسوس ہوتا، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی زندہ شخص کسی میت کے ساتھ کھڑا ہوکر آرام و سکینت محسوس کرسکے؟
بلاشبہ یہ بہت گہری بات واقع ہوئی ہے میرے سامنے۔

پس یا تو قیامت آگئی ہے، یا میرا اپنے چچا کے ساتھ جو قلبی تعلق تھا وہ حقیقت بن کر آگیا، یا زندگی رک گئی ہے جب سے میں قبر میں اترا ہوں۔

میں نے سوچا میں باہر چلاجاتا ہوں اور کسی اور شخص کے ذمے بھائی کی میت کو دفنانے کا کام سونپ دیتا ہوں۔ لیکن میں اپنے ارادے کو متزلزل پارہا ہوں، یہ وہ قدیم محبت میرے پائوں پکڑ رہی ہے جو مجھے اپنے چچا سے تھی۔ یہ محبت کئی زمانوں سے چھپی ہوئی تھی، جیسے دور سے نظر آتی ٹمٹماتی ہوئی دئیے کی روشنی ہو اور اب اسے تیل ملنے پر اتنی طاقت میسر ہوگئی ہے کہ یہ اب واضح روشنی دینے لگی ہے۔

یہ محبت کی شمع کبھی بھڑکتی ہے کبھی اس کی لو مدھم ہونے لگتی ، اور پھر دوبارہ یہ بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ محبت فولاد کی زنجیروں کی مانند مجھے اپنے شکنجے میں کس رہی ہے۔ مجھے چچا کے چہرے کا ایک ایک نقش یاد آرہا، میں خود کو بھول کر فقط چچا کو یاد کررہا ہوں۔

مجھے رفتہ رفتہ چچا سے جدائی کے لمحات یاد آرہے، جیسے پہلی بار قبر میں اتر کر چچا کا چہرہ دیکھنے کا منظر نہیں بھولوں گا ویسے ہی ان کے ساتھ گزرا وقت بھی نہیں بھول سکتا۔

آہ ! میں کس مشکل دور سے گزر رہا ہوں، یہ میرے چچا لمبے عرصے سے غائب تھے اور اب اچانک خاموش چہرے کے ساتھ ایسے نمودار ہوئے ہیں جیسے طویل سفر سے لوٹے ہوں۔

وہ اپنے ساتھ بالکل مختلف عادات کے ساتھ لوٹے ہیں، وہ ہنس نہیں رہے، وہ زبان نکال کر مجھے چڑا نہیں رہے، وہ بھنویں اچکا اچکا کر نہیں دیکھ رہے، ایسے لگ رہا کہ کسی نے ان کی خوشیاں چرا لی ہیں، اور وہ خالی ہاتھ لوٹے ہیں، نہ وہ زندہ حالت میں ہیں نہ مردہ حالت میں۔

اس جگہ میں زندگی اور موت کے بارے سوچ رہا ہوں، میں ان دو متضاد کلمات کو سمجھنے کی کوشش کررہا، ایسے دو کلمات جن پر انسان کے حرکات اور سکون کا دارومدار ہے، آہ ! ان دو کلمات ہاں ہاں موت اور زندگی دو کلمات کے سامنے انسان عاجز ہوتے ہیں۔

میرا مقصد وہ گھسی پٹی تعریفات نہیں جو کہتی ہیں زندگی پہلی چیخ اور موت آخری ہچکی کا نام ہے۔ میں ان دونوں کی گہرائی بتانا چاہتا ہوں، ان کے مابین گہری دشمنی کی وضاحت کرنا مقصود ہے۔ میں موت اور زندگی سے ایسے آشنا ہونا چاہتا ہوں جیسے روئے زمین پر کوئی اور شخص ان سے واقف نہ ہوا ہو۔

میں اس کیفیت سے نکلتا ہوں جب دور بہت دور سے آواز آتی ہے
’’تم بولتے کیوں نہیں؟‘‘ میں نے اونچی آواز میں پوچھا
’’میں تو ہڈیوں کی گٹھڑی ہوں!‘‘
دور کہیں سے اطمینان بھری آوازیں آرہی تھیں۔
’’اے چچا ! میں آپ کو جانتا ہوں، اپنی زندگی میں آپ مردہ تھے اور اپنی موت میں آپ زندہ ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ زندہ ہیں۔‘‘

’’آپ کے متعلق میرے ابا مجھے بتاتے تھے۔ سردیوں کی طویل سرد راتوں میں آپ کی باتیں بتاتے تھے۔ آپ کے قصبے پر جب قبضہ ہوا تو آپ کے وہاں سے خروج کی باتیں۔ آپ کے قصبے کے در و دیوار اور گلیوں کے قصے مجھے ابا نے اتنی بار بتائے کہ اب مجھے آپ کی زندگی کی ہر چھوٹی چھوٹی بات یاد ہے‘‘۔

’’آہ ! آپ بیس سال کی عمر میں انتقال کرگئے، آپ کی یادیں آپ کے بیٹے ولید ، خالد اور ھدی بیٹی کا سرمایہ ہیں۔ انہوں نے آپ کے قصبے کی تصاویر سنبھال رکھی ہیں، دن کی روشنی کی تصاویر، سبزے اور پہاڑ کی تصویر، حتی کہ ہوا اور پانی کو بھی تصویروں میں مقید کررکھا ہے، اور آپ کی ایک تصویر جس میں آپ ایک پرانی بندوق اٹھا کر کھڑے ہو‘‘۔

’’اور آپ کے پرانے گھر کی چابی اور آپ کا پرانا جبہ جس میں آپ کے دل کی دھڑکنیں مقید ہیں ، سب چیزیں آپ کے بچوں نے سنبھال رکھی ہیں۔
آپ ایک قیمتی زیور کی مانند ان کی یادوں کے خزانے میں محفوظ ہو‘‘۔

’’یہی نہیں کہ میں فقط آپ کی تصاویر دیکھ کر آپ کو یاد کرتا ہوں بلکہ کبھی کبھی میں انجیر کے باغ والے چشمے پر جاکر وہاں کھڑا ہوکر سورج کو غروب ہوتے دیکھتا ہوں تو آپ کی یاد میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، آپ کی غصے سے بھری آنکھیں سورج کے ساتھ غروب ہوتی کئی بار دیکھی ہیں‘‘.

’’آپ کو یاد ہے نا ایک بار آپ نے ریڈ کراس کے ذریعے ایک خط اس قصبے کی طرف بھیجا تھا، آپ نے زندگی کے ان قیدیوں کا نام پوچھا تھا جنہیں ابھی تک موت کی دلہن سے ملنے کا موقع نہیں ملا، اور جو قیدِ حیات سے آزاد ہوچکے ان کے نام بھی پوچھے تھے آپ نے، آپ نے قصبے کے ایک ایک گھر کے متعلق سوال کیا تھا اس خط میں، قصبے کے پتھروں اور ایک ایک شخص کا پوچھا، آپ نے گرمی اور قصبے میں حبس کا حال بھی پوچھا ،آہ درختوں، پھلوں، حیوانات، پانی اور قصبے کی مٹی کا حال بھی اپنے خط میں آپ نے پوچھا تھا۔ یاد ہے آپ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ آپ کو لگتا ہے آپ چلتی پھرتی میت ہو، آپ کہتے تھے افسوس میں اس لیے زندہ ہوں کہ مجھے یاد کیا جائے‘‘۔

’’آپ کو اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوا کہ آپ موت کے زمانے میں زندہ رہے، موت کو زندگی کا جوہر نذر کیا، اپنے بیٹے اور بیٹی پیش کردی‘‘۔

’’میں آپ کی یادوں کو آپ کے بچوں کے آس پاس دیکھتا ہوں، ایسا لگتا ہے وہ آپ کی یادوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی یادیں ان میں رچ بس گئیں۔ آپ کے جانے کے بعد آپ کے بچے ابھی تک آپ کی زبان بولتے ہیں، آپ کی سوچ اور آپ کے کردار کی پیروی کرتے ہیں اور اس مقبوضہ بستی کو یاد کرتے ہیں جہاں وہ پیدا بھی نہیں ہوئے اور جسے فقط ٹیلی ویژن کی سکرین پر ہی انہوں نے دیکھا ہے۔ آہ میرا بھائی کمال جس کا آج فجر کے وقت انتقال ہوا، وہ تو آپ کی یاد کے مندر کا پجاری تھا، اس نے وصیت کی کہ اسے آپ کی قبر میں دفن کیا جائے‘‘۔

’’مجھے یاد ہے آپ کا وہ آخری خط جو آپ نے بھائی کو لکھا تھا ،جس میں آپ کے وطن کی چھوٹی چھوٹی یادیں لکھی ہوئی تھیں، اس خط کا ایک ایک جملہ اس درد اور تکلیف کا عکاس تھا جو ایک پردیسی سے اس کا وطن چھننے کے بعد اس کے لہجے میں بولتا ہے۔ اس خط کا ہر جملہ یادوں کی بارات لیے ہوئے تھا ایسی یادیں جو کبھی مرتی نہیں۔ آپ کا وہ خط میں نے بار بار پڑھا، اس کے جملوں، لفظوں، اور خیالات کو توجہ سے پڑھا، اس خط نے میرے ذہن سے اُس ہنسنے والے شخص کے خدوخال مٹادیے جسے میں بچپن میں دیکھا کرتا تھا۔ آہ اس خط نے آپ آپ کی جادوئی شخصیت کا عکس میرے ذہن پر بنادیا ہے، بہادر، حقیقی انسان والا روپ‘‘۔

میں نے سر اٹھا کر دیکھا!!!!!
سب میرے اشارے کے منتظر تھے تاکہ میرے بھائی کو قبر میں اتار سکیں، میں چچا سے ہونے والی اس ملاقات کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا، ایک طویل جدائی کے بعد ہونے والی یہ ملاقات میرے لیے دنیا جہان کی ہر سعادت سے برتر تھی۔

میں نے چچا کی طرف دیکھا، ان کے بال، چہرہ، دانت ، مجھے وہ ہدایات یاد آئیں جو فراعین کو حنوط کرتے وقت دی جاتی تھیں۔ کیسے جسم کو نمی اور خشکی دونوں سے بچانا ہے، جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص مصالحہ جات وغیرہ کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ میں نے مردہ جسم کی مخصوص بو سونگھنے کی کوشش کی تو سکون بخش خوشبو اور مٹی کی مہک آئی۔

میں نے چچا سے سوال کیا!!!!!!
اور جیسے کسی زندہ شخص سے پوچھتے ہیں ویسے پوچھا:
کیا آپ مقدس ہو یا۔۔۔۔۔۔؟؟

جانے کیوں میں نے یہ سوال پوچھا۔
میں نے یہ سوال شاید اس لیے پوچھا تاکہ عالمِ حیات اور عالمِ موت کے درمیان رکے ہوئے لمحے سے نکل سکوں۔ وہ لمحہ جو زندگی سے دور لے جاتا ہے، جو اپنی طاقت سے دل دہلا دیتا ہے، جو سکون کو دور بھیج دیتا ہے، شاید میں کانپ رہا تھا کسی خوف سے کپکپاہٹ طاری تھی۔

میں سو رہا تھا، پس میں اٹھا۔ میں نے اپنے آس پاس ہاتھ مارے ، چچا کی خاموشی میرے اعصاب کو چٹخا رہی تھی، مٹی اور پسینے کی مہک میرے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔

میں نے چچا کا کفن پرے دھکیلا اور میرے منہ سے دہشت زدہ آواز نکلی!
کمال کی میت مجھے دو!۔
انہوں نے میت اندر اتاری۔
میں نے بھائی کو چچا کے پہلو میں لٹایا۔

دونوں کی طرف ایک طویل نگاہ کی، میری اس آخری نگاہ میں درد، خوف، انتظار، دہشت سموئی ہوئی تھی۔
میں قبر سے نکلا۔
غروب ہوتے سورج کی کرنیں آنکھوں کو چندھیاء رہی تھیں۔

قبر سے آخری انسان میں ہی نکلا۔
مجھے صرف دو باتیں یاد رہ گئیں۔
چچا کا کبھی نہ بھولنے والا چہرہ اور چمکتا ہوا سورج جو مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں