عربی انگریزی کے الفاظ

قصہ ہمارے عربی سیکھنے کا(قسط اوّل)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ جبیں

دوسری یا تیسری جماعت کا قصہ ہے. امریکا میں مقیم ہمارے چچا نے ،بڑی بہن اور چچازاد جو پرائیویٹ ہی ایف اے کی تیاری کر رہی تھیں ، کیلیے انگریزی کے کچھ اسباق کیسٹ میں ریکارڈ کر کے بھیجے ۔ غالباً کیسٹ پر دعوہ اکیڈمی کے کسی لیکچر کا لیبل لگا تھا اور مقرر کا نام ڈاکٹر کمال تھا ( اللہ کرے یہی نام ہو ).

یہ اسباق گھر میں بار بار سنے گئے ۔ سبق اور اس کی حل کردہ مشق سے تو ہمیں چنداں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن جونہی سبق ختم ہوتا یک دم ڈاکٹر صاحب کے انگریزی لیکچر کا تھوڑا سا اختتامیہ اور اس کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت عربی لحن میں گایا ہوا گیت شروع ہو جاتا ۔ یوں لگتا جیسے کسی پروگرام کے آخر میں چند نوجوان سٹیج پر آئے ہوں اور یہ نشید گایا ہو ۔

عربی نشید کو سننے کے شوق میں کیسٹ کی دوسری سائیڈ شروع ہوتے ہی ہم ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے ۔ پھر صبر سے اس ناقابل فہم سبق کو سنتے رہتے ۔

سُر اور لَے سے دلچسپی ہونے کے باعث ہم نے دو چار بار سننے پر ہی اس کی طرز کو تو ذہن نشین کر لیا لیکن ایک ناقابل فہم زبان ہونے اور بیشتر الفاظ کا ٹھیک ٹھیک تلفظ نہ سمجھ آنے کی بنا ہم نے سُر کے وزن پر ان الفاظ میں اپنی جانب سے تصرف کر لیا ۔ یوں چند دنوں کی مشق سے وہ نشید ہماری زبان پر تھی اور ہم۔اسے گھر اور مختلف اجتماعات میں اعتماد سے پڑھ کر داد وصول کرنے لگے ۔

بعد ازاں یونیورسٹی جانے پر ان تصرفات کا پول ہم پر اس طور کھلا کہ ابتدائی ایام میں ہی ایک روز ہاسٹل میں کسی مہرجان کے موقع پر چند عرب لڑکیاں گروپ میں اچانک وہی گیت گانے لگیں۔ سُر اتنی خراب ۔۔۔۔ کہ ہمارا دل چاہا مائیک چھین کر ذرا انہیں گا کر دکھائیں کہ اس کی اصل طرز کیا ہے مگر جونہی وہ پہلے مصرعے کی تکرار کے بعد دوسرے مصرعے پر آئیں, ہمارا ارادہ زمین بوس ہو گیا کہ یہاں تو پورا مصرعہ ہی الگ تھا ۔ آج تک غلطی واضح ہونے پر بھی ہم نشید گانے لگیں تو وہی بچپن والی اپنی شاعری زبان پر آ جاتی ہے۔
یہ قدیم عربی نشید ” لا شرقیة لا عربية اسلامية إسلامية ” تھی ۔

پہلا مصرعہ
” افلا ياتى يوم نحيا فيه حياة اسلامية ” تک تو بات ٹھیک تھی۔
لیکن اگلا مصرعہ ” یھتف کل الکون یغنی لا شرقية لا عربية. ” کو ہم نے ” یحسب کل الجون اغنی” بنا ڈالا تھا ۔
اسی زمانے میں ایک دوسرے کیسٹ کے آخر میں چھوٹی بچیوں کی آواز میں گایا ہوا گیت بھی آج تک یاد ہے جسے اس کے بعد کبھی سننے کا موقع نہ ملا ۔ بول تھے
” بالتعاون بالمحبة . كلنا يملأ قلبا. يملأ قلبا. بالتعاون بالمحبة. “

اس کے بعد عربی زبان سننے کا ایسا چسکا ہمیں لگا کہ ریڈیو پر جب کبھی ابا بی بی سی لگانے کیلیے اس کی فریکوئنسی سیٹ کرتے اور بہت سے سٹیشن باہم خلط ملط ہونے کے بعد کسی عربی سٹیشن کی آواز ابھرتی تو ہم ہمہ تن گوش ہو جاتے۔

کویت ریڈیو کی فریکوئنسی تو ہم نے خود ہی ڈھونڈ نکالی تھی کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے لہجہ ہی ایسا پیارا لگتا کہ مختلف تکرار شدہ جملوں کو زیر لب دہراتے اور لطف لیتے۔ خاص طور پر ” ايها المستمعون الكرام ! هذه اذاعة دولة الكويت . حان الآن وقت صلاة المغرب حسب التوقيت المحلى لمدينة كويت ونواحيها ” جیسے جملے تو باقاعدہ یاد ہو گئے تھے ۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تا آنکہ ہماری بہن نے اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ وہ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتیں ہم حال چال پوچھنے سے بھی پہلے بیگ کی تلاشی لے کر عربی گیتوں کے کیسٹ تلاش کرتے جو بحمداللہ ان سے کبھی قضا نہ ہوئے تھے۔

اس زمانے میں اردو زبان کی سر ہمیں نہایت دقیانوسی ، عجیب و غریب اور معلوم نہیں کیا کیا محسوس ہوتی ۔
سمجھ میں البتہ یہ بہتری آ گئی تھی کہ جو نیا گیت سنا جاتا اس کے چند الفاظ سے ہم خود اندازہ لگاتے باقی خلاصہ کلام بہن سے سننے کے بعد اپنے ذہن میں مفہوم کا ایک ربط خود ہی پیدا کر لیتے اور سر اور الفاظ کا یکساں لطف لیتے ۔

کیا زمانہ تھا !!! گھر میں زیادہ وقت عربی نشید گونجتےاور ہم اس پر سر دھننےکے ساتھ ساتھ نقالی کی ناکام کوشش کیا کرتے۔
دو کیسٹ اس زمانے میں بہت سنے۔ ایک میں
” مولانا مولانا یا مولانا
یا مجیب دعانا یا مولانا”
اور
” الہجرة رحلة هادينا
حمل الاسلام لنا دينا”

جیسے آسان نغمے تھے

اور دوسرے میں ” خوبصورت شاعرانہ استعاروں سے سجے آزادئ فلسطین کے نغمات
(جن میں زیادہ تر فصیح اور چند ایک عامی میں تھے ۔ )
“لعيون القدس نغنى “

“الارض لنا ، والقدس لنا ، والله بقوته معنا “

” بارودتى والروح والاشواق حرى
يا قدس جئت بها اليك اليوم مهرا”

جیسے خوبصورت گیت تھے

اسی اثنا میں ہمارے چچازاد بھائی نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگوئجز میں عربی زبان کے کسی مختصر دورانیے کے کورس میں داخلہ لے لیا ۔ ایک کیسٹ جو ان کے توسط سے ملا ، اس نے بھی عربی محاورہ سمجھنے میں بہت مدد کی۔ اس کی نظمیں ہمارے اباجی کو بہت پسند تھیں۔
” الانبیاء کلهم نحبهم نجلهم”

ان عربی نغموں کا ہی اثر تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ دینے کے بعد پاس ہونے پر عربی زبان سیکھنے کیلیے ہمیں درجہ “ادنی” کی بجائے” متوسط “میں بھیج دیا گیا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں