سمیعہ طفیل:
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کا سرچشمہ ہے۔ پانی چونکہ زندگی کی علامت ہے، اسی طرح سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور بقا کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے فوراً بعد بھارت نے کشمیر پر ناجائز طور پر غاصبانہ قبضہ کرلیاتھا اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کی سرزمین پاک کے دریا تحریک آزادی کشمیر کے متوالے جانبازوں کے خون سے رنگین ہونا شروع ہو گئے،
آج عالم یہ ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کے لیے سربکف ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں کو خشک کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کر لی گئی ہے لیکن ہمیں اپنی زندگی کے سرچشمہ کشمیری دریاؤں میں خون کی جگہ پانی واپس لانے کے لیے بھی سربکف ہونے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ مسئلہ کشمیر کا حل ہونا پاکستان کی بقا و سالمیت کے لیے لازم و ضروری ہے۔
آج تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونکنے کا سہرا برہان مظفر وانی شہید،کمانڈر تحریک آزادی کشمیر کو جاتاہے جو ایک عام سا کشمیری نوجوان تھا جس کے بھائی کو بھارتی دہشت گرد فوج نے گولیوں سے بھون دیا تھا جس سے اس کا خون کھو ل اٹھا اور وہ گھنے جنگل کی طرف نکل گیا۔ اس نے سوشل میڈیا کے محاذ پر آزادی کے پیغام کا پرچار کیا اور کشمیری نوجوان اس کے پیغام پر عمل کرنے کے لیے تیزی سے آمادہ ہونا شروع ہو گئے۔
بھارتی فوج نے آزادی کے اس متوالے جانباز کو جنگل کا محاصرہ کر کے شہید کردیا۔ برہان مظفر وانی غیر مسلح تھا بھارتی فوج ہتھیاروں سے لیس تھی اس آزادی کے متوالے نے ہزاروں آزادی کے متوالے پروانوں کو جنم دیا ایسے پروانے جن کی زنجیر ایسی بنی کہ جس کو کاٹنے کے لیے فی الحال بھارتی فوج کے پاس کوئی ہتھیار کارگر نظر نہیں آرہا۔
آج لاکھوں کشمیری بچے،نوجوان، حتیٰ کہ بوڑھے اور خواتین بھی نہ صرف شہید ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں بلکہ بے شمار عورتیں عصمتیں لٹا چکی ہیں، زندہ مرد و خواتین، بچوں کی آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی ہے۔ کیمیائی ہتھیار کے استعمال کا آغاز ہوچکاہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت کی اس کھلم کھلا جارحانہ دہشت گردی پر دنیا کے استعماروں کی زبانیں گنگ ہیں۔ اس نقطہ پر گونگے، بہرے بن کر پاکستان سے عالمی استعماری ڈو مور کا تقاضا کرتے نہیں تھکتے۔
آج اس ظلم کی فلم پردہ سکرین پر نظر نہ آتی اگر ماضی میں قیام پاکستان کے وقت حکمران مولانامودودی کی بات پر ذرہ برابر بھی کان دھر لیتے تو کشمیر کی تاریخ آج یکسر مختلف ہوسکتی تھی۔ کشمیر کے بارے میں تاریخی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کہتے ہیں:
”3 جون 1947 ء کو جب حکومت برطانیہ نے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا اعلان کیا تو میں نے یہ اعلان مرکز جماعت دارالسلام میں مولانا مودودی کے ہمراہ سنا تھا۔ ابتدائی اعلان میں یہ تاثر پایا جاتا تھاکہ ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہوگا جبکہ دونوں آزاد ریاستوں بھارت اور پاکستان کی قطعی حدود کا اعلان چودہ اگست کو باؤنڈری کمیشن نے کرنا تھا۔ چودہ اگست کو باؤنڈری کمیشن نے بھارت اور مغربی پاکستان کے درمیان سرحد کا اعلان کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کردیا۔ اس اعلان کو سنتے ہی مولانا مودودی نے کہا:
”گورداسپور کی بھارت میں شمولیت کشمیر کے بھارت سے الحاق اور اس پر بھارت کے تسلط کی کھلی سازش ہے۔ پاکستان کو فوراً ایک آدھ بٹالین فوج بھیج کر ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کر دینا چاہیے ورنہ ایک مرتبہ بھارت ریاست میں گھس گیا تو اسے بے دخل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔“
آج سترسال سے زائد عرصہ گزر نے کے بعد بھی موجودہ صورتحال مولانا مودودی کی دور اندیشی کی شہادت دے رہی ہے۔ پاکستا ن بننے کے آٹھ دس روز بعد بھی جب کسی طرف سے کوئی پس و پیش نہ ہوئی تو میاں طفیل محمد کے مطابق مولانا مودودی نہایت مضطرب ہوئے اور فرمایا
”اگر یہاں دارالسلام میں میرے پاس ایک سو بندوق بردار ہوتے تو میں لاہور جانے سے پہلے راوی پار کر کے ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کرنے کا انتظام کرتا، خدا معلوم پاکستان کے ذمہ دار کیا سوچ رہے ہیں“۔
30 اگست 1947ء کی صبح ہم لوگ ایک فوجی کانوائے کے ذریعے دارالسلام سے لاہور پہنچے تھے یہاں آتے ہی مولانا مودودی نے دوسرے روز وزیر اعلیٰ اور بعد ازاں وزیراعظم، پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ سے ملاقات کی اور معاملے کی نوعیت اس قدر نازک تھی کہ مولانا مودودی نے چند گھنٹے بھی ضائع کرنے مناسب نہیں سمجھے، اس ملاقات میں مولانا مودودی نے ان سے کہا:
نواب صاحب! آپ ہمارے متعلق اور ہماری آپ کے بارے میں جو رائے بھی رہی ہو وہ اپنی جگہ، لیکن اب ہم سب لوگ اور پوری قوم ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس کشتی کو کوئی نقصان پہنچا تو پوری قوم خطرے میں پڑ جائے گی۔ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ اور سب خطرات سے عظیم خطرہ کشمیر کے بھارت میں زبردستی شامل کیے جانے کا ہے اور ریڈ کلف ایوارڈ نے در اصل بھارت کے لیے کشمیر کا راستہ کھول دیاہے۔
میری دانست میں مسلمان اکثریت کا ضلع گورداسپور بھارت کو بلاوجہ نہیں دیا گیا بلکہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دیا گیاہے تاکہ وہ جب چاہے اس میں داخل ہو جائے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اول تو پاکستان بلاتوقف کشمیر پر قبضہ کرلے اور اگر ایسا کرنا بوجوہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جس سے بھارت کا کشمیر میں فوجیں داخل کرنا ممکن نہ رہے۔“
مولانا مودودی نے نواب افتخار ممدوٹ صاحب سے یہ بھی کہا ”پنجاب میں ملٹری کے لاکھوں سابق ملازمین موجود ہیں انھیں منظم اور متحرک کرکے کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ان لوگوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نہ کچھ اسلحہ ان کے پاس موجود ہے، اس طرح مہاراجہ کشمیر سے کوئی سٹینڈ سٹل (stand still)معاہدہ بھی نہ کیا جائے۔“
نواب ممدوٹ صاحب نے مولانا مودودی کے اس مشورے کا بڑی بے اعتنائی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے یہ کہہ کر بات ختم کر دی: ”مولوی صاحب“ آپ کا بہت بہت شکریہ، ہم اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں۔“ افتخار ممدوٹ صاحب سے یہ ملاقات رانا اللہ داد صاحب کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ گفتگو کے یہ الفاظ مولانا مودودی نے خود ادا کیے جو افتخار ممدوٹ اور چوہدری محمد علی مرحوم کی زندگی میں قومی اخبارات کے ریکارڈ پر لائے گئے تھے۔
اس مایوس کن ملاقات کے اگلے روز ہی مولانا مودودی نے چوہدری محمد علی صاحب سے رابطہ کر کے کہا”آپ وزیراعظم لیاقت علی خان صاحب تک میری یہ بات پہنچا دیجئے کہ وہ فی الفور کشمیر کی فکر کریں۔“
ماضی میں کی گئی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں ہزاروں لاکھوں جوان، بچے، بوڑھے مردو خواتین آزادی کشمیر کی تحریک میں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ معذوروں، زخمیوں کی لاتعداد موجود ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی اور حکومت کی جانب سے گویا کہ اسے کشمیر کی فتح گردانا گیا،
نتیجتاً بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی شق 270 کے خاتمہ پر دستخط کر کے وادی کی خود مختار حیثیت ختم کردی جبکہ مقبوضہ کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت خود بھارت کے ایک مہمان لیڈر پنڈت نہرو نے ہی عطا کی تھی۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی کئی قرا ر دادیں موجود ہیں جن کے تحت ریاست کشمیر کو حق خود ارادیت کے تحت اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا مگر بھارت نے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ فوج کی تعداد میں اضافہ شروع کر دیا تھا۔
آج 9لاکھ بھارتی فوج ہر کشمیری پر سنگین تانے کھڑی ہے۔ بھارتی فوج کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی ہزاروں شرمناک داستانیں رقم کر چکی ہے۔ کشمیری معصوم بچوں کی آنکھوں میں پیلٹ گولیاں مار کر ان کی بینائی ضائع کر دی گئی ہے لاکھوں نوجوانوں کو چن چن کر شہید کیا جاچکاہے اور انہیں شہید کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ دراصل بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ بھارت کا یہ خام خیال ہے کہ وہ اس طرح سے کشمیریوں کو اقلیت میں بدل سکتاہے۔
آرٹیکل 35 کے خاتمہ کے بعد بھارتی شہری کشمیر میں جائیدادیں خرید سکیں گے۔ 5 اگست 2019 ء کے بعد سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ کوئی شخص گھر سے نہیں نکل سکتا۔ اگر کوئی شخص بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے دودھ لینے کے لیے بھی گھر سے نکلتاہے تو بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن جاتاہے۔ 50 سال میں پہلی مرتبہ سلامتی کونسل کا اجلاس کشمیر کے مسئلہ پر بحث کے لیے بلایا گیا ہے۔
بند کمرے کے اجلاس میں روس نے بھی پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کی سفارتی فتح ہے۔ در اصل جب ظلم بڑھتاہے تو مٹ جاتاہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”فان مع العسر یسراً، ان مع العسر یسرا۔(پس بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے)
پس بھارتی وزیراعظم مودی نے کشمیری مسلمانوں کے لیے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار ی ختم کر کے جس جبر و ستم کی مشکل پیدا کی ہے، انشاء اللہ العزیز وہ پورے کشمیر کی آزادی کی صورت میں ان تمام مسلمان بہن بھائیوں کے لیے آسانی کے سفر کی نوید بن جائے گا۔ اس وقت کشمیری جبر و ظلم کی جو سیاہ رات کاٹ رہے وہ جلد ہی آزادی سے ہم کنار ہوں گے۔
مودی نے کشمیریوں کو مشکلات سے دوچار کر کے در اصل پورے کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کر دی ہے کیونکہ ہمیں بحیثیت مسلمان اس ارشاد باری تعالیٰ پر یقین کامل ہے ”پس بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔“ انشاء اللہ جلد ہی دنیا دیکھے گی کہ پورا کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کرے گا اور ’’مکروا ومکر اللہ“ کے مصداق امریکہ بہادر کا مکر اس کی چالوں کو اس کے خلاف الٹا دے گا، انشاء اللہ۔
