شمع سے رات میں اجالا

نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عفیفہ شمسی

مانا کہ ہم بہت تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں ،مان لیا کہ ہمارے ذہن بھی تیز ہیں ،شاطر ہیں اور زمانے کے انداز بھی بدلے گئے ہیں ۔ سہولیات کا سمندر بھی اپنا ہے اور جدیدیت کی ہوا بھی ہم نے کھائی ہے ۔ ہماری سمجھ بوجھ کو چار چاند لگ گئے ہیں، توقعات میں اضافہ ہوا ہے، صلاحیتوں کے دریا بہہ رہے ہیں ۔ علم بھی وافر ہے ،ٹیکنالوجی کا استعمال کیا خوب آتا ہے ۔

یہی تو دور تھا جب سکرین والے موبائل دیکھے ۔ اب کہیں سے کوئی گماں بھی کرسکتا ہے کہ آج سے فقط چند سال قبل ہم ان چیزوں سے آشنا نہیں تھے؟ مانا کہ ہم منبر سے بھی کہیں اونچے بیٹھے ہیں ،آسمانی پرواز کی بات کرتے ہوئے جھجھکتے نہیں ہیں حتی کہ سنبھلتے بھی نہیں ہیں ۔ تسلیم کیا کہ ہماری نسل نے وہ سب دیکھا، سمجھا، بوجھا، پرکھا اور حاصل کیا جو آج سے قبل نہیں تھا ۔

یہ بھی بعض کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ وہ آنے والی نسل کو پرانے قصے نہیں سنائیں گے، اقدار و روایات کے سبق نہیں پڑھائیں گے، ماضی کی یاد میں آہیں نہیں بھریں گے کہ حال انہیں عزیز رہا ۔ مان لیا کہ ہمارے خیالات سے جو شعلہ اٹھتا ہے وہ تو پتھر کی چنگاری سے بھی تیز نکلتا ہے ۔ جس نہج پہ ہم چلے وہاں کانٹے تھے تو پھولوں کی بھی کمی نہیں تھی ۔ قحط، فاقے، غلامی، وبا، حقیقی زندگی، قید و بند کی صعوبتیں ان کے ہم میں سے بہت سوں نے فقط نام سنے ہوئے ہیں اگرچہ
~ہم لوگ ابھی آزاد نہیں ذہنوں کی غلامی باقی ہے
تقدیر کی شفقت سے حاصل، تدبیر کی خامی باقی ہے!

ہماری قسمت میں بستر کی نرمی بھی رہی اور گھر بیٹھے کمانے کے مواقع بھی ملے اگر نہیں ملے تو کم از کم پہلوں سے بہتر جی رہے ہیں ۔ ہمیں فلاسفی بھی سمجھ آتی ہے، نفسیات کا بھی ’مغربی‘ تاثیر میں ڈوبا علم ہے ،ہمیں منطقیں بھی خوب سوجھتی ہیں ،نظریات بھی بھڑکتے ہوئے ہیں لیکن کیا اس سب کے ساتھ ضروری ہے کہ ہمارے جو بڑے لوگ ہیں، ہمارےسرپرست، پرانے قصے سنانے والے پرانے لوگ، اقدار و روایات کی پاسبانی کرنے والے، ہماری اصل تہذیب کی عکاسی کرنے والے ہمارے ماں باپ، ہمارے باقی ’بڑے‘ ، ایک لمبی قطار ہے جو یہاں سے جانے والی ہے جن کے پاس بچپن کی یاد میں سے ایک یاد یہ بھی ہے کہ اتنے سال کے تھے تب پاکستان بنا، ہجرت کر کے آئے ،

انہیں اس بات کا شد و مد سے احساس دلایا جائے کہ وہ غلط تھے؟ وہ جو زندگی تیاگ گئے وہ ضائع ہو گئی ہے، انہیں سمجھ نہیں تھی نہ انہیں اب سمجھ آتی ہے کہ یہ نسل ایسے نہیں چلے گی جیسے انہیں چلانا چاہیے ۔ اسے وہ سب راس نہیں جو انہیں راس تھا ۔ لازمی ہے کہ ایسے الفاظ سے ان کا سینہ چھلنی کیا جائے کہ ’آپ نے ہمارے ساتھ ظلم کیا‘ ، ’آپ نے ہمارے لیے کِیا ہی کیا ہے؟‘ ،’ آپ کو ہماری باتیں نہیں سمجھ آتیں‘، ’آپ کی وجہ سے زندگی میں اب ان مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘،’ آپ نے ہمیں یہ نہیں سکھایا وہ نہیں سکھایا‘۔

ضروری نہیں ہے کہ یہ سب زبان سے کہا جائے ۔ ہماری سوچیں، ہمارے الفاظ ، ہمارے اعمال سب شامل ہوں گے ۔ ایک سنہرا اصول جو والدہ صاحبہ سے سیکھا وہ یہ ہے ’’ اگر آج کچھ محسوس ہو کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا تو اپنے وقت میں یہ مت ہونے دینا ‘‘ بات کچھ ایسی آسان نہیں ہے بہت کٹھن بھی ہے ۔ یہ پرانے لوگ جو بھی تھے جیسے بھی تھے فطرت سلیمہ پر تھے تو کامیاب تھے ۔ یہ اپنے وقتوں کے کامیاب لوگ تھے، ان کی زندگیاں ہم جیسی سہولیات نہ ہونے کے باوجود بعض جگہ ہم سے بہت بہتر تھیں ۔ یہ جو جارہے ہیں نیا زمانہ ان کے جانے کا بڑا نقصان اٹھائے گا اگر ان کے بہت سے اچھے اور سچے طریقوں کو زندہ نہ رکھ سکا ۔

ایک ڈر سا بھی ہے اور ایک امید بھی ۔ کبھی سوچتی ہوں تو اپنا آپ بھی مجرم سا لگتا ہے ۔ ایک ایسے شخص کو جس کی زندگی گزر گئی ہو اور وہ اس آس اور فخر پہ گزار گیا ہو کہ اس نے حق ادا کیا، اپنا کام مکمل کیا اور اب بس لیکن اچانک اسے بتایا جائے کہ ’یہ کیا ‘کِیا تم نے ؟ تم نے تو سارا کام خراب کر دیا ہے‘ تو اس کے اندر بھرنے والے خالی پن کو کون نکالے گا ؟

یہ سمجھ بوجھ والے بچے؟ جنہیں گماں لاحق ہوا کہ زندگی کا تجربہ کچھ ہی وقت میں ان کی جھولی میں آن گرا ہے ۔ یہ تو وہ پیارے لوگ ہیں جن کے گھنٹوں کے ساتھ لگ کے بیٹھ کے ان سے پرانے قصے سننےکا لطف لینا چاہیے، ان سے سوال کرنا چاہیے کہ آپ کو اتنی سمجھ اور اتنا تجربہ کیسا آیا ،کیا حکمت عملی اپنائیں کیا کریں کہ ہم میں ملاوٹ نہ پیدا ہو ، ہمارے دل مشینوں کی حکومت کے باوجود زندہ ہی رہیں ،انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ کیسے کیسے میں گزارا کیا ۔

دو دن قبل ایک اماں جی سے ملاقات ہوئی ۔عمر تہتر سال تھی مگر ایسے گویا جوان کا جسم ہے ۔ نہ ہاتھوں میں رعشہ نہ لہجے میں کپکپاہٹ نہ منہ کا دہانہ خالی اور نہ ہی قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی ۔ دل میں آس سی رکھ کے پوچھا کہ جب پاکستان بنا تھا تو کتنے سال کی تھیں؟ شاید کہ وہ کہہ دیں شعور کی عمر تھی اور کچھ واقعات سن سکوں ۔ مگر کہنے لگیں ڈیڑھ سال عمر تھی اور پھر داستاں بھی سنائی۔

ساتھ میں یہ بتانے لگیں کہ جب سے شہر کی ہوا لگی ہے بند بند گھر میں رہ رہی ہوں تب سے کبھی کبھار بیمار ہونے لگی ہوں ۔ بند کمروں میں رہ کے بیمار ہونے والے کے بارے میں ہم خیال کرتے ہیں کہ بند ذہنوں والے ہیں ۔ سکون کی جو قبا اب چاک ہوئی ہے اس سے قبل اتنا شور نہیں تھا نہ ایسے زخموں سے واسطہ پڑا تھا جو اب کے لوگوں نے کھائے ہیں ۔

وفا کی قدریں، محبتوں اور شفقتوں کے خرانے ، صبح نو کی نوید اور امید، علم و عمل میں پختہ لوگوں کی بستیاں ، وہ بستیاں پیاری بستیاں تھیں ۔ کچھ وقت ہی ہوا ہے جب بڑی یاسیت سے نانی جان سے کہا تھا
’’امی جی! یہ بس آپ لوگ ہی تھے جو ایسی باتیں کر رہے ہیں، ایسے زندگی گزار گئے ہیں آگے بہت برا حال ہے ‘‘ لیکن ۔۔۔ ان شاءاللہ! یہ سب آپ کے بعد کسی کو تو آگے لے جانا ہے تو کوشش کروں گی وہ ’کسی‘ میں بن سکوں ۔ بس کچھ چیزوں میں اصلاح کر لیں گے باقی سب تو زندگی کا راز ہے ۔

ہمارے یہ پیارے بڑے لوگ، ہمارے راہنما ہیں ۔انہیں جو ملا جیسا ملا اس میں اپنا آپ پورا لگا دیا لیکن اس سوچ کے ساتھ کبھی نہیں لگایا ہوگا کہ وقت آنے پہ طمانچے کھائیں ۔ یہ محبتوں والے لوگ ہیں ،ان سے اطاعت، ادب اور سلیقہ سیکھا ہے انہیں محبتیں ہی زیب دیتی ہیں ۔ اطاعت کے سبق اور آداب فرزندی جس نے سیکھے ہوں اسے خامیاں بھی بسا اوقات خوبیاں بن کے دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی تعلیم جدید نہیں بھی تھی تو گوہر تھی، ان کی سمجھ آج کی سہولیات کے حوالے سے نہیں تھی تو بھی عظیم تھی ۔ ان کی دعاؤں سے سلامتی کا جو دلپذیر اثر محسوس ہوتا ہے اس کا نہ ہونا بہت یاد آئے گا، زمانہ پرانے انداز، اور ساز سب بہت یاد کرے گا ۔

اگر روکنے کا اختیار ہوتا تو ہم اپنے ان بڑوں کو جانے سے روک لیتے اور اپنا خالی ہوتا کشکول مکمل بھر لیتے کہ اب کے خالی ہوئے تو بھرنے اور جانے والے پھرلوٹ کر نہیں آتے ۔ ان کی جانب سے کچھ نصیحتیں ہمیشہ رنجور بھی کر جاتی ہیں اور پرامید بھی ، ایک نامعلوم شاعر کی نظم کی صورت میں پیش خدمت ہیں :

دیے بہرسو جلا چلے ہم تم ان کو آگے جلائے رکھنا
روایتیں کچھ چلا چلے ہم تم ان کو آگے چلائے رکھنا

بڑا مبارک جہاد ہے یہ سحر کی امید رکھنا زندہ
نہ چین ظلمت کو لینے دینا، شبوں کی نیندیں اڑائے رکھنا

یہ عصر نو ہے وفا کی قدروں روایتوں کو مٹانے والا
حسین یادوں کے پھول سارے دل و نظر میں سجائے رکھنا

میں جانتا ہوں خزانہ عاشقی کا ہر ذرہ لٹ رہا ہے
مگر صداقت کے سچے موتی بچا سکو تو بچائے رکھنا

ہے خیر و شر کی لڑائی لمبی نجانے کل کیسے پلٹے پانسہ
جہاں گریں گے ہمارے لاشے قیامتیں وہاں اٹھائے رکھنا

جدھر بھی دیکھو شکستہ آہیں، ملول جذبے فسردہ نظریں
تم اپنے رنگین، پیارے خوابوں کی پاک بستی بسائے رکھنا

خیال ارذل، پھٹی نگاہیں سخن میں پستی، نوا میں شورش
تم ایسے ماحول میں گھرے ہو، خودی کی عظمت بچائے رکھنا

ابھی جہالت کا ہے مقدر قلم بھی منبر بھی تاجِ سر بھی
دلیل کی دھیمی دھیمی باتیں ابھی کوئی دن چھپائے رکھنا

رموزِ دل کا ہے اک خزانہ، چھپا کے رکھے تھے کچھ نوشتے
زمانہ جب تک نہ ان کو ڈھونڈے تو یہ امانت چھپائے رکھنا

شراب بدر و احد دوبارہ نجانے کب مہ کدے میں آئے
عزیز ساقی یہ جام و مینا کسی طرح سے سجائے رکھنا

دیے بہرسو جلا چلے ہم تم ان کو آگے جلائے رکھنا
روایتیں کچھ چلا چلے ہم تم ان کو آگے چلائے رکھنا!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے!”

  1. منیب الرحمن Avatar
    منیب الرحمن

    یہ تحریر نہیں بلکہ دل کی آواز ہے۔ ❤
    دل کی آواز کو جس خوبصورتی سے الفاظ کا روپ دیا ہے وہ نہ صرف قابل تعریف ہے ، نا ہی صرف قابل ستائش بلکہ قابل تحسین بھی ہے۔ 👍