سکارف اوڑھے ہوئے مسلمان خاتون کتابیں پڑھتے ہوئے

قصہ ہمارے عربی سیکھنے کا (قسط دوم)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ جبیں

درجہ متوسط سے آغاز کا مطلب تھا کہ ہمیں صرف دو سمسٹر ( آٹھ ماہ) زبان پڑھنا ہو گی اور اس کے بعد مضامین پڑھنے کا آغاز ہو جائے گا۔ قسم البنات میں طالبات کی تعداد کے اعتبار سے متوسط کے تین یا چار سیکشن تھے یہ سراسر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تھی کہ اس سمسٹر میں عربی زبان کے جو اساتذہ طالبات کو پڑھانے کے لیے متعین ہوئے ان میں سے بہترین ہمارے سیکشن کے حصے میں آئے۔

قرآت اور زبان دانی کی مشق کے لیے ایک کلاس مصری خاتون مادام ایمان کے پاس تھی جو بالکل ہمارے ساتھ ننھے بچوں کی طرح شفقت فرماتیں۔ اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بیٹھی طالبات میں سے فردا فردا سب کو کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے ابھارتیں۔
(خدا انھیں غریق رحمت کرے بہت عرصہ قبل ہی ان کی وفات کی خبر سننے کو ملی تھی۔ ) اور دوسری استاد حبیب الرحمن عاصم کے پاس۔

لکھائی کی مہارت ( تعبیر ) اور قواعد کے لیے استاد محترم اکرم غراب( سینیر مصری استاد) تھے ہر کلاس کا دورانیہ کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے ہوا کرتا تھا۔
لیکن آغاز میں سمجھ نہ آنے کے باوجود یہ وقت پر لگا کر اڑ جاتا تھا گویا ابھی بیٹھے ہوں اور ابھی کلاس ختم۔بھی ہو گئی۔

سب اساتذہ کا انداز جدا تھا لیکن طلبہ کو متحرک رکھ کر کلاس میں ذہنی طور پر شامل رکھنا اور تھوڑی سی پیش رفت پر بہت سی حوصلہ افزائی سب میں امر مشترک تھا۔

بالکل آغاز سمسٹر کی بات ہے استاد اکرم نے ہمیں ایک ورڈ پزل بنانے کا ہوم ورک دیا ۔ ہوسٹل جا کر ہم نے جو بہن سے مدد لینا چاہی تو انہوں نے جھٹ ہری جھنڈی دکھا دی کہ ” خود کرو ، نہ کرو گی تو بس بیساکھیاں ہی تلاش کرتی رہو گی ” غالباً عصر سے بیٹھے مغرب ہو گئی مگر ایک چھوٹا سا ہوم ورک نمٹنے میں نہ آرہا تھا۔ ذہن میں اس پزل کو بنانے میں وقت اور دماغ کی کھپائی آج بھی تازہ ہے ۔ بہر حال جیسا تیسا اگلی کلاس میں کام جمع کروا دیا۔

سر اکرم کی عادت تھی کہ کلاس میں ہی چیکنگ نہیں نمٹاتے تھے بلکہ چیک کرنا بھی ان کے نزدیک عرق ریزی کا کام تھا۔

کوئی ہفتہ بھر بعد جب ان کی کلاس ہوئی تو دیکھا ہاتھ میں چیک شدہ ورقے پکڑے اندر آ رہے ہیں۔
بیٹھتے ہی پرچے اوپر نیچے کرنے لگے پھر طالبات پر نظر ڈالی پھر پرچے اوپر تلے۔ اس اثنا میں ہم سانس روکے اتھل پتھل ہوتے دل کو سنبھالے بیٹھے تھے کہ اچانک انہوں نے کلاس کی خاموشی توڑ کر پوچھا ” من قدسیہ؟ “؟

دل گویا اچھل کر حلق میں آ گیا۔ پاس بیٹھی تیمیہ نے ٹہوکا دیا۔ آگے بیٹھی لڑکیاں مڑ کر ہمیں دیکھنے لگیں ۔ لرزتی کانپتی ٹانگوں کے سہارے کھڑے ہو کر منمناتی آواز میں بولے ” انا “
انہوں نے ایک نظر پھر پرچے پر ڈالی : اور پوچھا :”عشت اي بلد عربي” ؟

ہم نے اندازہ لگاتے ہوئے قدرے توقف سے ” لا ” کہہ دیا ۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک لمبی تقریر کی ۔ لب لباب جس کا جو بھی تھا ہمارے کام کے الفاظ دو ہی تھے ” احسنت ماشاءاللہ، احسنت ماشاءاللہ “

پھر ہمیں بلا کر ہمارا ورق ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس پر سرخ روشنائی سے کوئی آدھ صفحے کا نوٹ لکھا تھا ۔
یہ ورق ہم نے ایک عرصے تک سنبھال کر رکھا ۔ نوٹ کے آخر میں لکھا یہ جملہ آج بھی یاد ہے ہمیشہ یاد رہے گا ۔
” امید ہے کہ تم امت کے لیے مفید ثابت ہو گی “

اس کے بعد کیا پڑھا، کیا نہ پڑھا ،کس کی پزل غلط ہوئی، کس کی ٹھیک، کچھ ہوش نہیں تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ کلاس ختم ہوتے ہی ہم تیر کی طرح لائبریری گئے اور جب دن ڈھلے ہاسٹل کے لیے آخری بس نکلی تو ہم عربی کی بچوں کے لیے لکھی گئی رنگین تصویروں والی کہانیوں والے ریک کے سامنے سے اس حالت میں اٹھے کہ اگلے دن پڑھی جانے والی کہانیاں الگ کر کے رکھ لی تھیں۔ اگلے آٹھ ماہ لائبریری اور ہم پکے والے دوست بننے جا رہے تھے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں