خاتون قلم کے ساتھ نوٹ بک پر لکھتے ہوئے

’’ہم میں سے جو بھی سکول کا رخ کرتی، ماموں سے مار کھاتی‘‘

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

منفرد اسلوب کی حامل ممتاز لکھاری قیصرہ پروین سے مکالمہ

1: آپ کا تعارف ؟
جواب: میرا نام قیصرہ پروین ہے۔ میں اسلام آباد کے ایک گاؤں روپڑ میں پیدا ہوئی جو کہ اب فاطمہ جناح پارک بن چکا ہے۔ ہم چھ بہنیں اور ایک بھائی ہیں، بھائی ایک بہن سے بڑے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے ساتھ تین چار گاؤں اور بھی تھے۔

والدین کھیتی باڑی کرتے اور ہمارا پیٹ پالتے تھے۔ گائوں کا سکول پانچویں جماعت تک تھا، مزید تعلیم کے لیے نیوی میں آنا پڑتا تھا۔ گائوں میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا۔ میرے بڑے ماموں فوج میں تھے اور چھوٹے زمین داری کرتے تھے۔ ہم میں سے جو بھی سکول کا رخ کرتی، ماموں سے مار کھاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ نمبردار کی لڑکیاں گھر سے باہر جاتی ہیں۔ بڑے ماموں اور بھائی جان لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں تھے۔

میں چھوتھی جماعت میں تھی کہ ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے گاؤں خالی کرنے کا حکم ملا ۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ جانا کتنی تکلیف دہ ہے، یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ وہ گھر جس کی بنیادیں ہمارے بزرگوں نے خون پسینہ ایک کر کے رکھیی تھیں، اپنے ہی ہاتھوں گرایا اور ہم لوگ پنڈی شفٹ ہو گئے۔

سکول ہمارے گھر کے ساتھ تھا مگر ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہم لوگ گاؤں کے سکول میں پنجابی بولتے تھے۔ جب لڑکے اور لڑکیاں اردو بولتے تو میں ان کے منہ کی طرف دیکھتی۔ چھٹی جماعت میں تھی کہ امی کا انتقال ہو گیا۔ ماں کے بغیر دل کی باتیں کس سے کی جائیں یہ دکھ عمر بھر رہے گا ۔ اگرچکہ بہنوں سے بڑھ کر کوئی دوست نہ تھا ۔

ایف اے میں تھی کہ ابو کا انتقال ہوگیا۔ جب ایف کا رزلٹ آیا تو ہمارے گاؤں کے ماسٹر صاحب جو کہ ابو کے دوست تھے، کہنے لگے کہ اگر آج میرا دوست زندہ ہوتا تو میں اسے فخر سے بتاتا کہ تمھاری بیٹی پورے گاؤں کو پیچھے چھوڑ گئی ہے ۔

بی، اے میں تھی کہ شادی ہوگئی۔ شادی کیا تھی گویا بربادی کے دن شروع ہوئے۔ آپ بھی کہیں گی کہ پورا افسانہ لکھ ڈالا مگر اس کے بغیر میرا تعارف نامکمل ہے۔ ماموں کا بیٹا ٹھیک ٹھاک تھا کہ اس کو اچانک دورے پڑنے شروع ہو گئے ہر ایک کو مارنا، رونا، بے ہوش ہو جانا۔ ڈاکٹر نے ہسٹیریا یا اس سے ملتا جلتا نام بتایا ۔علاج سے اب آہستہ آہستہ کچھ بہتری آنے لگی۔

ماموں نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور تقدیر میرے ساتھ جڑ گئی۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بچے جوں جوں بڑے ہوتے گئے محلے کے بچے انھیں یہ کہہ کر اداس کر دیتے کہ تمھارے ابو پاگل ہیں۔ میں انھیں سمجھاتی کہ ان کی باتوں پہ دھیان نہ دیا کرو۔ شادی کے سولہ سال بعد ایم، اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی سے کیا مگر دل کو کہیں سکون نہ ملا ۔ 33 افراد پہ مشتمل جوائنٹ فیملی سسٹم کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور الحمدللہ کامیاب رہی ۔

جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں مگر میں ہمیشہ کہتی کہ جوڑے زمین والے خود بے ڈھنگے جوڑ دیتے ہیں مگر اب آہستہ آہستہ خدا کے اس فیصلے کو مان رہی ہوں۔

2: قلم سے دوستی کیوں اور کیسے ہوئی ؟ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی ملی ؟
جواب: ایف ،اے میں تھی کہ کلاس ٹیچر نے ایک پیرا گراف لکھنے کو کہا۔ اس ایک پیرا گراف سے دس پیرا گراف بنانے تھے، پیراگراف تو بن گئے مگر اب کھڑے ہو کر سب کے سامنے سنائے کون ؟جب کانپتے ہوئے سنایا تو تالیوں کی آواز کانوں سے ٹکرائی اور اس طرح لکھنے کا سلسلہ چل نکلا جو کہ الحمدللہ اب تک جاری ہے۔

میں جب بھی اپنی زندگی کا موازنہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کرتی تو بہت دکھی اور پریشان ہوتی مگر کہتے ہیں کہ ہر کامیاب انسان کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے جو کہ اسے بلندیوں تک لے جاتا ہے میں کاغذ قلم اٹھاتی اور اپنے دل کی باتیں اس کو سنا دیتی۔

جوں جوں دکھ ستاتے میں انھیں لفظوں میں پرونے کی کوشش کرتی، بھائی جان کو بتا کر انھیں دکھی کرنا نہ چاہتی تھی ۔

گھر میں اور گھر سے باہر قرآن پاک کی کلاسیں لینا شروع کیں جب قرآن پاک کا نور دل میں اترا تو غم کے بادل چھٹنے شروع ہوئے۔

دس بارہ سال خوب لکھا پھر کچھ وقفہ آیا اور اب ’حریم ادب‘ نے دوبارہ لکھنے پہ مجبور کردیا۔ الحمدللہ اپنے مقصد میں بہت کامیاب جا رہی ہوں۔

3: آپ کی تحریریں ہمارے معاشرے میں شہرت پانے والے لغو اور نقل شدہ ادب سے بالکل مختلف ہیں ، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح نام اور مقام بنانے میں طویل وقت درکار ہے ؟

جواب: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بہترین صلاحیتوں سے نوازا، کسی کا چرایا گیا کام بھلا کیا خوشی دے گا ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ایک جملہ بھی لکھوں تو پڑھنے والے کے لبوں پہ مسکراہٹ آئے جو کہ آج کہ دور میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں اتنی محنت کی جائے وہاں نام اور مقام بن ہی جاتا ہے۔ باقی جتنی زندگی ہے کوشش ہے کہ کچھ اچھا ہی چھوڑ جاؤں۔

4: آپ کی کاوشوں میں اس مقام تک پہنچنے میں آپ کے اہل خانہ خصوصاً شوہر،باپ،بھائی اور بیٹوں کا کیا کردار رہا ہے ؟

جواب: کاش کہ ابو ہوتے تو میں انھیں بتاتی کہ آپ کی بیٹی مصنفہ کہلانے لگی ہے۔ شوہر کو بھی کریڈٹ جاتا ہے جو کہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور میں کچھ دیر آرام سے بیٹھ کر لکھ لیتی ہوں۔

بیٹا تو کہتا ہے کہ کیا فضول کام کرتی رہتی ہیں۔ اس مقام تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ میرے بھائی جان کا ہے انھوں نے مجھے مختلف رسائل اور اخبارات لگوا کر دیے اور پھر میری تحریریں ان کی زینت بننے لگیں۔-

5 : آپ کس معاشرے کی نمائیندگی کرتی ہیں نیز آپ آج کی عورت کو کیا دلانا چاہتی ہیں ؟
عزت،دولت،شہرت؟

جواب: میں اپنی ماؤں کا دور دیکھنا چاہتی ہوں ان پڑھ تھیں، غربت تھی لیکن ایک دوسرے پہ مر مٹنے والے لوگ تھے، دکھ سکھ سانجھے تھے، اسی سے ان کی شہرت تھی۔ دولت اورعزت دونوں ضروری ہیں مگر شہرت صرف اچھے کام کی ہو نہ کہ غلط کام سے ملے۔

6: کتنی مرتبہ آپ کو احساس ہوا کہ میں حجابی نہ ہوتی؟
جواب: درس قرآن اور مختلف محفلوں میں جا کر یہ شرمندگی ضرور ہوئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی طرح حجاب اوڑھنے کی توفیق عطا فرمائے البتہ کبھی چھوٹے دوپٹے میں گھر سے نہیں نکلی۔

7: کون سے رویے ،مزاج ، مطالبات آپ کو بہت تکلیف دیتے ہیں ؟
جواب: جب بہت محنت سے لکھی تحریر پہ غلط قسم کے کمنٹس دیے جاتے ہیں، ایک دوسرے کی عزت کو اچھالا جاتا ہے۔ ایسے مطالبات جن کا پورا ہونا چاند کو توڑ لانے کے مترادف ہو۔
میری زندگی پہ لوگ ترس کھا کر دوبارہ سے دکھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

8: آپ آج کی عورت سے کیا چاہتی ہیں اس کو کہاں اور کیسے دیکھنا چاہتی ہیں ؟
جواب: میں آج کی عورت کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اسے تعلیم کے حصول سے کسی نے نہیں روکا، اس نے جس طرح کی تعلیم حاصل کرنا چاہی اس نے حاصل کی۔ آج کی عورت جس میں میں خود شامل ہوں، کی زندگی کو ازواج مطہرات کی زندگیوں کی طرح دیکھنا چاہتی ہوں۔

9: آپ کو اپنے عورت ہونے پہ فخر ہے کیونکہ—
جواب: مجھے اپنے عورت ہونے پہ فخر ہے کیونکہ یہ میرے رب کی مرضی تھی۔ اس کا سو بار شکر کہ اس نے مجھے ایک عورت بنا کر گھر کی ملکہ کا رتبہ دیا ، آدھی آدھی رات گھر والوں کے لیے رزق کی تلاش میں مارا مارا پھرنے سے بچایا، بہن ،بیٹی،بہو، بیوی اور ماں کا درجہ دے کر سر فخر سے بلند کر دیا ۔

10: وہ پیغام جو آپ اپنی تحریروں کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا چاہتی ہیں؟
جواب: جان ،مال اور وقت کے ذریعے دوسروں کی خدمت۔

11: اے کاش ؟

جواب: ہر خواہش پہ دم نکلے۔ زندگی بہت سے دکھوں اور پریشانیوں سے گزری ہے ایک ہی خواہش تھی کہ ماں زندہ ہوتیں تو ان کی گود میں سر رکھ کر خوب روتی۔

(یہ انٹرویو حریم ادب پاکستان کے تحت یوم خواتین سیریز کے لیے کیا گیا)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں