مدثر محمود سالار:
کنگسٹن شہر چھوٹا سا ہے اور وادی ہڈسن میں واقع ہے۔ بہت خوبصورت سرسبز وادی ہے اور بے شمار آبشاروں اور چھوٹی چھوٹی ندیوں سے مزین پرسکون علاقہ ہے۔ کبھی کبھار میں بیس پچیس میل کا ٹارگٹ رکھ کر چھوٹے چھوٹے قصبوں کی طرف نکل جاتا ہوں۔ کنگسٹن سے نکل کر روٹ نمبر اٹھائیس پہ چلتے چلتے کئی خاموش سوئے ہوئے قصبے آتے ہیں۔ یہاں روڈ کو نمبر کے حساب سے لکھا یا پکارا جاتا روٹ اٹھائیس بھی روڈ کا نام ہے۔
کنگسٹن سے نکل کر اس روٹ پہ جائیں تو شہر کے آخری سرے پر گاڑیوں کے شورومز ہیں، ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہیں اور میں پوچھتا ہوں: ’’شاہ جی! یہ ایک بندے کا شوروم ہوگا؟ اتنا سرمایہ ایک بندے کے پاس؟‘‘
شاہ جی کہتے ہیں :’’نہیں یار! یہ بنک کا اور کار کمپنی کا پیسہ ہوتا ہے‘‘۔ پتا نہیں بنک کا ہوتا ہے یا کسی کمپنی کا مگر ترتیب سے کھڑی نئی نکور ہزاروں کاریں،عصرِ حاضر میں ’پیسہ بولتا ہے‘ کی عملی تصویر بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
تھوڑا آگے جائیں تو ووڈ سٹاک نامی مشہور قصبہ آتا ہے۔ یہ قصبہ فلم انڈسٹری کے حوالے سے مشہور ہے۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے فلم فیسٹول یہاں ہوتے ہیں۔
خوبصورت مگر مہنگاترین قصبہ اپنے اندر الگ ہی زندگی سموئے ہوئے ہے۔ لوگوں کا رہن سہن عام سا ہے زیادہ لگژری نہیں مگر مارکیٹ میں سامان کی قیمت آسمان کو چھورہی ہوتی ہے۔ سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے نت نئے آرٹ کے نمونے اور پرانی طرز کا سامان اچھی حالت میں بیچاجارہا ہوتا ہے۔ایک بار مجھے چلتے چلتے ایک اونی مفلر پسند آیا ، اتنا پسند آیا کہ ذہن بن گیا کہ آج خرچہ کیا جائے،
میرا اندازہ یہی تھا کہ تیس سے چالیس ڈالر کا ہوگا مگر قیمت ٹیگ جان بوجھ کر نہیں لگایا گیا تھا اور قیمت پوچھی تو کیشئر کے بتانے پر یہ کہہ کر دکان سے نکل آیا کہ بھائی! اس قیمت میں تو اچھی حالت میں جاپانی گاڑی مل جاتی ہے۔ پندرہ سو ڈالر مفلر کی قیمت تھی۔ بہت مہنگا قصبہ ہے۔ اور مہنگا کیوں نا ہو کہ جہاں ہالی ووڈ سٹارز کے سمر ہائوس ہوں وہاں یہ قیمت نارمل ہے۔
قصبے کے بیچوں بیچ ندی بہہ رہی ندی کے کنارے درخت اور جھاڑیاں خوبصورت منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ دکانوں کے باہر کیاریوں اور گملوں میں باغبانی کے نمونے دل کو بھاتے ہیں۔ شام ہونے لگتی ہے تو لوگ بھی آہستہ آہستہ گھروں میں جانے لگتے ہیں اور سورج غروب ہوتے ہی سنسان قصبہ کسی اجڑی ہوئی ویران بستی کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔
لمبے گھنے درخت اور گلیوں کی زرد لائٹیں اور کبھی کبھار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں عجیب سا کسی ڈرائونی فلم کا سین لگتے ہیں۔ اکادکا گاڑی قصبے کی مرکزی شاہراہ سے گزرتی اور کسی ذیلی سڑک پر مڑتی ہے تو چند لمحوں کے لیے زندگی کا احساس ہوتا ہے اور پھر دوبارہ وہی خاموش گلیاں۔
ایک بار شام کو سورج غروب ہونے کے فوراً بعد ایک فلم فیسٹول کے لیے گئے تو سارا قصبہ خاموشی کی چادر اوڑھ چکا تھا ، بہت حیران ہوا کہ وہ فلم فیسٹیول ختم ہونے کے بعد کچھ تو رونق ہونی چاہیے تھے، لوگ میلے سے نکل رہے ہوتے، کوئی لائٹنگ اور میوزک ہوتا مگر دیئے گئے ٹائم کے مطابق سات بجے ختم ہونا تھا اور ساڑھے سات سب کچھ ویران پڑا تھا۔
تھوڑا اندر قصبے کی مرکزی شاہراہ پہ جاکر دیکھا کہ شاید لوگ واک کررہے ہوں، ہلہ گلا ہوگا اور کوئی نہ کوئی ہالی ووڈ سٹار بھی کسی جگہ نظر آجائے گا مگر نہ جی سب کچھ ایسے ویران جیسے شام کے بعد بھوتوں کا ڈر ہو۔
ووڈ سٹاک سے نکل کر آگے فونیشیا نامی قصبہ آتا ہے، وہاں جائیں تو عصر کے بعد سب کچھ بند ہورہا ہوتا ہے۔ اکا دکا گیس سٹیشن کھلے مل جاتے ہیں مگر وہ بھی رات دس اور بارہ کے درمیان بند ہوجاتے ہیں۔
فونیشیا سے رات کو دو تین بجے کئی بار واپس کنگسٹن آنا ہوا تو راستے میں دیر تک کوئی گاڑی نظر نہیں آتی اور آس پاس کا ماحول خوابناک سا ہوجاتا ہے ، سب رنگ یا سسپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والی کسی ترجمہ شدہ کہانی کا منظر ہوبہو سامنے ہوتا ہے۔ چاندنی رات کو تو درختوں سے چھن کر آنے والی روشنی مسحور کردیتی ہے۔ راستے میں آنے والے گیس سٹیشن پر رک کر اندر دکان میں جایا جائے تو ایک اجنبی سے سیلن زدہ بو محسوس ہوتی ہے اور مقامی رواج کے مطابق قدیم اشیاء کے ساتھ ساتھ جدید دور کی چیزیں پڑی ہوئی دیکھ کر زمانوں کے ملاپ کا احساس ہوتا ہے۔
گیس سٹیشن پہ بھی اکا دکا کوئی مسافر رکے تو جیسے زندگی لوٹ آتی ہے۔ گیس سٹیشن سے منسلک دکانوں میں مچھلی کے شکار سے ہرن اور ریچھ کے شکار تک کا ہر طرح کا سامان میسر ہوتا ہے۔ دکاندار شکار کا سامان بیچ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے اور شکاری شکار کرکے معصوم جانوروں کے بچے یتیم کرکے کوئی نامعلوم تسکین پاتا ہے۔ رب کا نظام ہے وہی جانتا ہے کس کی موت سے کس کو زندگی ملے گی۔
فونیشیا سے پہلے پانی کا بڑا ذخیرہ آتا ہے جسے بند باندھ کر پانی دو پہاڑوں کے درمیان ذخیرہ کیا ہوا، اس کے آس پاس جنگل اور گھنے درخت اور جھاڑیاں اسے شہری یا قصباتی زندگی سے بھی مختلف رنگ دیتے ہیں۔ بالکل خاموش اور ہوا کی بجتی ہوئی سیٹیوں کے درمیان کہیں کہیں ہرن دوڑ کر سڑک کے اوپر آجاتے ہیں اور کبھی کوئی سانپ اپنا نظارہ کراتے ہوئے تراہ نکال دیتا ہے۔
سورج کا طلوع اور غروب کا منظر اس پانی کے دونوں طرف پہاڑ کے اوپر سے بہت خوبصورت ہوجاتا ہے۔ سردیوں میں تو زیادہ دیر باہر رکنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ تیز ہوا پانی سے ٹکرا کر ٹھنڈی ہوکر آتی ہے اور جسم میں کسی تیز دھار آلے کی مانند چبھتی ہے۔
پانی کے اس ذخیرے کو شوکین ریزروایر کہتے ہیں اور ساتھ چھوٹا سا قصبہ بھی شوکین نامی ہے جو پہلی بار سننے پر کسی ہندووں کے بھگوان کا نام لگتا ہے۔ شوکین میں بھی شام ہوتے ہی زندگی کی رونق سو جاتی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے قصبوں سے شام کے بعد گزرنا گویا مستنصر حسین تارڑ کے کسی سفرنامے کے رات کے منظر کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔
ان سوئے ہوئے قصبوں میں بھی جانے ان گنت کہانیاں سورہی ہوں گی۔ صدیوں پرانے لوگوں کی زندگی کا منظر ان محلوں میں کہیں منجمد ہوگا۔ انسانی آنکھ سے اوجھل مگر پھر بھی اپنا وجود قائم کیے ہوئے کسی تاریخی منظر کا کسی چوک یا چوبارے میں بسیرا ہوگا۔