جوڈی ٹنگ وین ہانگ،جیک ما

’علی بابا‘ کی ریسپشنسٹ گروپ کی نائب صدر بن گئی

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان

وہ ’علی بابا‘ پرایک ریسیپشنسٹ تھی لیکن پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ جب وہ گروپ کی نائب صدر بن گئی،
جی ہاں! جوڈی ٹنگ وین ہانگ ’علی بابا‘ کی سب سے متاثرکن شخصیت بننے سے پہلے اس کمپنی میں بطور ریسیپشنسٹ کام کرتی تھی لیکن پھر جلد ہی اسے زبردست محنت کی بدولت کسٹمر سروس کے نمائندے کے طور پر ترقی مل گئی اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ دنیا کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ کمپنی کی نائب صدر بن گئی۔

’ویمن آف چائنا ڈاٹ سی این‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق، ٹنگ وین ہانگ نے ایڈمنسٹریٹواسسٹنٹ کی سیٹ کے لیے کمپنی میں درخواست جمع کروائی تھی لیکن وہ پہلے انٹرویو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ بعدازاں اس نے دوبارہ درخواست جمع کروائی، اس بار اسے کمپنی میں بطور ریسیپشنسٹ کام کرنے کا موقع دیدیا گیا۔

اس وقت اس کی عمر تیس برس تھی، اس کے پاس کوئی مہارت تھی نہ ہی کسی قسم کا کوئی تجربہ تھا۔ پھر اسے یہاں کام کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور ایک رفیق کار سے جھگڑا بھی ہوگیا تھا، اس لئے اس نے محض ایک ہفتہ بعد ہی ملازمت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔

تاہم جیک ما، کمپنی کے پہلے سی ای او نے ٹنگ کو استعفیٰ دینے سے منع کردیا ، انھوں نے اپنی کمپنی کے شئیرز کو مختص کرتے ہوئے ٹنگ کو 0.2% شئیرز یہ کہتے ہوئے دیدئیے کہ ”یہ شئیرز 100 بلین تک جائیں گے، جب ’علی بابا‘ پبلک ہو گی“۔ یہ کہتے ہوئے جیک ما نے اپنی ریسیپشنسٹ جو ایک محنتی،وفادار کارکن تھی، سے درخواست کی کہ وہ کمپنی میں رہے اور نوکری مت چھوڑے۔ اگر وہ طویل عرصہ تک رہے گی تو علی بابا کے مارکیٹ میں پبلک ہونے کے بعد وہ سو ملین ڈالر تک کا فائدہ حاصل کرسکتی ہے‘‘۔

اس کے بعد ٹنگ نے صرف ریسپشنسٹ کے طور پر ہی کام نہیں کیا بلکہ ہر وہ کام کیا جو وہ کرسکتی تھی، اگرچہ وہ اس کی ذمہ داری میں شامل نہیں تھا۔ اس نے اپنے رفقائے کار کے لئے بزنس ٹورز کا اہتمام بھی کیا، خود بھی دوردراز علاقوں کے بزنس ٹورز بھی کیے، وہ دفتر میں قائم کیفے کے لئے ٹھنڈے مشروبات بھی منگواتی تھی، جبکہ ٹیلی فون پر کلائنٹس کے سوالات بھی سنتی اور انھیں تسلی بخش جوابات بھی دیتی تھی۔

ایک ماہ بعد ٹنگ کو’کسٹمر سپورٹ ڈیپارٹمنٹ‘ میں بھیج دیا گیا۔ تین ماہ بعد اسے واپس ایڈمنسٹریشن ڈویژن میں بھیج دیاگیا لیکن ریسپشنسٹ نہیں، ڈائریکٹر کے طور پر۔ وہ کہتی ہے کہ گروپ کو چلانا میرے لئے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ میں پہلے صرف ایک ریسپشنسٹ تھی۔ بہرحال اس نے یہ چیلنج قبول کرلیا۔

ابتدا میں’علی بابا‘ نے عالمی سطح پہ اپنی جگہ مضبوط کرنے کی بہت کوشش کی لیکن برسوں گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔ دوسری طرف ٹنگ طویل عرصہ سے اسی انتظار میں تھی کہ کب’علی بابا‘ پبلک ہو۔ اس نے دس سال تک انتظار کیا، پھر2004 میں ٹنگ نے جیک ما سے پوچھا کہ آخر کب ’علی بابا‘ پبلک ہوگی۔ تب جیک ما نے کہا کہ انتظار کرتی رہو، جلد وہ وقت آنے والا ہے۔

اگلے چھ برس میں ٹنگ کی متعدد پروموشنز ہوئیں، پہلے وہ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں رہی،پھر ہیومن ریسورسز ڈیپارٹمنٹ میں گئی ۔ ستمبر 2014 میں،’علی بابا‘ نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں پبلک ہوئی۔ تب کمپنی کی مالیت245.7$ بلین تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کا جیک ما نے ٹنگ سے وعدہ کیا تھا۔

پھر وہ وقت بھی آگیا جب ٹنگ کو گروپ کا نائب صدر بنادیاگیا، جی ہاں! ایک ریسیپشنسٹ سے کیرئیر کا آغاز کرنے والی اب کروڑپتی بن چکی تھی! 320$ کروڑ کی مالکن۔ اس کمپنی میں جہاں چودہ سال قبل اس نے کام شروع کیا تھا۔ اب وہ کمپنی کے 27 پارٹنرز میں سے ایک ہے، ان میں مجموعی طور پر 9 خواتین تھیں۔ اب وہ چینیاﺅ ڈاٹ کام Cainiao.com کی سربراہ ہے۔ یہ علی بابا کا سمارٹ لاجسٹکس نیٹ ورک ہے، یہ کمپنی 2013 میں قائم ہوئی تھی۔

ٹنگ کہتی ہے کہ میں احمق تھی، سادہ لوح تھی لیکن مضبوط تھی اور مستقل مزاج بھی۔ جیک ما سمیت علی بابا کے تمام لوگ ان ادوار سے گزرے تھے، کبھی وہ بھی احمق اور سادہ لوح تھے لیکن پھر مضبوط ثابت ہوئے اور انھوں نے اپنی مستقل مزاجی سے منزل حاصل کرلی۔

ٹنگ جب ایڈمنسٹریشن ڈویڑن میں تھی تو وہ کئی مشکل ترین مقابلوں میں کامیاب رہی۔ مثلاً اس کے لئے پہلا بڑا چیلنج ’ویسٹ لیک انٹرنیٹ سمپوزیم‘ جیسے بڑی تقریب کا انعقاد تھا۔ بے پناہ دباﺅ کے ماحول میں اس نے ایک جگمگاتی ہوئی تقریب کا اہتمام کروایا۔ تقریب ایسی تھی جیسے یہاں کوئی وسیع پیمانے پر شادی کی ایک بڑی تقریب ہورہی ہو۔ اس کے بعد اس نے بے شمار بڑی تقریبات کا انعقاد کروایا، ہر تقریب کے انعقاد نے اس کی صلاحیتوں کو مضبوط کیا۔

اس نے علی بابا گروپ کی ایک بڑی عمارت بھی تعمیر کروائی حالانکہ اسے تعمیراتی کام کا کوئی اتاپتا ہی نہیں تھا، تاہم اس نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور پھر گروپ کے تمام تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ منصوبہ مکمل کروایا۔ اسی طرح کچھ دیگر پراجیکٹس بھی کئے۔

2003ءمیں ’سارس‘( ایک وبائی مرض) پھوٹا تو ٹنگ کو اس کے خلاف جنگ بھی لڑنا پڑی۔ دراصل وہ گروپ کے سینئیرز کو ایمرجنسی سے متعلق رپورٹس فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی۔ اس حوالے سے وہ سیکورٹی حکام کے ساتھ بھی رابطہ رکھتی تھی۔ گروپ کے تمام دفاتر میں ایمرجنسی کا سامان انسٹال کرنا بھی اسی کی ذمہ داری تھی۔ اسی طرح ان لوگوں کی دیکھ بھال بھی ٹنگ ہی کرتی تھی جو بخار میں مبتلا ہوئے تھے۔

ٹنگ کہتی ہے کہ میں نے پانچ برس تک اسی طرح کام کیا، جس نے مجھے ایک مضبوط، پروفیشنل خاتون بنادیا۔ ان سب تجربات نے مجھے اپنی ذاتی زندگی میں بھی خوب فائدہ دیا۔

مئی 2013ءمیں ’علی بابا‘ نے سی این ایس سسٹم شروع کیا تاکہ کسٹمرز تک سامان بروقت پہنچایاجائے۔ اس کے ’شُن فینگ ایکسپریس‘ سمیت کئی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ہوئے جبکہ اس شعبے کی دیکھ بھال کے لئے ’چینیاﺅ ڈاٹ کام‘ بھی قائم کی۔ اس کے صدر’جیک ما‘ تھے جبکہ ڈونگ کو چیف آپریشنز آفیسر بنایاگیا۔

اس کمپنی کے قیام کا مقصد کسٹمرز کو چوبیس گھنٹوں کے اندر سامان پہنچانا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ جب ٹنگ اس کمپنی کی سربراہ بنی تو اس نے یہ نعرہ لگایا کہ اب ہم دیگرلاجسکٹس کمپنیوں کے مرہون منت نہیں رہیں گے اور نہ ہی ہم اپنے ٹرک چلائیں گے اور نہ ہی کورئیرٹیم رکھیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس نے یہ نعرہ لگایاتھا تو کسٹمرز کو سامان پہنچانے کے لئے اس کے پاس کوئی جادوئی نسخہ تھا۔

نسخہ یہ تھا کہ لاجسٹکس کمپنیوں کے پرانے نظام کو بہتر اور تیزرفتار بنانے میں مدد فراہم کی جائے، انھیں باور کرایا جائےکہ کسٹمرز کے مفادات کو مقدم رکھناہے اور خدمات کے معیار کو ہراعتبار سے بہتر بنانا ہے۔ گزشتہ چار برسوں سے ٹنگ اپنے اس مشن پر پوری تندہی سے گامزن ہے۔

اس کی داستان دراصل وفاداری،سخت محنت،ہوشیاری اور مستقل مزاجی کی حیران کن اور دلچسپ کہانی ہے۔ٹنگ جانتی تھی کہ ’علی بابا‘ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے ان تھک محنت کر رہی ہے لیکن اس نے اپنے باس اور کمپنی کو مکمل سپورٹ کر کے اہم کردار ادا کیا۔

آپ کے لئے یہاں سبق یہ ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے وقتی فوائد کے حصول کے لیے کبھی بھی بے قراری اور لالچ کے شکار نہ ہوں۔ صبروتحمل کامیابی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ کسی کمپنی میں چودہ سال تک رک سکتے ہیں جبکہ آپ اس کے مستقبل کے بارے میں نہ جانتے ہوں؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں