پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ملک کے کم از کم دو صوبوں میں اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور باقی دو صوبوں میں کہیں اس کے اتحادی ناخوش ہیں اور کہیں آپس ہی میں اختلافات موجود ہیں۔
ان حالات میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک طرف اختلافات دور کرنے کے لیے کمیٹیاں قائم کر رہی تو دوسری طرف اس نے ’سازش کرنے والے وزرا کو برطرف کر دیا ہے۔‘ بی بی سی اردو کے مطابق ان اقدامات کے بعد حکمراں جماعت کا دعوٰی ہے کہ ‘حالات معمول پر آ چکے ہیں اور سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔‘ تاہم کیا واقعی ایسا ہے یا پھر بظاہر پر سکون نظر آنے والے حالات طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے؟
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ’شکایات اپنی جگہ موجود ہیں اور یہ ایک وقتی خاموشی ہو سکتی ہے۔‘
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا استدلال ہے کہ ‘شکایت تو دراصل لوگوں کو یہ ہے کہ حکومتی انتظام ٹھیک نہیں ہو رہا، ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہو رہا، اراکین کے کام نہیں ہو رہے اور نئی کوئی پالیسی نہیں آ رہی۔ ان مسائل کا تو کوئی حل نہیں نکلا ابھی تک۔’
ان کے مطابق ابتدا میں وزیرِاعظم عمران خان نے سیاستدانوں کو اختیارات دیے، وہ ڈلیور نہیں کر پائے۔ اس کے بعد عمران خان نے خود چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو بااختیار بنا کر بھیجا، تو وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کے ساتھ جو سیاسی لوگ ہیں ان میں احساسِ محرومی پیدا ہو گیا۔
’اس احساسِ محرومی کے بدلے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے گروپ بنایا تھا۔‘
ان کے خیال میں وزیرِاعظم عمران خان کو خود بھی یہ پتہ چل چکا ہے کہ وزیرِاعلٰی پنجاب میں صلاحیت نہیں ہے۔’وہ چاہتے ہیں کہ چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کارکردگی دکھائیں لیکن سیاسی ملکیت وہ کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہتے، انھیں عثمان بزدار پر زیادہ اعتماد ہے۔‘
تاہم سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کے لیے یہ وقت کارکردگی دکھانے کا ہے۔ اب کوئی اور عذر نہیں چل سکتا، مخالفوں کا یا احتساب کا۔ انھیں اس تاثر کے خلاف بھی لڑنا ہو گا کہ وہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔
’اس کے لیے انھیں پنجاب میں اچھا انتظام، پالیسیاں اور حکمرانی چاہیے، جو ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار فرح ضیا کہ مطابق ’ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فوری نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہے تاہم مسائل وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم عمران خان جس کے پیچھے کھڑے ہیں ان کی اس وقت پوزیشن کافی کمزور ہے۔
’عمران خان کے علاوہ وہ کسی اور کو مطمئن نہیں کر پائے کہ انھوں نے اگے آ کر خود کو منوایا ہے۔ کئی دفعہ تو آپ اخبار پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی حقیقی وزیرِ اعلٰی ہیں۔‘
فرح ضیا کے خیال میں ق لیگ کا کردار پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے میں اہم تھا اور آئندہ بھی ہو گا۔ ’ان کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہو گا، مگر یہ ضروری بھی ہے۔‘