حمیرا ریاست علی رندھاوا:
شاعروں نے عورت کے حسن اور نزاکت پر دیوان کے دیوان بھر دیے ہیں لیکن افسوس وہ اس بات سے نا آشنا تھے کہ کبھی یہ نازک اندام مخلوق سڑکوں پر بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے خود کو سخت جان لونڈوں سے تشبیہ دے گی(مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہورہی ہے)۔
پچھلے سال اسلام آباد کی سڑکوں پر کچھ مغرب زدہ خواتین بینرز اٹھائے’عورت مارچ‘ کے نام پر مردوں کو للکارتے ہوئے نظر آئیں کہ ’’ کھانا خود گرم کرلو۔‘‘ مجھے ان جعلی بیبیوں سے پوچھنا ہے کہ اگر کھانا مردوں نے گرم کرنا ہے اور آپ نے مردانگی دکھانی ہے تو پھر آپ نے معاشروں اور مردوں سے یہ گلہ نہیں کرنا کہ فلاں جگہ فلاں عورت کی عزت برباد ہوگئی اور کسی مرد نے اس عورت کو بچایا نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ مردکھانا گرم کرے، بچوں کو سنبھالے یا آپ کو بچائے؟ ویسے بھی ’’سخت جان لونڈوں‘‘ کو ان کے گھریلومرد بچاتے ہوئے مار کھانا پسند نہیں کریں گے۔
اسلام نے عورت کو ناجائز پابندیوں سے آزاد ہی رکھا ہے مگر افسوس آج کی مغرب زدہ عورتیں (جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے)نام نہاد این جی اوز کے ہاتھوں کھلونا بن چکی ہیں۔ این جی اوز تھوڑے سے پیسے دے کر عورتوں کو ’خواتین مارچ‘ کی صورت میں سڑکوں پر لا کر ان سے نعرے لگواتی ہیں اوریہ عورتیں باہر سے فنڈز لے کر ’عورت مارچ‘ کے نام پر ہماری قومی غیرت کا جنازہ نکالنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ این جی اوز کے روح رواں معمولی رقوم کے عوض بے لگام عورتوں کو جمع کرکے اپنی دکان سجالیتے ہیں۔
ہمیں خواتین مارچ کرنے والی عورتوں سے بس اتنا ہی پوچھنا ہے کہ آپ مردوں کی برابری کی دعوے دار ہیں تو گٹر کی صفائی سے لے کر منڈی میں اجناس سے بھری ہوئی بوریاں بھی اپنی کمر پر اٹھائیں اور پھر مرد کی برابری کا دعویٰ کریں۔ ویسے مجھے ذاتی طور پر ان خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن مجھے ان کی ذہنی حالت پر شک ضرور ہے۔
بطور مسلمان میرا ایمان ہے کہ مرد عورت سے برتر اور افضل ہے۔ مجھے اس بات سے مکمل اتفاق ہے۔ اس کا مطلب ہرگزنہیں کہ اسلام نے عورت کا مرتبہ کم کردیا ہے بلکہ اسلام نے عورت کو بطور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی بے پناہ عزت و تکریم دی ہے۔ مرد کام کاج کے لئے (نوکری، کاروباری مسائل وغیرہ) دوسرے مردوں کو جوابدہ ہے لیکن عورت صرف گھر بیٹھے ایک مرد کو جوابدہ ہے۔
عورت کو اسلام نے نہ تو کاروبار کرنے سے روکا ہے اور نہ اس کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے۔ (بزنس کے لحاظ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی مثال موجود ہے جو عرب کی کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں)۔
آج کل ’عورت مارچ‘ کرنے والی این جی اوز زدہ خواتین ایک نئے نعرے کے ساتھ سڑکوں پر ہیں کہ ’’ہمارا جسم ہماری مرضی‘‘، جی! اگر آپ کی مرضی ہے تو پھر یہ شکوہ کرنا چھوڑ دیں کہ مرد ہماری عزت نہیں کرتے،اپنی مرضی کریں اور ایسی خواتین کے والدین بھی ان کے رشتوں کے لئے پریشان ہونا چھوڑ دیں۔
خواتین مارچ کرنے والی عورتوں کے کیا مقاصد ہیں؟ کیا وہ معاشرے میں ایدھی کے جھولے بھرنا چاہتی ہیں؟ اخلاقی گراوٹ کی شکار یہ خواتین ایسی این جی اوز چلا کر معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہیں، یہ سوچ جرائم میں اضافے کا باعث بنے گی، اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایسی خواتین خود ہی اپنی اصلاح کرلیں تو بہتر ہے ورنہ خود کو لونڈوں سے تشبیہہ دینے والی یہ خواتین اگر ’’لٹ‘‘ جائیں تو پھر مردوں پر الزام نہ لگائیں کہ انھوں نے ان کی حفاظت نہیں کی۔ سخت جان لونڈے اپنی حفاظت خود کرسکتے ہیں۔
ویسے بھی نمائش میں پڑی چیز کو خریدار خوب ٹٹول کر ہی خریدتا ہے۔ اب جب آپ نے’عورت مارچ‘ کے عنوان سے خود ہی سڑکوں پر اپنی نمائش لگادی ہے تو بے چارے مردوں سےشکوہ کرنا فضول ہے۔ ویسے بھی ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ عورت مارچ والی عورتوں کے مرد اپنی صفات سے ہی محروم نہ ہوں تب ہی ان خواتین نے لونڈے ہونے کا دعویٰ کیا ہو؟
عورت مارچ والی خواتین کو چاہئیے کہ دستیاب سائنسی سہولتوں کا فائدہ اٹھائیں اور لونڈے بن جائیں تاکہ خواتین کی اکثریت کو اس مٹھی بھر گروہ کے دعووں پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
5 پر “عورت مارچ والیاں’سخت جان لونڈے‘ کیوں بننا چاہتی ہیں؟” جوابات
عورت کبی بی مرد کے برابر نہیں ہو سکتی
اللہ تعالیٰ نے عورت کو بلند ترین مقام عطا کیا ہے جس سے ہم چاہ کر بھی انحراف نہیں کر سکتے ۔
مجھے حیرت ہوتی کہ آخر یہ عورتیں چیز سے آزادی چاہتی ہیں ؟ ۔
Bilkul theek bat
MashAllah
Sahi kaha h
اللّٰہ نے ہر انسان کی حد مقرر کر دی ہوئی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔۔۔ اور اپنی حدوں کو پار کرنے والے کی کوئی عزت نہیں رہتی۔۔ دورِ حاضر میں ایمان کا امتحان لیا جارہا ہے۔ اللّٰہ ہمیں اس آزمائش میں سرخرو کرے۔۔ آمین!