کشمیر کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کی یہ رائے ان کے جذبہ جہاد کی عکاس ہے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے پاکستان آنے کے بعد اسلامی ریاست کا فرد ہونے کی حیثیت سے یہ واضح اور دوٹوک اعلان فرمایا کہ جہا د کی فرضیت اسی وقت ہوگی جب ریاست پاکستان اس کا اعلان کرے۔
مئی 1948ء کے آخری ہفتہ میں صوبہ سرحد (KPK)کی جماعت اسلامی کا پشاور میں اجتماع تھا، جو پشاور شہر میں قلعہ بالا حصار کے میدان میں منعقد ہوا۔ نماز عصر کے بعد مولانا مودودی کارکنوں سے ملاقات میں مصروف تھے کہ ایک صاحب نے عرض کیا مولانا میں آپ سے علیحدگی میں ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ مولانا مودودی اسے ساتھ لے کر اپنے خیمے میں چلے گئے۔ میں بھی ساتھ اندر چلا گیا،اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام نبی بخش نظامی ہے، میں پشاور میں حکومت آزادکشمیر کے اطلاعات کے دفتر کا ناظم ہوں، آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتاہوں کہ کشمیر کے جہاد میں (آپ) حصہ کیوں نہیں لیتے؟
مولانا نے جواب دیا کہ انشاء اللہ وقت آئے گاتو ہم بھی جماعت کی حیثیت سے حصہ لیں گے اس وقت جیسے دوسرے پرائیویٹ طور پر اس میں حصہ لے رہے ہیں، ہمارے بعض نوجوان بھی اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ نظامی صاحب نے کہاکہ آپ جہاد کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ مولانا نے پھر جواب دیا کہ وقت آئے گا تو یہ بھی کریں گے۔ نظامی صاحب نے کہاکہ”میں آپ کی طرف سے پریس میں یہ اعلان کردوں“۔
مولانا نے فرمایا کہ ”بھائی مجھے اس بارے میں آپ کو ذریعہ بنانے کی ضرورت نہیں،وقت آئے گا تو میں خود ہی اعلان کردوں گا۔“ اس کے زیادہ جرح کرنے پر مولانا مودودی صاحب نے فرمایا کہ ”جہاد کا اعلان مسلمانوں کی حکومت کی طرف سے کیا جاتاہے، کسی عام شخص یا اشخاص کی طرف سے نہیں کیا جاتا، ہماری حکومت نے اب تک اس بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔“
نبی بخش نظامی صاحب نے واپس جا کر اخبارات میں یہ خبر دے دی کہ مولانا مودودی صاحب جہاد کشمیر کو جہاد نہیں مانتے اور یہی اعلان آزاد کشمیر ریڈیو سے بھی کردیا گیا“۔ چنانچہ سری نگر اور دہلی ریڈیو نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور اس نے زور شور سے پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ”عالم اسلام کے معتبر عالم دین سید ابوالاعلیٰ مودودی کشمیر میں لڑائی کو جہاد نہیں مانتے۔“
مولانا مودودی نے اس کی تردید میں بیان اخبارات اور ریڈیو پاکستان کو بھیجا لیکن کسی نے اسے شائع کیا اور نہ ہی ریڈیو سے نشر کیا۔ مولانا نے ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کو باقاعدہ خط لکھ کر بھیجا کہ”مجھے اس کا موقع دیں کہ میں اس پراپیگنڈا کی تردید کروں“ لیکن مولانا کو اس کا بھی موقع نہ دیا گیا۔ ان کے خلاف پراپیگنڈا دہلی، سری نگر کے علاوہ پاکستانی پریس سے بھی جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔
اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ مولانا مودودی نے ملک میں اسلامی نظام کے مطالبہ کی جو مہم شروع کر رکھی تھی اور اس کا کوئی توڑ حکومت کے پاس نہ تھا اسے سبوتاڑ اور شکست سے ہم کنار کرنے کے لیے یہ حربہ اختیار کیا گیا۔
(مضمون نگار سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد کی صاحبزادی ہیں)