ٹڈی دل کا حملہ

ٹڈی دل کا حملہ(بچوں کے لیے کہانی، عربی سے اردو میں ترجمہ)

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

:مصنف: زکریا تأمر
: ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(زکریا تامر 1931ء میں دمشق، شام میں پیدا ہوئے، وہ صحافی اور کہانی نویس ہیں، خاص طور پر بچوں کے لئے کہانیاں اور ناول لکھے، کئی برس برطانیہ میں بھی رہے، ان کی کہانیوں کا انگریزی، فرانسیسی، ایطالی، اسبانی، پرتگالی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، پیش ِ خدمت ہے انکی کہانی ”الجراد فی المدینہ“ کا اردو ترجمہ۔)

کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ایک شہر تھا، یہ شہر بہت خوبصورت تھا، اور دنیا کے خزانوں سے مالا مال بھی! ہرے بھرے کھیت اور ان کو سیراب کرنے کے لئے بیچ شہر ندیاں۔ انہیں کوئی فکر تھی نہ پریشانی، اس شہر میں کوئی بھی بھوکا نہ سوتا تھا، لوگ آرام کی زندگی بسر کرتے، بس ان میں ایک خرابی تھی، وہ لوگ باتیں بہت کرتے تھے۔ وہ تھوڑا بہت کام کرتے اور باقی سارا وقت گپوں میں گزار دیتے، اور انہیں وقت کے ضیاع کا احساس بھی نہ ہوتا۔

ایک روز پہاڑ کی چوٹی پر اپنے کپاس کے کھیت میں کام کرنے والا ایک کسان شہر میں آیا، اس نے لوگوں کو خبردار کیا کہ اس نے پہاڑ سے پرے کافی تعداد میں ٹڈی دل کو دیکھا ہے، (ٹڈی دل چھوٹے چھوٹے حشرات ہیں جو کھیتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے پوری فصل کو چٹ کر جاتے ہیں۔) ان کا رخ شہر کی جانب ہے، شہر کے لوگوں نے اس اجنبی کا شکریہ ادا کیا، جس نے انہیں اس نا گہانی آفت سے بروقت آگاہ کیا، شہر کے لوگوں نے اس کے شکریے کے طور پر کئی استقبالیے رکھے، جس میں اس کے اس احسان ِ عظیم پر تقریریں کیں۔

اس کسان کے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے ٹڈی دل کے حملے کو پسپا کرنے کے لئے تیاری شروع کر دی، اس ضمن نے شعراء نے نظمیں اور گیت لکھے جن میں ٹڈی دل کی اس ناپاک جسارت پر اسے خوب دھمکیاں دی گئیں، اور اسے موت اور ہلاکت سے ڈرایا گیا، دوسری جانب شہریوں میں عزم اور ہمت پیدا کرنے کے لئے شعروں سے ان کے لہو کو گرمایا گیا، شہر والوں کی طاقت اور ٹڈی دل سے نفرت کے راگ الاپے گئے۔

اہل ِ علم کے ایک گروہ نے قدیم کتابوں کا ایک ذخیرہ کھوج نکالا جس میں بتایا گیا تھا کہ آخر کار ٹڈی دل کو کس طرح ہلاک کیا جا سکتا ہے، اور ان کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے والی فوج کے لئے نئی خوبصورت وردیاں تیار کی گئیں، اور ٹڈی دل کو ڈرانے کے لئے شہر کی عمارتوں پر کئی نعرے لکھے گئے: ”ٹڈی دل تیری موت تیری منتظر ہے“، ”ٹڈی دل ۔۔ مردہ باد“ وغیرہ۔

اس ضمن میں ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں شہر کے بڑے بڑے مقررین، شعلہ بیان خطیب اور مجمعے کو اپنے سیلابی بیان میں بہا لے جانے والے ماہر زبان بلوائے گئے، جنہوں نے زبان و بیان کی طاقت سے ثابت کیا کہ:
”ٹڈی دل بہت بے وقوف ہے۔“۔
”ٹڈی دل انتہائی بد صورت ہے۔“۔

مقررین اور خطیب گلے پھاڑ پھاڑ کر خطاب کر رہے تھے جب شہر کا ایک عقل مند بوڑھا اٹھا، اور شہر والوں کو مخاطب کر کے بڑی فراست سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا:
”اگر ہم ٹڈی دل پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ٹڈی دل ہمارے شہر پر کیوں حملہ آور ہو رہی ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں؟؟“۔

مجمعے میں سے کسی نے کہاکہ ”ٹڈی دل سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔“۔
کسی اور نے ہانک لگائی: ”ٹڈی دل ہوا کے رخ پر آتی ہے، جس طرف ہوا کا رخ ہو اس کا رخ بھی اسی جانب ہو جاتا ہے۔“۔

اہلیان ِ شہر اپنی اپنی ہانک رہے تھے، کوئی بھی کسی کی نہ سن رہا تھا، ہر ایک اپنی بات ہی ثابت کرنے کی کوشش میں لگا تھا، اتنی وقت گزاری کے بعد بھی ان کا کسی بات پر اتفاق نہیں ہوا تھا، ابھی ان کا جھگڑا جاری تھا کہ ٹڈی دل کا لشکر شہر میں داخل ہو گیا، اور جو کھیت، درخت، پھول اور پتا ملا چٹ کر گیا، یہاں تک کہ پودوں کی جڑیں تک کھا گیا، نہ گندم بچی نہ کپاس، نہ چاول اور نہ پھل اور پھول!!
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں