تزئین حسن:
سوال یہ ہے کہ جب میں خود اپنا شمار اسلام پسندوں میں کرتی ہوں تو میری توپوں کا رخ اسلام پسندوں ہی کی طرف کیوں رہتا ہے؟ یہ بات مجھے فولو کرنے والے اکثر لوگوں کے لئے تعجب کا با عث ہوتی ہے۔
میرے ایک فیس بک قاری کا کہنا ہے کہ آپ کا دل حسین رضی الله عنہ کے ساتھ ہے اور تلوار آپ نے دوسری طرف والوں کی اٹھائی ہوئی ہے۔ میرا بہت درد مندی سے یہ کہنا ہے کہ یہ قلم تلوار نہیں، ڈاکٹر کا نشتر ہے. اسی لئے اپنے لوگوں کے لئے اٹھتا ہے۔
پچھلے دنوں حیا مارچ کے حوالے سے میری پوسٹ متنازعہ ہوئی تو سوچا کہ معاملے کو لٹکا ہوا نہیں چھوڑنا چاہئے کہ دوسرا بندہ غلط فہمی کا شکار ہو۔ حکم ہے اپنے بھائی کو بدگمانی سے بچاؤ، اس لئے وضاحت ضروری ہے۔
حیا ایمان کا جزو ہے اور اس کے حوالے سے آگاہی ایک اچھا کام ہے۔ میرا نکتہ صرف یہ ہے کہ خواتین اور مردوں کو شرم اور حیا کے درس کے ساتھ، قران کے ایک اور حکم "غض بصر” یعنی نظریں جھکا کررکھنے کی آگاہی کی بھی ضرورت ہے اور دوسرے جہاں حیا مارچ کے لئے خواتین نے آواز اٹھائی، وہاں خواتین کےحقوق کی پامالی پر بھی اسلام پسند خواتین اور مردوں کی توانا آوازکی ضرورت ہے، خصوصاً عورت مارچ کے تناظر میں۔ پاکستانی عورت کے اصل حقوق کو نظر انداز کر کے ہم عورت مارچ کے لئے میدان خالی چھوڑ رہے ہیں۔
ایک چھوٹا سا نکتہ یہ ہے کہ حیا مارچ، معاشرے کو بےحیائی اور اخلاقی برائیوں سے آگاہی کے لئے منعقد کیا گیا۔ پاکستانی معاشرے میں روایتی طور پر شرم و حیا کو عورت کا زیور کہا جاتا ہے اور اس کا تصورعورت سے ہی وابستہ سمجھا جاتا ہے لیکن مرد کو روایتی طور پر پابندیوں سے مبرا سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ با کردار قیادت پر مشتمل ہے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ہمارا مذہب شرم و حیا کا تقاضا مرد اور عورتوں دونوں سے کرتا ہے، وہ زنا کی سزا مرد عورت دونوں کے لئے برابر مقرر کرتا ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ مرد کی فطرت ہے اس لئے اس کے لئے کم سزا ہے۔
مذہب کے بر عکس ہمارے معاشرے کا عام روایتی مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ عورت کی شرم و حیا اور حجاب معاشرے کی تمام خرابیوں اور بے حیائی کا حل ہے۔ اسی لئے غیرت کے قتل عام طور سے خواتین کے ہوتے ہیں۔ ان کا قصور نہ بھی ہو تو بھی ہو جاتے ہیں۔
بھائی کے جرم کے بدلے انہیں ہی ونی کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے معاشرے میں آگہی کی اشد ضروت ہے جس کے لئے اسلام پسند طبقات ہی کو آگے آنا ہو گا۔ ہم سیکولر اور لبرل طبقات سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ اسلام کے صحیح تصور سے عوام کو روشناس کروائیں گے۔
ہمارے اسلامی بھائی جانتے ہیں کہ قرآن جہاں مرد اور عورت دونوں کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت اور ستر کے احکامات دیتا ہے، عورت کو پردے کے احکامات دیتا ہے، وہیں مرد اورعورت دونوں کو مخالف صنف سے رابطے کے وقت "غض بصر” یعنی نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
نکتہ صرف اتنا ہے کہ حجاب کے بارے میں ہمارا معاشرہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ عورت پر فرض ہے لیکن غض بصر جو کہ قرآن کی سورہٴ نور ہی کا ایک حکم ہے اس کے بارے میں معاشرے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے تو میرا نکتہ صرف اتنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ غض بصرکے حوالے سے بھی کبھی مارچ کا انعقاد کیا جاتا کہ اس کی آگاہی بھی عام ہو۔ یہ تو تھا میرا ایک نکتہ!
میرا دوسرا نکتہ عورت مارچ کہ حوالے سے تھا۔ حالیہ عورت مارچ کے تناظر میں ہمیں اسلامی احکامات اور آج کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے، اسلام میں عورت کے حقوق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہم عورت مارچ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اسلامی تنظیموں میں اس وقت عورت مارچ کو ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے جو میرے نزدیک ایک خوش آئند بات ہے کہ عورت مارچ اور لال لال کے نعروں سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، ہم اسلام پسندوں کا فکری زنگ اس سے دور ہوگا۔
سوویت یونین کی پسپائی کے بعد ہم فکری طور پر سہل پسندی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیمیں نظریاتی، فکری، اور علمی محاذ پر پچھلے ستر سال سے ایسے فتنوں کا مقابلہ کرتی رہی ہیں اور نئے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے یقیناً آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
میرا نکتہ صرف اتنا تھا کہ جہاں ہم شرم و حیا اور حجاب کے لئے خواتین کا مارچ منعقد کر رہے ہیں تو ہمیں ان کے جائز اسلامی حقوق اور ان کے مسائل کے حوالے سے بھی بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جہاں تک ہماری اسلام پسند طالبہ کا تعلق ہے تو وہ حجاب پردے شرم و حیا کے تصورات سے پوری طرح آگاہ ہے جیسا کہ پچھلے دنوں محترمہ سمیحہ راحیل قاضی نے صوبہ سرحد کے ایک ضلع میں برقعہ کو لازمی قرار دینے پر بیان دیا کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت حجاب کرتی ہے، اس لئے ان کے نزدیک حجاب کو لازم قرار دینا ایک نان اشو ہے۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں، ان کا موقف یہی تھا۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہمارے کرنے کا کیا کام ہے؟ کیا ہمیں "میرا جسم میری مرضی”، "سڑک تمھارے باپ کی نہیں ہے”، "کھانا خود گرم کرلو” کے مقابلے میں عورت کے اصل مسائل مثلاً
وراثت میں اس کے حق، اس کی شادی میں اس کی رضامندی، گھریلو تشدد، اس کے مہر، نان نفقے، اس کی مالی خود مختاری، اس کے ساتھ سڑکوں اور کالجوں کے باہر جنسی ہراسانی، اس کے ساتھ معاشرے کے تحقیرو تذلیل اور تفریق کے رویہ (جو اس کی پیدائش سے پہلے شروع ہو جاتا ہے جب بیٹے کی دعائیں مانگنا شروع ہوتی ہیں) کے خلاف حیاء مارچ جیسے پلیٹ فارم سے آواز نہیں اٹھانی چاہئے؟
کیا کوئی ایسا مارچ منعقد نہیں ہونا چاہئے جس میں ان مسائل کے حوالے سے پلے کارڈز اسلام پسند طالبات اور خواتین کے ساتھ ساتھ اسلام پسند مردوں نے بھی اٹھا رکھے ہوں؟
یاد رہے کہ میں مارچ کے پلیٹ فارم اور پلے کارڈز کی بات کر رہی ہوں ورنہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے بہت سے ادارے خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اور تقریباً سب سے میرے قریبی روابط موجود ہیں۔
فلاح خاندان کی سربراہ عافیہ سرور کا بڑا پن ہے کہ مسلمان بچوں کی سیکس ایجوکیشن پر مشتمل میرے مضمون کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا۔ ان کی محبت ہے کہ جب امریکا آتی ہیں مجھے فون کرنا نہیں بھولتیں۔
جماعت اسلامی کی ویمن لیگل ایڈ سے تعلق رکھنے والی شگفتہ ضیاء میری اپنی خالہ ہیں، جن سے بچپن سےعورت کے ساتھ معاشرتی رویوں پر بات ہوتی رہی ہے- شاید ان کی انٹلیکچوئل شخصیت اور بات چیت نے ہی اس قابل کیا اور ہم ان موضوعات پر قلم اٹھا سکے ہیں۔ "کیا طلاق گالی ہے؟” کے مضمون میں اس ادارے میں اپنے مسائل لے کر آنے والی بعض خواتین کی اسٹوریز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مجھ سے سماجی موضوعات کے حوالے سے لکھوانے کا سلسلہ شروع کروانے کا سہرا بتول کی ایڈیٹر صائمہ اسماء کو جاتا ہے، جنہوں نے تین سال پیشتر فرمائش کرکے یوم خواتین/ ویمن ڈے پر مجھ سے مضمون لکھوایا جو بعد ازاں "خدا نہ خواستہ بیٹی نہ ہو جائے” کے عنوان سے ‘دلیل’ میں شائع ہوا۔
اس مضمون میں میرا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر مغربی فیمینزم سے اپنی عورت کو بچانا ہے تو ہمیں عورت کی تذلیل اوراس کے استحصال کو ختم کرنے کے لئے اورعورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے معاشرتی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانی کے لئے کام کرنا ہو گا۔ صرف اسی طرح مسلم امہ کی فلاح ممکن ہے کہ اس کی نئی نسل کی ماں کو عزت کا مقام حاصل ہو۔
ورکنگ ویمن کی سربراہ عابدہ فرحین اور روبینہ ناز کی فکری رہنمائی زمانہ طالب علمی کی طرح آج بھی میرے لئے قیمتی ہے۔ ان کی محبت ہے کہ رابطہ نہ بھی ہو تو سماجی موضوعات پر میرے مضامین پر تبصرے کے میسج بھیجنا نہیں بھولتیں۔ ان سے جب بھی رابطہ ہوتا ہے خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کی حالت اور انہیں در پیش مسائل کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے، جس کے لئے یہ سب میری طرح بہت درمندی سے سوچتی ہیں۔
ترجمان القران کے نائب مدیر محترم سلیم منصورخالد خواتین کے حقوق کے بہت بڑے داعی ہیں۔ پاکستان میں جنسی ہراسانی کے موضوع پرمیرا مضمون، جس کے بولڈ موضوع کی وجہ سے میں اسے قابل اشاعت نہیں سمجھ رہی تھی، اتفاق سے ان کے ہاتھ لگا جسے ترجمان القرآن میں شائع کر کے انہوں نے مجھے عزت بخشی۔ ان کی شفقت ہے کہ پروفیسر خورشید احمد کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے سینیٹر مشتاق احمد خان کے ساتھ میرا فیس بک لائیو سیشن دیکھا اور مجھے لیسٹر، برطانیہ سے فون کر کے اس پر تبصرہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے تعجب صرف اس بات پر ہے کہ جماعت اسلامی کا حصہ نہ ہوتے ہوئے آپ کی جماعت اسلامی کے معاملات پر اتنی گہری نظر کیسے ہے! میں انہیں کیا بتاتی کہ مرشد مودودی کی جماعت سے میرا ناخن اور گوشت کا رشتہ ہے۔ اسے کوئی چاہے بھی تو الگ نہیں کر سکتا۔
اس اٹوٹ رشتے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندر اور باہر موجود بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی پالیسیوں پر سے بہت سے اختلافات رہتے ہیں، جس کا میں ایماندارانہ اظہار کرتی رہتی ہوں۔
جماعت اسلامی ایک سیاسی اور دینی جماعت ہے۔ عوام کو اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ یہ دوسری بات کہ فیس بک اسٹیٹس میں آپ معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تفصیل سے بات نہیں کر سکتے جس سے غلط فہمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
میرے آس پاس کی دنیا چاہے کینیڈا میں ہو امریکا میں ہو پاکستان یا انڈیا میں ہو، خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اسلام پسندوں پر مشتمل ہے۔ یہی میری برادری ہے، یہی میرا خاندان ہے اور یہی میری دنیا ہے جسے میں مغرب سے بہت زیادہ جانتی ہوں اور اسی لئے سماجی حوالوں سے جب میرا قلم اٹھتا ہے تو میرے قاری یہی اسلام پسند ہوتے ہیں۔ میرے سخت الفاظ سے جن کی دل آزاری ہوئی ہے ان سے بہت معذرت! الله ہمیں بہترین طریقے سے اپنی بات کرنے والا بنائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میری توپوں کا رخ اسلام پسندوں کی جانب رہتا ہے کیونکہ میں خود اسلام پسندوں میں سے ہوں اور ہم سب کو سب سے پہلے اپنی صفوں کی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: معذرت کے ساتھ کہ توپوں کا رخ آئندہ بھی اسی طرف رہے گا۔ میری خواہش ہے کہ سیدمودودی کو مرشد ماننے والے پہلے کی طرح اس قوم کی فکری قیادت کریں۔