ارون دھتی رائے/ ترجمہ: تنزیل الرحمان:
یہ جگہ،جہاں آج ہم جمع ہوئے ہیں، دلی سے یہاں پہنچنے کے لیے چند منٹ کا سفر درکار ہے جہاں چند روز قبل حکمراں جماعت کے ارکان کی تقریروں سے بھڑکے ہوئے فاشسٹ بلوائیوں نے شمال مشرقی دلی میں مقیم ملازمت پیشہ مسلمانوں کے علاقوں پر مسلح اور قاتلانہ حملہ کیا۔ ان بلوائیوں کو پولیس کی مکمل مدد اور پشت پناہی حاصل تھی اور انہیں اس بات کا بھی اطمینان تھا کہ عدالتیں ان کے راستے میں نہیں آئیں گی۔
اس طرح کے حملے کی خبریں پہلے ہی گردش میں تھیں، اسی لیے بہت سے لوگ کسی حد تیار بھی تھے کہ اپنا دفاع کرسکیں۔ بازاروں، دکانوں، گھروں، مساجد اور گاڑیوں کو جلایا گیا۔ سڑکیں پتھروں اورملبے سے اٹی پڑی ہیں جبکہ اسپتال زخمیوں اور مرنے والوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
مردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں بچی اور ان میں ہندو اور مسلمان دونوں کی لاشیں شامل ہیں۔ جی ہاں ! دونوں جانب کے لوگوں نے یہ ثابت کیا کہ ایک طرف نہ صرف وہ دہشت انگیز سفاکیت کے حامل ہیں بلکہ دوسری طرف ناقابل یقین جرات اور ہمدردی کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔
بہرحال یہاں برابری کی بات نہیں ہورہی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب ذہنی پستی کا شکار بلوائیوں نے ‘جے شری رام’ کے نعرے لگائے اور جنہیں سرکار کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی۔ ان نعروں کے باوجود لوگ اسے ‘ہندو۔مسلم فساد’ قرار نہیں دیتے بلکہ دراصل یہ فاشسٹوں اور ان کے مخالفین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ ہے اور مسلمان اس کشیدگی کا پہلا شکار ہوئے ہیں۔ اسے فساد یا دنگا کہنا، یا اسے دائیں بازو بمقابلہ بائیں بازو کہنا یا پھر صحیح کا مقابلہ غلط سے کہنا، جیسا کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں ، یہ خطرناک اور معاملے کو دھندلانے جیسا ہے۔
ہم سب نے وہ وڈیوز دیکھی ہیں کہ فسادات کے دوران پولیس کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے یا پھر آتش زنی میں خود بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ کس طرح سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ رہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری پرحملے کے وقت کیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے زخمی مسلمان نوجوانوں کو کس طرح مارا پیٹا اور انہیں زبردستی قومی ترانہ پڑھنے پر مجبور کیا۔
مرنے والے، زخمی اور لٹنے و برباد ہونے والے مسلمان اور ہندو بھی دراصل اس نظام حکومت کا شکار ہوئے ہیں جس کی سربراہی اس وقت نریندر مودی کررہا ہے۔ مودی ایک ایسا اعلانیہ فاشسٹ پردھان منتری ہے جو اس وقت بھی ایک ریاست کا کرتا دھرتا تھا جب 18 برس قبل وہاں ایک بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا اور جو کئی ہفتوں تک جاری رہا تھا۔
آگ بھڑکانے کے اس مخصوص واقعے کی تشریح برسوں تک کی جاتی رہے گی تاہم مقامی واقعات تاریخ کا حصہ بنیں گے کیونکہ نفرت آمیز افواہیں، جنہیں سوشل میڈیا میں مزید بھڑکایا گیا تھا، ان نفرت انگیز لہروں کا دائرہ اب باہر نکلنا شروع ہوا ہے اور ہم صاف طور پر فضا میں خون کی مہک محسوس کرسکتے ہیں۔ وسطی دلی کے علاقوں میں کچھ جتھوں کو یہ نعرے لگاتے دیکھا گیا جو حملوں کی بنیاد بنے ہیں: ’دیش کے غداروں کو۔ گولی مارو سالوں کو۔‘
ابھی کچھ دن پہلے ہی، دلی ہائی کورٹ کے جج، جسٹس مرلی دھرن دلی پولیس پر سخت نالاں تھے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکن لوک سبھا کپل مشرا کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ کپل مشرا نے انتخابات کے دوران اسی نعرے کا استعمال کیا تھا۔ 26 فروری کی رات کو ہی نئے احکامات جاری کردیے گئے کہ جسٹس صاحب کی نئی ذمہ داری اب پنجاب ہائی کورٹ کو منتقل کردی گئی ہے۔
کپل مشرا اس کے بعد ایک بار پھر سڑکوں پر اسی نعرے کے ساتھ نظر آرہا ہے اور مزید نوٹس لیے جانے تک یہ نعرہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ججوں کے ساتھ کھلواڑ کوئی نئی بات نہیں۔ جسٹس لویا کے ساتھ کیا ہوا ہم جانتے ہیں۔ ہم شاید بابو بجرنگی کو بھول جائیں جو 2002 میں گجرات فسادات میں 96 مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھا۔ اسے یوٹیوب پر جاکر سنیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح ’’نریندر بھائی نے ججوں سے ’’سیٹنگ‘‘ کے بعد اسے جیل سے نکالا۔‘‘
ہمیں انتخابات سے قبل اس طرح کے قتل عام کی توقع تھی کیونکہ یہ بربریت انتخابی مہم کا حصہ بن چکی ہے تاکہ ووٹوں کو تقسیم کرتے ہوئے اپنے حلقے قائم کیے جاسکیں لیکن دلی میں ہونے والی یہ قتل و غارت انتخابات کے بعد ہوئی ہے، جب بی جے پی اور آر ایس ایس اتحاد کو شرمناک شکست ہوئی۔ یہ دلی کی شکست کی سزا ہے اور بہار میں آنے والے انتخابات کے لیے ایک طرح کا اعلان ہے۔
ہر شئے ریکارڈ پراوردستیاب ہے، جو کوئی چاہے اسے دیکھ اور سن سکتا ہے یعنی کپل شرما، پرویش ورما، یونین منسٹر اورنگ ٹھاکر، یو پی کے وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ، ہوم منسٹر امیت شاہ یہاں تک کہ پردھان منتری کی اپنی تقریر بھی ریکارڈ پر ہیں۔ اس کے باوجود تمام معاملات الٹ کر رکھ دیے گئے ہیں اور ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ پورا بھارت دراصل مسلمان مظاہرین کا شکار ہوا ہے کہ جو تقریباً 75 روز سے سڑکوں پر ہیں اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کے ذریعے غیر مسلم اقلیتیوں کو شہریت حاصل کرنے کا تیزترین راستہ فراہم کیا گیا ہے تاہم یہ واضح طور پر غیر آئینی اور مسلمان مخالف ایکٹ ہے، جس کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کی حیثیت کو غیرآئینی اور مجرمانہ قرار دینا ہے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے بھارتیوں کو بھی جن کے پاس درکار کاغذات نہیں ہیں اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جو آج ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں۔
جب ایک بار کسی کی شہریت پر سوال اٹھ جائے تو پھر ہر شئے پر سوالات اٹھنے لگتے ہیں، آپ کے بچوں کے حقوق، آپ کے ووٹ ڈالنے کے حقوق اور زمین کے حقوق وغیرہ۔ جیسا کہ Hannah Arendt نے کہا کہ ’’شہریت آپ کو بہت سے حقوق کا حق دیتی ہے۔‘‘ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نہیں معاملہ ایسا نہیں ہے تو ذرا آسام کے معاملے پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ وہاں بیس لاکھ افراد کے ساتھ کیا گیا جن میں ہندو ، مسلمان ، دلت بھی شامل ہیں، شیلونگ میں کرفیو نافذ ہے اور ریاست کی سرحدیں غیر مقامی افراد کے لیے بند کردی گئی ہیں۔
شہریت کے ترمیمی ایکٹ کو لانے کا صرف ایک مقصد ہے کہ نہ صرف بھارت بلکہ پورے برصغیر کے عوام کو کسی طرح غیرمستحکم اور تقسیم کیا جائے۔ ان لاکھوں لوگوں کو جنہیں ہوم منسٹر نے بنگلادیشی دیمک قرار دیا ، انہیں حراستی مراکز میں نہیں رکھا جاسکتا نہ ہی انہیں ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ استعمال کرکے اور اس طرح کی سفاکانہ اور مضحکہ خیز اسکیم کے ذریعے دراصل موجودہ حکومت ان لاکھوں کروڑوں ہندوئوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے جو بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان میں رہتے ہیں اور نئی دلی سے نکلنے والے اس تعصب کے ردعمل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ایک ایسی جمہوریت جہاں آئین کی حکمرانی نہ ہو اور جس کے اداروں کو کھوکھلا کردیا گیا ہو وہ صرف ایسی ریاست بن جاتا ہے جہاں حکومت اکثریت کے پاس ہو۔ آپ کسی بھی آئین سے کلی یا جزوی طور پر اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ایسے اقدامات کرنا اور عمل کرنا جیسے آئین کا کوئی وجود ہی نہ ہو، جیسا کہ موجودہ سرکار کررہی ہے، یہ جمہوریت کو تار تار کرنے کے مترادف ہے۔ شاید مقصد بھی یہی ہو۔ یہ ہمارا کرونا وائرس ہے۔ ہم بیمار ہیں۔
ہمیں ضرورت ہے ایسے افراد کی جو غیرمقبول ہونے کے لیے تیار ہوں، جو اپنے آپ کو خطرے میں ڈال سکیں اور جو سچ بولنے کے لیے تیار ہوں۔ جرات مند صحافی ایسا کرسکتے ہیں اور بہت سوں نے کیا بھی ہے۔ نڈر وکلا ایسا کرسکتے ہیں اور بہت سوں کیا بھی ہے، اور فنکار، باہمت لکھاری، شاعر، موسیقار، مصور اور فلم ساز ایسا کرسکتے ہیں۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کہاں آگئے ہیں۔