عبیداللہ عابد:
معروف تجزیہ نگار، سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم کی حیثیت سے لانے والوں نے ان ک بھیجنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے، انہی قوتوں نے ان کی غیر مؤثر پالیسیوں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروز گاری کو جواز بنا کر انہیں گھر بھیجنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ مارچ اور اپریل کے دو ماہ اہم ہیں۔ تاہم آخری فیصلہ انہی قوتوں کا ہوگا جوعمران خان کو اقتدار میں لائیں۔
نجم سیٹھی کا یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہیں محسوس ہورہا کیونکہ ’’جنھوں‘‘ نے قاف لیگ، ایم کیوایم سمیت دیگر بعض گروہوں کو عمران خان کے ساتھ جوڑا تھا، ’’انھوں‘‘ نے ہی ان گروہوں کو ناراض ہونے کا اشارہ بھی دیا۔ چنانچہ عمران خان کی تمام تر کوششوں کے باوجود مذکورہ بالا گروہ راضی ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
اور تو اور جہانگیرترین اور عمران خان کے مابین بھی کچھ اچھا نہیں چل رہا۔ سنا ہے کہ دو روز قبل جہانگیرترین نے بھی عمران خان سے ملاقات میں ناراضی کا اظہار کردیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی جس طرح ضمانتیں ہورہی ہیں، اسے بھی مقتدرقوتوں کے نئے فیصلوں کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی لندن میں ہیں اور ان کے بھائی میاں شہبازشریف بھی۔ اب کہاجارہا ہے کہ مقتدرقوتوں نے مریم نوازشریف کو بھی لندن روانگی کا پروانہ جاری کردیا ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف کافی پریشان ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ احتساب کے بیانئے کو نواز شریف کے باہر جانے، نیب کی کمزور پراسیکیوشن اور عدالتوں سے ریلیف سے سخت زد پڑی ہے ، اس ماحول میں مریم نواز کا باہر جانا احتساب کے بیانئے کے تابوت میں آخری کیل ہو گا، اگر مریم نواز پلی بارگین کے بغیر باہر جاتی ہیں تو پاکستان میں جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں۔
فوادچودھری عمران خان کے ترجمانوں میں سے ایک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا بیان دیتے ہوئے ان کا روئے سخن کس طرف تھا؟ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کا جواب ’’عدالتیں‘‘ ہو، تاہم ایسا ہرگز نہیں ہے۔
جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو خبر آئی کہ رانا ثنااللہ کے خلاف دائر تین درخواستیں بھی مسترد کردی گئی ہیں۔ ایسے میں اگر کچھ معصوم لوگ اس کی ذمہ داری ’’عدالتوں‘‘ پر عائد کردیں تو پھر ان معصوم لوگوں سے زیادہ بھولا بھالا کوئی نہیں ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف والے جنھیں ’انہونی‘ قرار دیتے تھے، وہ اب ہونے جارہی ہیں۔ اس تناظر میں یہ خبر بھی جان لیں کہ عمران خان نے اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے بھی مدد مانگ لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ڈوبتی کشتی میں سوار ہوں گے؟ عمران خان جو کسی کے ساتھ زیادہ عرصہ تعلق نبھانے میں ناکام رہتے ہیں، آصف علی زرداری ان سے کیا حاصل کرپائیں گے؟
ایک تبصرہ برائے “عمران خان کو گھربھیجنے کا حتمی فیصلہ کرلیاگیا؟”
اب نجم سیٹھی صاحب سے نئی تاریخ لینی چاہیے کہ مارچ اور اپریل دونوں گزر چکے