نوید انور:
یوں تو دنیا کی تاریخ انقلابات، فتح و ناکامی، اتھل پتھل، شکست و ریخت اوران کے اثرات سے بھری پڑی ہے لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن کے اثرات برسوں نہیں صدیوں پر محیط ہیں. انہی واقعات میں روس کا زوال ماڈرن دور میں وقوع پزیز ہونے والاوہ واقعہ ہے جس کی چھاپ آج تین دہائیاں گزرنے کے بعد شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے.
دراصل یہ وہ دور ہے جب دنیا اپنی دانست میں ترقی کے بے مثال دور میں داخل ہوئی۔ نت نئی ایجادات نے انسانی دسترس کو چار چاند لگا دئیے. انسان ایک دوسرے کے قریب ہوئے، علم کی بڑھوتری، ہر طرح کی معلومات تک سہل رسائی، نئی دنیاؤں کی دریافت، سیاسی گرفت اور نظاموں کی نظریاتی کشمکش نے ایک خاص طرز زندگی کا داغ بیل ڈالی.
یہ وہ حالات تھے جب دو عالمی طاقتیں (روس امریکہ) اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ دنیا کو ایک دوسرے سے چھیننے اور بانٹنے میں مصروف تھیں. یہ وہ دور تھا جب انسانی شعور ایک سانچے میں پرویا جارہا تھا، امن و آشتی، تہذیب، آزادی، جمہوریت، مساوات، کمیونزم، سوشلزم، لبرلزم جیسی اصطلاحیں عالمی سطح پر متعارف کراکے ایک مانیٹرنگ نظام وضح کیا گیا تھا جسے یونائٹڈ نیشن کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔
یہی وہ دور تھا جب بہت سے نظریاتی گروپ وجود میں آئے ان ہی میں اسلامی، غیر اسلامی سب شامل تھے۔ ان گروہوں نے اسی دور میں شعور کی آنکھ کھولی، دنیا کو بہت قریب سے ان دو بڑی طاقتوں کی درمیان تقسیم اور اپنی حکمت عملی اور بیانیہ کے لئے انہی کے حوالے کو مستند پایا۔
اس دور کی خاص بات یہ تھی کہ دنیا آزادی، جمہوریت، تہذیب جیسے الفاظ سے آشنا تو تھی مگر یہاں ایک مضبوط اپوزیشن بھی تھی جو بین الاقوامی سطح پر اپنے اثرات رکھتی تھی سو یونین کو بھی سیاسی نظام میں اہم آلہ نفوذ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا. جہاں جمہوری معاشرہ تھا وہاں یونین بھی تھی اور اس کو جز لاینفق مانا جاتا تھا۔
المختصر دنیا ایک ایسے سیاسی نظام کے گرد گھوم رہی تھی جس کی باگیں دو عالمی طاقتوں کے ہاتھ تھیں۔ ونوں میں توازن رکھنا اور اس کا فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان تھا لہذا نظریاتی گروپ خوب پھولے پھلے۔ یہ تھی وہ صورتحال جس میں نظریاتی گروپوں کی اٹھان ہوئی۔ اس لیے جو لٹریچر وجود میں آیا وہ اسی دور کے مطابق تھا اور اسی دور کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اس لٹریچر نے ایک ایسا نظریاتی کارکن پیدا کیا کہ کیا کہنے۔
بڑے بڑے لوگ اسی دور میں سامنے آئے. ماؤ، بھٹو، مولانا مودودی، نیلسن منڈیلا، فیض، چومسکی وغیرہ. جنہوں نے نظریاتی بنیادی کام کو خوب ترقی دی اور ایک نسل کھڑی کردی جو اب تک دنیا میں نظریاتی محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے جبکہ لوگ کہتے ہیں نظریاتی جنگ ختم ہوگئی ہے. حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے نظریاتی کشمکش اب بھی جاری ہے مگر اس کی جہت، انداز اور کیفیت بدل گئی ہے۔
اب آتےہیں اس بات کی طرف کہ ایسا کیا ہوا کہ دنیا ایک دم پھر بدل گئی۔ امریکہ روس کی سردجنگ ختم ہوگئی، روس شکست کھا گیا۔ روس کی شکست سے دنیا یک قطبی ہوگئی. امریکہ بہادر دنیا کا بلا شرکت غیرے عالمی تھانیدار بن گیا، دنیا ٹھٹھر گئی، سہم گئی، آدھی دنیا جو روس کے ساتھ تھی دم بخود ہوگئی، اب کیا کیا جاسکتا تھا سو ساری دنیا نے امریکی بالادستی کو تسلیم کر لیا۔
اس بات کو کچھ اور آسان کر دیتے ہیں کہ مجموعی طور روس کے زوال کے بعد سب نے امریکہ کی غلامی تسلیم کر لی۔ یہ غلامی ذہنی بھی تھی، فکری نظریاتی اور عملی بھی۔ اس کی چھاپ بہت گہری اور دورس تھی اس کا اندازہ بروقت نہ لگایا جاسکا اور نہ ہی اس حوالے سے مکالمے کو فروغ دیا جاسکا جبکہ دنیا بھر کے ریسرچ ادارے تھنک ٹینک چیخ چیخ کر اسے ایک بڑی تاریخی تبدیلی قرار دے رہے تھے
مگر نظریاتی گروہ اس کو روٹین واقع سے زیادہ اہمیت نہ دے سکے اور مٹھائیاں بانٹ کر چادر جھاڑ تے ہوئے خواب خرگوش میں محو ہوگئے انھوں نے کوئی خاطر خواہ کوشش نہ کی نئے حالات کو سمجھ کر منصوبہ بندی کرنے کی. اس سرد ردعمل کا اثر یہ ہوا کہ سارا نظریاتی دینی عنصر فکر تازہ کی جلوہ آفرینی سے بانجھ ہوگیا۔
حقیقت ہے کہ نظریاتی اور دینی جماعتوں نے جب آنکھ کھولی تو دنیا دوقطبی تھی اور اس وقت کے تمام اجزاء انتظام و نفوذ سے ان کو آگاہی تھی مگر جب اچانک دنیا یک قطبی ہو گئی تو اب پریشانی پیدا ہوئی کہ کیا کیا جائے، چونکہ کوئی وژنری سوچ موجود نہ تھی، کوئی متبادل راستہ نہ سوچا گیا جو ہوگا، ’’دیکھا جائے گا‘‘ کی بنیاد ہر جب امریکا نے نئے متبادل سامنے لانا شروع کئے اور اس پر براہ راست متعلقہ متاثرین کی طرف سے درد بھری آوازیں آئیں تو کچھ وقت تو تاؤ دکھایا مگر پھر خود ہی اس نئے بیانیہ کے آگے سرنگوں کر دیا گیا۔ اور پھراب جو نیا آقا امریکہ کہے گا وہی تو ٹھیک ھوگا نا۔
یونین بند کردی گئیں تمام مزددور اور طلبہ۔ احتجاج شروع ہوا لیکن یہ احتجاج بھی کسی نظریاتی بنیاد کے بغیر تھا اس لئے جلد دم توڑ گیا۔ اب کیا ہوگا۔ وہی جو دنیا کا تھانیدار امریکہ بتائے گا، لہذا کہا گیا دنیا یک رنگی، یک لباسی یک زبانی یعنی گلوبلائزڈ ہو گی۔ آلات نفوذ اب یونین نہیں این جی اوز ہوں گی۔ ان این جی اوز کا ٹاسک ایک سول سوسائٹی پیدا کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی آزادیاں سلب کرلی جائیں گی نہیں ایسے نہیں بلکہ سیاست کی اب ضرورت بھی کیا ہے ،اپنا کھاؤ اگاؤ اور جیو۔ بڑی کارپوریشنز دنیا بھر میں انسانوں کو خریدیں گی اور سب کچھ جو انہیں چاہئے، دیں گی۔
اس موقع پر ایک بڑا نظریاتی شفٹ سیاست سے سماجیت کی طرف کرایا گیا. ان کی آزادی کی قیمت کے طور پر. اور حیرت تب ہوئی جب نظریاتی گروہوں نے بھی اس کو من و عن نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ اسی کو راہ نجات سمجھ کر اختیار بھی کر لیا اور آگے بڑھ کر نیو ورلڈ آرڈر کی بی ٹیم کے طور پر اپنی بہترین خدمات بھی پیش دفتر کردی گئیں۔
