ثمینہ رشید
آج کل خیالات کی پٹڑی فکاہئیہ کی طرف رواں دواں ہے اس لئے خواتین کے ان مسائل پہ مزاحیہ تحریر کی پہلی قسط حاضر ہے:
ٹین ایجر بچیوں کی مسائل
صبح اٹھتے ہی آئینے میں چیک کرنا ۔ آئی بیگز تو نہیں ، کوئی نیا ایکنی داغ دھبہ تو نہیں ۔ اگر ہے تو اس سے بڑا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ چہرے پر کوئی نمایاں دانے نکل آئیں تو اس کے چھپانے کے لئے اور ختم ہونے کے لئے لڑکیاں کس قدر ہلکان ہوتی ہیں تم کیا جانو خلیل بابو!
پھر ایک مسئلہ ہوتا ہے وزن ۔ افف اللہ وزن تو صرف پینتیس سے چالیس کے درمیان ہو ۔
ذرا سا بڑھا نہیں اور بچیاں لگیں روز واک کرنے ۔
اب یہ اور بات ہے کہ واپسی پہ آئس کریم کھا کر اس سے زیادہ کیلوریز کا اضافہ کرلیں جتنی واک کرکے کیلوریز جلائی تھیں۔
ایک مسئلہ ہے جو ہر عمر کی خاتون کو لاحق ہے وہ ہے نت نئے فیشن کے کپڑے بنانا ۔ اللہ اب کیا بتائیں یہ تو خواتین کا پیدائشی حق ہے اس لئے تو علامہ اقبال نے بھی ہمارے رنگ برنگے کپڑے دیکھ کر لکھا کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔
اب شہر کے سارے بازار میں دیکھ لیں ستر فیصد دکانیں صرف خواتین کے کپڑوں جوتوں، جیولری، بیگز اور میک اپ کی ہوتی ہیں۔ خاندان کی کوئی تقریب ہو یا محلے کا میلاد ۔ سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے:’’ میرے پاس تو پہننے کو ڈھنگ کے کپڑے ہی نہیں‘‘۔
ایسے میں ساری لڑکیاں / خواتین بیچاری بھری ہوئی الماری سے کپڑے نکال نکال کر چیک کرتی جاتی ہیں اور آخر اس ’’محنت‘‘ کے بعد وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اس ’’محنت“ سے پہلے تھا ۔
یعنی ڈھنگ کے کپڑے ہی نہیں ہوتے بیچاری خواتین کے پاس۔
اب حل یہی نکلتا ہے کہ ابا سے یا میاں جی سے کہا جاتا ہے کہ بس! مجھے نئے کپڑے ہی بنانے ہیں لہذا پیسے فی الفور دے دئیے جائیں ۔ اب اس کے بعد نکلتا ہے ایک اور مسئلہ کہ کہیں عید پر یا قریبی شادی یا سالگرہ کی تقریب میں کوئی ہمارے جیسے کپڑے یا ڈیزائن نہ بنالے ۔
اففف یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے نا کہ تیسری عالمی جنگ بھی اس کے آگے کم ہے ۔
اب اس پر خواتین اتنی محنت کرتی ہیں اور رازداری دکھاتی ہیں کہ کچھ نہ پوچھیں ۔ کپڑے تو کپڑے جیولری اور ہینڈ بیگ بھی یونیک ہونا شرط ہے۔
خواتین کے مسائل پر بات کرنے والے تو بہت ہیں لیکن ان کے روز کے مسائل اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل بھی سنے تو پگھل جائے (سوائے حضرات کے) ۔ مثلاًً
صبح ناشتہ تو کسی طرح نمٹ جاتا ہے اور ایک بھیانک مسئلہ سامنے آتا ہے کہ
“آج کیا پکایا جائے؟ “
یہ وہ مسئلہ ہے جس پر خواتین سے آپ براہ راست پوچھنے کی کبھی غلطی نہ کریں ورنہ گھنٹہ بھر تو اس موضوع پر آرام سے دل کی بھڑاس نکال سکتی ہیں۔ بقول ان کے میاں اور بچوں کی پسند مشرق و مغرب اور خود ساس اور خاتون خانہ کی پسند شمال جنوب کی طرح نہیں ملتی۔ اس کے باوجود وہ کس طرح روز یہ سنگین مسئلہ نمٹاتی ہیں یہ انہی کا خاصہ ہے ( یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود شام میں گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بازار کے برگر اور کباب پہ گزارا کرتا نظر آتا ہے )۔
کچھ خواتین تو ناشتے کے بعد مارننگ شوز دو گھنٹے صرف اسی لئے دیکھتی ہیں کہ شاید کسی نئی ڈِش کا آئیڈیا ہی مل جائے ۔ ورنہ انہیں کوئی مارننگ شوز دیکھنے کا شوق تھوڑا ہی ہے۔ یہ قربانی وہ گھر والوں کے پیٹ کے خاطر دیتی ہیں کیونکہ عورت کی تو فطرت میں ہی ہے قربانی دینا ۔ یہ تو پھر دو گھنٹے کا مارننگ شو ہی ہوتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو خواتین کا مشترکہ ترین مسئلہ ہے وہ ہے۔
’’ڈھنگ کا درزی نہیں ملتا “ ۔
دو گھنٹے کے مارننگ شوز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ کھانے کی ریسیپی کبھی کبھی اور نئے نئے فیشن کے سوٹ کے آئیڈیاز روز کی بنیاد پر مل جاتے ہیں۔ اب بیچاری خواتین کو اس کے لئے کس قدر مشقت کرنا پڑتی ہے یہ بھلا حضرات کہاں جانتے ہیں۔
حضرات تو بس پیسے دے کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ اس صنف نازک کا ہی دم ہے کہ شاپنگ سینٹر میں دکان دکان گھوم کر اپنی پسند کے کپڑے ڈھونڈتی ہے اور اس کے لئے خود تو مشقت کرتی ہی ہے دکاندار سے بھی مشقت کروانے پر پورا یقین رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دس بیس سوٹ دیکھ کر، پسند نہ آنے پر اگلی شاپ کا رخ کرتی ہے۔ پھر سو دکانوں کے وزٹ کے بعد جب بالآخر دو سوٹ خرید ہی لیتی ہے تو گھر آکر پھر بھی کنفیوزڈ رہتی ہے کہ اس سوٹ کا رنگ مجھ پر ’’سُوٹ‘‘ بھی کرے گا یا نہیں ۔
اس عظیم مشقت کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے درزی کی تلاش کا ۔ کم از کم آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی درزی کو خواتین نے 100 میں سے 100 نمبر نہیں دئیے ۔ اس لئے خواتین بیشتر وقت اپنی سہیلیوں ، بہنوں ، پڑوسنوں حتی کہ میاں سے یہی کہتی پائی جاتی ہے کہ
’’اتنے دل سے یہ کپڑے خریدے تھے درزی نے ستیا ناس کردیا‘‘۔
ایک اور مسئلہ جو خواتین کی زندگی کو مشکل میں ڈال کر رکھتا ہے وہ ہے گھر میں کام کرنے والی میڈ (جسے عرف عام میں ’ماسی‘ کہا جاتا ہے ) کا نہ ملنا ۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر خواتین اگر دل کا درد لکھنے۔ بیٹھیں تو ابن صفی کی سیریز سے بھی زیادہ کتابیں صرف ایک خاتون لکھ سکتی ہے ۔
لیکن یہ سنگ دل بے درد حضرات کیا جانیں ۔ خود تو تیار ہوکر دفتر سدھارتے ہیں اور خواتین گھر میں کس طرح ان ماسیوں سے نمٹتی ہیں اور ان کے سر پر کھڑی ہوکر محنت سے ان سے صفائی کرواتی ہیں۔ یہ ان کا ہی کمال ہے ۔ اگر ان کی محنت شامل نہ ہو تو گھر دو دن میں گندگی کا ڈھیر بن جائے ۔
یہ اور بات ہے کہ مرد نے نہ کبھی عورتوں کے دکھ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے۔
(کہاجارہا ہے کہ خواتین کے مسائل بیان کرنے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، اتنظار کیجئے اگلی قسط کا.اگر کسی کو اس تحریر میں لکھی گئی باتوں سے اختلاف ہو تو وہ نیچے کمنٹ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے۔: ادارہ)