جویریہ سعید:
رات ہوا اور بارش کا طوفان آیا تھا۔ بادل اتنے زور سے گرج رہے تھے کہ میرا دل اچھل کر حلق میں آجاتا تھا۔ صبح اسپتال جاتے میں نے کچھ درخت گرے ہوئے دیکھے اور خبروں میں سنا کہ کچھ قصبے سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ بارش کے بعد کی دوپہر بڑی روشن اور گرم تھی۔ گیراج کے پاس اور بالکنی میں پانی کھڑا تھا۔
میرے یہاں منتقل ہونے سے قبل سارے اپارٹمنٹ میں نئی ٹائلیں بچھائی گئی تھیں ۔ ذرا پرانی عمارت میں نو تعمیر شدہ سفید چمچماتے اپارٹمنٹ کو دیکھ کر میں نے بڑی خوشی خوشی ہامی بھرلی تھی اور بہت جلد یہاں منتقل ہوگئی تھی۔ مگر چھاجوں پانی برسا تو معلوم ہوا کہ ٹائلیں بچھاتے ہوئے بالکنی میں موجود نکاسی کا راستہ بند کردیا گیا تھا۔ اور اب حال یہ تھا کہ میں گھبرا رہی تھی کہ پانی اندر لوونگ روم میں نہ داخل ہوجائے۔
کئی ڈونگے پانی بھر کر باہرپھینکنے کی مشقت کے بعد میں اندر آئی تو چہرے پر تکیہ رکھے وہ ابھی تک بستر پر اوندھا پڑا تھا۔ چادر اس کے نیچے سمٹی ہوئی تھی۔ پردے اب تک کھڑکیوں پر کھنچے تھے۔ میں نے اندر داخل ہوتے اسے کروٹیں بدلتے دیکھ لیا تھا۔ مگر میرے سامنے وہ یوں ظاہر کررہا تھا گویا سو رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صدی سے کھڑی اس عمارت کے ایک گوشے میں واقع ذہنی امراض کا یہ مرکز کچھ انکشافات کرتا تھا۔
یہی کہ لذت، مسرت اور آزادی کے چمکتے جھلملاتے پردوں کے پیچھے تاریک تر غاروں کے بالکل انوکھے طرز کے سسلسلے پھیلے ہوتے ہیں۔
انسان الہامی ہدایات کی زنجیروں سے بھاگا تو جانا کہ وہ تو درحقیقت اپنے وجود اور اپنی فطرت کا قیدی بنا کچھ اور غلام گردشوں میں بھٹک رہا ہے۔
یہ جو میرے سامنے آدھے گھنٹے سے سسک رہی ہے، یہ ایک نوجوان ڈاکٹرنی ہے۔ اسے اس شعبے میں ریزیڈنسی مل گئی ہے جس کی خواہش کو بھی بہت سے محرم راز دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ریزر سے ڈالے گئے بےشمار زخموں سے سجی کلائیاں میری سامنے پھیلائے روتی جارہی ہے۔
’’بریک اپ کا درد مجھ سے سہا نہیں جاتا۔ تین برس کی رفاقت کے بعد وہ مجھے چھوڑ گیا۔ میں بہت ہمت سے خود کو نارمل ظاہر کرکے اس کی نئی گرل فرینڈ سے ملی ہوں۔ میں مانتی ہوں کہ اگر وہ کسی اور کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ ہم دونوں نے مل کر علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔
مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ہمارا مزید ساتھ رہنا ممکن نہ تھا۔ وہ موافقت ہی نہ رہی جو ہمارے ساتھ کی وجہ بنی تھی۔ مگر میں اس دل کا کیا کروں۔ کلائیوں پر پڑے یہ بے شمار نشانات علیحدگی کےاس درد سے نجات کا عارضی ہی سہی مگر ایک مؤثر ذریعہ تو ہیں جو میری روح کو کاٹے ڈالتا ہے۔‘‘
(Love hurts… رشتے اور خصوصاً نکاح کا بندھن بہت سے سمجھوتوں پر آمادہ کرنے والا بوجھ لگتا ہے۔ اس لیے انسان شادی سے بھاگ لیا، مگر کیا وہ مرد وعورت کے کسی پائیدار رشتے کی ضرورت سے بھی آزاد ہوگیا ہے؟)
ایک روز کانفرنس روم میں جنس تبدیل کرکے مرد بن جانے والی گزشتہ عورت کا کیس ڈسکس ہوا جو اب دوبارہ عورت کی جنس اپنانا چاہتا ہے اور نفسیاتی زلزلے میں مبتلا ہے۔ اپنی مرضی و اختیار سے جسمانی سرجری اور ہارمونل علاج کے بعد اب وہ ایک ایسا مرد بن چکا ہے جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ مگر یہ کون سا روحانی کرب ہے جو اب اسے ذہنی امراض کے اس مرکز کے چکر لگوائے جاتا ہے؟
(اپنے وجود کی ساری لگامیں اپنے ہاتھ میں لینے کی راہ میں صرف سماج ہی رکاوٹ نہیں ہوتا۔ وجود خود اپنی آپ سے بغاوت کردیتا ہے۔ یہ سوچا تھا کبھی؟)
ایک لمبے چوڑے سفید فارم مرد نے بتایا کہ وہ خود کشی کے خیالات سے بے حال ہو کر مدد لینے کو آیا ہے ۔ اپنی بلی کے مرجانے کے بعد اسے جیے جانے کی کوئی اور وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ذرا ٹھہرئیے۔ اس بات پر منہ بنانے سے قبل جان لیجیے کہ دیوالیہ ہوجانے کے بعد جب اس کی بیوی اور بچوں نے اسے چھوڑ دیا تو یہی بلی اس کی تنہائیوں کی ساتھی تھی۔ اس ٹوٹ چکے خاندان کی آخری نشانی۔ شاید آپ سمجھ سکیں کہ کسی بلی کی موت کسی انسان کو اپنی جان لینے پر کیوں اکسا سکتی ہے۔
ملٹی ملینئیر ہم جنس پرست ٹرانس جینڈر سلیبریٹی کو کون نہیں جانتا جس کے نہ جانے کتنے کاروبار چلتے ہیں اور جس کی ہر بیوٹی پروڈکٹ لانچ ہوتے ہی فروخت ہوجاتی ہے۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس نے اپنے جسم پر نقش ونگار گدوا کر خود اذیتی (کٹنگ ) کے بے شمار نشانات چھپا لیے ہیں۔ مگر ان میں سے چند ایک اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
(وجود کے بطن کو من چاہے سامان سے بھر دینے کے بعد بھی اس میں ایک تاریک و بھیانک عمیق خلا کی گنجائش کیسے نکل آتی ہے؟)
گلیمر کی دنیا پر راج کرنے والی یہ اداکارہ جس کی حسن و ادا اور بے باکی اور خود اعتمادی کے چرچے ہیں ، کہہ رہی تھی کہ یہ انڈسٹری عورت کے لیے بہت بے رحم ہے۔ یہاں جلد پر پڑنے والی چند باریک لکیریں اور بدن میں شامل ہونے والی چند پونڈ اضافی چربی کسی حسین ترین عورت کو بھی اس گائے کی حیثیت کا کردیتی ہیں جو دودھ دینے کے قابل نہ رہی ہو۔
وہ خوفزدہ تھی شاید اس لیے کہ ایک روز وہ بھی اٹھائیس یا انتیس برس کی ہوجائے گی اور ان کوچوں میں کچھ اور تروتازہ اور کم سن دوشیزاؤں کی آمد کا شور ہوگا۔ اس وقت اس کی راتیں کسی شراب خانے میں خوف اور غصے اور بےبسی کے تلخ گھونٹ اتارتے گزرا کریں گی۔
(ویمن ایمپاورمنٹ کا کون سا ماڈل انسانی فطرت کے لیے فول پروف ہے. طاقتور ترین عورت کس چیز کی پائیداری چاہتی ہے؟ کیا ہمیشگی کے اقتدار اور آزادی کی خواہش ممکن ہے۔ یا اسے اپنی ہی کسی ہم جنس کے لیے پسپائی اختیار کرلینی چاہیے؟)
ہینڈ اوور کے دوران سب اس عورت کی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے بے ساختہ ہنس پڑے جو ایک مشہور ٹی وی سیریز میں کام کرتی رہی تھی اور ماڈلنگ بھی کرتی تھی۔ اسے اپنے پارٹنر کے لیے لڑکیاں ڈھونڈ کر لانی پڑتی تھیں تاکہ ان سے لذت کشید کرلینے کے بعد وہ سرور کے چند کھوٹے سکے خود اس کے دامن میں بھی ڈال سکے۔ اس کے ناخن تیز جامنی رنگ کی پالش سے رنگے تھے، اور اس نے سیاہ لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی۔
اس نے کہا کہ وہ اپنے پروفیشن سے خوش ہے اور اس کے پاس کچھ نئی آفرز بھی ہیں۔ مگر یہ جذباتی ناہمواری کا کرب، خود کشی اور خود اذیتی کے خیالات، آئس اور شراب کے نشے کی لت اور بلاوجہ غصے اور اداسی کے دورے اسے پریشان رکھتے ہیں۔ باتوں کے دوران اس نے کہا کہ اس میٹنگ کے بعد اسے اپنے بال ہلکے سبز رنگ میں رنگوانے جانا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے اچانک اس نے اپنے سر پر رکھی وگ اتار دی۔ اس کا سر بالوں سے پاک تھا۔
یہ سارے قصے اس معاشرے کے ہیں جہاں جبر کا عفریت قرار دیا گیا مذہب اب لجلجی کائی کی صورت گرجا کی قدیم دیواروں سے چپکا رہ گیا ہے، نئے سماج کی اٹھان انفرادی آزادی کے ماڈل پر ہوئی ہے اور اقدار و روایات کا اطلاق عملاً صرف سفید فام نسلوں کی برتری کا احساس قوی کرنے والے طریقوں پر کیا جانا چاہیے.
یہاں انسان خدا کو ریٹائر کر چکا۔ اور بزعم خود اس بے خدا کائنات میں آزادانہ طور پر اپنے وجود کا انتظام بلاشرکت غیرے خود اپنے قبضے میں کر لینے کی انتہاؤں کی جانب گامزن ہے۔
مذہب، سماج،اور اخلاقیات، کوئی اس کی راہ میں حائل نہیں تو پھر کیوں خلا، تاریکی اور درد کے یہ لامتناہی سلسلے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں کے بیچ ایسے کئی کربناک قصوں کا پردہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ پردے کے اس پار وہ مجھے سے منہ چھپائے اوندھا پڑا تھا۔ اور اس طرف حال یہ تھا کہ خاموشی کی یہ خلیج مجھے بے حد بے آرام کرتی تھی۔
سچ یہ ہے کہ اس وقت اس کے قریب جاکر گفتگو کی کوشش مفید ثابت نہ ہوتی۔ وہ تو اس وقت اس تازہ تازہ موچ والے پیر کی طرح تھا جس کو ہاتھ لگانے سے بھی درد کی ایسی لہریں اٹھتی ہیں کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اور چیخیں روکنے کا اختیار نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن سرک گیا اور شام اتر آئی تو تھکے تھکے سے قدموں سے وہ میرے سامنے آبیٹھا۔ یہ مکالمے کی گھڑی تھی۔ مکالمہ جو یا تو ہمارا بوجھ کم کردیتا ہے یا بڑھا دیتا ہے۔
اس پرانی عمارت میں پیش آنے والے واقعات اس پر بوجھ کی طرح لدے ہوئے تھے۔ اور وہ اس بوجھ کو بانٹنا چاہتا تھا۔ اور یہ کام میں نہ کروں تو اور کون کرے؟ ہے تو وہ میرے ہی وجود کا حصہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بولا تو اس کےلہجہ میں تھکا ہوا اعتراف تھا۔
’’سرحدوں کے پار کوئی بھی دنیا ویسی جنت نہیں تھی جس کے خواب دیکھے تھے ۔ ہر جنت میں پھول کانٹوں میں گھرے تھے اور سبز درختوں میں سبز ہی رنگت والے سانپوں کے ڈیرے تھے۔ ہر شراب حواس کو معطل کرکے شعور کو لذت اور مسرت کا فریب دیتی ہے اور اس کے استعمال کے بعد بدن اندر سے سڑنے لگتا ہے ۔ آرزو ایسا مشروب ہے جسے ہم پیاسے اونٹ کی طرح پیتے رہے مگر ہماری تشنگی بڑھتی گئی۔ زبان خشک ہوگئی اور آنتوں میں زخم پڑگئے۔‘‘
میں نے دھیرے سے بولنا شروع کیا:
’’ثابت ہوا کہ ہم اپنے وجود کے ہی جبر میں گرفتار ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے درد سے فرار ممکن نہیں۔ ہر حال میں اس درد کی کسی نہ کسی شکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آرزوؤں کی کوئی حد نہیں اور ان میں سے کسی ایک کی تکمیل بھی ابدی مسرت و آزادی کی ضمانت نہیں۔ نفس کی ایک خواہش کو پورا کردو تو وجود کا جبر کبھی بدہضمی اور کبھی کسی نئی بھوک میں مبتلا کردیتا ہے۔‘‘
اس نے تائید میں سر ہلایا۔
’’خدائی ضابطوں کو توڑ کر بھی سکون تو نہیں ملا۔ مذہب کو جبر سمجھ کر عین خدا کے سامنے الہامی ہدایات کے پرزے پرزے کرکے آزادی کی تلاش میں چلنے والے بھی کسی ابدی خلا میں ڈولتے ہیں، روحانی کرب کے کسی بیکراں سمندر میں ڈوبتے ہیں۔ دولت، نشہ، موسیقی، جنس، سرور، اور آزاد روی بھی ان کے خالی پن کو دور نہیں کرتی۔ اور اسی سے لڑتے وہ مرجانے کے بجائے خود کو مار لینے کی خواہش کرتے ہیں۔‘‘
اس نے روہانسو ہو کر کہا:
’’مگر پھر کیا کریں؟ کیا یہ زندگی خدا کی تفنن طبع کی خاطر تخلیق کیا گیا تماشہ ہے کہ اس میں ہم ناچ ناچ کر تھک جائیں؟‘‘
’’نہیں! تم ہٹ دھرمی چھوڑ کر سمجھنے کی کوشش کرو تو جان لو کہ خدا جو اس کائنات کا خالق بھی ہے اور چلانے والا بھی تمہیں یقین دلاتا ہے کہ یہ دنیا دارالعذاب نہیں دارلامتحان ہے۔ یہ سارا گورکھ دھندہ تمہیں شکست دینے کو نہیں تم سے اس کا حقیقی تعلق استوار کرلینے کو تخلیق کیا گیا ہے۔ وہ تمہارا دشمن نہیں تمہارا خالق ہے۔ اور تم اپنی بقا کے لیے اس کی رحمتوں کے محتاج ہو۔ مخلوق کے لیے اپنے اس تعلق کے اعتراف میں کوئی ہتک نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کے سامنے تو گھٹنے ٹیکنے ہی ہیں، تمہارا خالق اس معاملے میں سب سے بہتر آپشن ہے۔
اپنی محدودیت کے اعتراف کے ساتھ اس کے دیے گئے ضابطے کو اپنا لو۔
دیکھو ! تمہارے اپنے معاشروں میں بھی لامتناہی آزادی کے نتیجے میں لازمی طور پر جرائم اور فساد پھیلتا ہے، اسی لیے تو ملکی قانون کے ضابطے بنائے جاتے ہیں اور ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے نا۔ کتنا ہی اہم کام ہو، کیسی ہی ایمرجنسی ہو ، سڑک پر آنے والی ہر سرخ بتی اور قاعدے کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اس ایک جبر کو مان لیں تو کئی ممکنہ جان لیوا حادثوں سے بچ جاتے ہیں۔ قانون کی پابندی کیا ہے؟ یہی کہ سب تھوڑی تھوڑی انفرادی آزادی کی قربانی کے بدلے میں اجتماعی امن اور سلامتی پالیتے ہیں۔ ‘‘
وہ چھت کو گھور رہا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا:
’’سنو! اس دنیا میں سارے سوالوں کے جواب ممکن نہیں۔ کسی کی تو ماننی پڑے گی۔ جھٹپٹے کا وقت ہو اور ملگجی تاریکی میں راستہ نہ ملتا ہو۔ خوف، اداسی اور الجھن اپنی لپیٹ میں لے لیں تو اپنے مہربان خدا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اسی کے ساتھ چلے چلو۔ یقین رکھو کہ وہ تمہیں کسی اچھی منزل تک پہنچا دے گا۔ ‘‘
وہ میرے وجود کا حصہ ہے، میری ہی پرچھائی ہے، اگر وہ ماننے کے موڈ میں ہو تو اس کے خیال کے پیمانے میرے جام سے بھر جاتے ہیں۔
ہم فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ میں نے اس کے ہاتھ میں اپنی انگلیاں پھنسا دی ہیں۔ اور دوسرے ہاتھ سے دھیرے سے اس کے ہاتھ کو سہلا رہی ہوں۔
اس نے گہری سانس لے کر مجھ سے پوچھا:
’’یقین زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور الجھنوں میں سکون بخشتا ہے۔ وجود کا درد باقی بھی ہو تو یقین ایسی سکینت نازل کرتا ہے کہ پھر درد جھیلنا آجاتا ہے۔ ہے نا؟‘‘
میں نے مسکرا کر سر ہلادیا۔
_ ختم شد__