میرے خیال سے اس شفٹ (سیاست سے سماجیت) نے جو تباہی پھیلائی اس کا انداذہ اب بھی نہیں لگایا جارہا ہے ،اس شفٹ نے پوری نظریاتی ٹیم کو بانجھ کردیا۔ نیا خیال، نئی تدبیر، نیا بیانیہ نئی دریافت اور نئی حکمت عملی سب ایک فارمولا سوچ کے نیچے آکر دب گیا۔
اور سیاسی عزم ختم کر کے سب کو مینیجر لیول کے سطحی کاموں پر لگا کر مطمئن کردیا گیا. اس کی تفصیلات تو بہت دلخراش ہیں اور یہاں سب پر بات کی زیادہ ضرورت نہیں ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ امپیکٹ کچھ بھی نہیں جبکہ سرگرمیاں بے انتہا۔ یہ سب اسی لاحاصل خدمت کے کچھ مظاہر ہیں جس کا براہ راست اثر آزادی فکر پر ہوا۔ تمام وہ عام معاشرتی کام جن کو تو سب نے اس نئے آقا کی مرضی کے مطابق کر ہی لینا تھا کو نظریاتی افراد نے بھی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
گھر گھر رابطے کرنا، فرد فرد کو کھانا کھلانا، تعلیم کو گلی گلی پہنچانا، بنے بنائے مغربی بیانیہ کو زبان زدہ عام کرنا، اچھے کام تھے مگر یہ حکما کرائے گئے. ہوا کیا کہ معاشرہ کی اونچی سطح (ہر معاشرہ تہہ در تہہ سطحوں پر بیس کرتا ہے، اوپر فیصلہ ساز، نیچے بتدریج کم اہمیت سطح کی فیلڈز آتی ہیں آخر میں استاد ڈاکٹرز مینیجر آتے ہیں) جو فیصلے کرتی پالیسیاں بناتی ہے، سے نظریاتی گروہ پیچھے ہوتے گئے اور یوں سیاست پر غیرنظریاتی بودے مفاد پرستوں کا قبضہ ہوتا گیا اوراس طرح سیاست خود ہی نظریاتی آہنگ سے محروم ہوگئی۔
یہ وہ المناک انجام ہے جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،سمجھا، برتا اور برداشت کیا ہے۔ واقعی شکست خوردگی قوموں کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے. اور پھر یہ شکست تو اعصاب پر بھی ایسی چھائی کہ کچھ اور سجھائی ہی نہ دیا سوائے مغرب سے آئے انگریزی مکالموں کی تکرار اور سماجیت کی لاحاصل تھکا دینے والی گفتگو کے۔
بات کچھ لمبی ہوگئی
میری ناقص رائے کے مطابق
جب تک اس سماجیت کو سیاسیت کی طرف دھکیلا نہیں جائے گا معاملہ بدستور ایسا ہی رہے گا۔
یہاں تھوڑا فرق بتادوں مختصراً جس طرح جو ہو رہا ہے اس کے مطابق ڈھل جانا بغیر چوں چراں کئے سماجیت ( سوشل) کہلاتا ہے جبکہ جس طرح جو ہو رہا ہے اس پر سوال اٹھانا اور بہتری کی کوشش کرنا سیاسیت (پولیٹیکل) کہلاتا ہے۔
تو پہلا بڑا کام جس سے اس نقصان کا کچھ ازالہ ہوسکےگا تو ہوا سماجیت سے سیاست کی طرف سفر. اس کے بعد کے کاموں کی ترتیب کچھ یوں بن سکتی ہے جیسی ہم نے سوچی اور شروع کردی ہے۔
ہم نے ایک بحالی سیاسی عزم تحریک شروع کی ہوئی ہے جس نے 16 سے زائد ذیلی گروپوں کو جنم دیا ہے اسی میں ایک اہم کام سیاستدانوں کی ٹریننگ کی اکیڈمی بھی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ
نظریاتی جنگ کا نیا رنگ اور انداز اپنائے بغیر کامیابی ملنا مشکل نہیں ناممکن بھی ہے
اس لئے عزم کرنا اور کچھ کر دکھانا ضروری ہے
پاکستان کے لئے کچھ بھی