ایک صفحہ پرعربی زبان میں لکھے کچھ الفاظ اور دیگرسٹیشنری

تعلیق بر قصہ تعلیمِ عربی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تیمیہ صبیحہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک محترمہ جن کی خوبی قسمت نے انہیں ہمارا ہم جماعت بنا ڈالا، جب سنِ بزرگی کو پہنچیں تو بڑی بوڑھیوں کی فطرت کے عین مطابق حافظے کے کونے کھدرے سے کھرچ کھرچ کے اپنی حیاتِ مبارک کے گفتہ و ناگفتہ پہلو کھول کھول کے دنیا کے سامنے بیان کرنے لگیں ـ

سوچتی ہوں گی کہ میرے برابر کی سب بڈھیاں مرضِ نسیاں کا شکار ہو چکی ہوں گی یا کشاکشِ روزگار میں الجھی ہوں گی کہ جو بھی واقعات بیان کر دیے جائیں، وہ تاریخ میں امر ہو جائیں گے اور کوئی ان کی ذات والا صفات کو ابرو چڑھا کے دیکھنے والا نہ ہوگا کہ
“ایں بی بی! یہ کیا بکے جا رہی ہو ” ـ
یوں یہ تنہا ملکہ شہرزاد بنی شاہان فیس بک کو اپنے طبع زاد قصوں میں الجھا کے جامعہ اسلامیہ عالمیہ میں اکیسویں صدی کی اک جدید الف لیلہ تشکیل دیں گی ـ

مگر یا قسمت یا نصیب! اِدھر بھی بعضے جز رس بیٹھے ہیں جو دنیا بھر کے شجروں کی تحقیق اور جا و بے جا اپنی رشتے داریاں کھڑی کر لینے میں ان کے مرتبے کو نہیں پہنچے تاہم ایسا بھی سٹھیائے نہیں ہیں کہ تشکیلِ داستان جدید کا سہرا تنہا انہی کے سر بندھتا دیکھیں اور خاموش رہیں ـ لہذا چند تاریخی واقعات کا اضافہ ضروری سمجھا جاتا ہے اور ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

1- ان کے ہمراہ عربی انٹرمیڈیٹ کے جس سیکشن میں ہم سب میڈم ایمان کے پلے پڑے تھے اس کا پہلا دن ہمارے لیے بے حد گراں بار تھا ـ عربی کا کل خزانہ تلاوت قرآن کی حد تک تھا ـ “ما اسمک ” والا مرحلہ تو طے ہو گیا مگر اس کے بعد ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے کبھی میڈم کے ملیح چہرے کو تکتے کبھی دائیں بائیں اِن ایسی بڑھ چڑھ کے “انا فی المستوی المتوسط ” اور ” أحب أن أدرس اللغة العربیة “” و لماذا ” “لأن هذه لغة القرآن ” “و لغة أهل الجنة ” قسم کے چہکارے مارتی لڑکیوں کو تک رہے تھے ـ

میڈم “لماذا ندرس الغة العربية ؟” کا سوال لیے ہمارے قریب آ رہی تھیں ـ ذہن پر بہتیرا زور ڈالا ـ ششم سے ہشتم تک پڑھی ہوئی لازمی عربی کی سب کلاسیں ذہن میں لائیں ـ مسز عثمان، عراقی نژاد مس شاذیہ، سر فیضی کی مبارک صورتوں کو جی ہی جی میں سلام نیاز پیش کیا مگر کہیں “لماذا ” کا جلوہ نہ دکھائی دیا ـ دائیں بائیں والیوں کو ٹہوکے دیے مگر نفسی نفسی کا عالم تھا ـ ہماری ممدوحہ سمیت اکثر لڑکیوں نے تعجب سے دیکھا تو ضرور اور یہ جانا کہ مکر کر رہی ہیں اپنے لب نہ وا کیے ـ

اس قسم کی کلاس میں کیا نتیجہ ہونا تھا ـ یہی کہ اک روز ایف سیون میں جس مکان کے پچھواڑے کمرے میں ہماری کلاس ہوتی تھی، ادھر بڑے بڑے درختوں کا سایہ تھا ـ اک روز جو دیکھا تو میڈم کے سکارف پر چیونٹا چڑھا ہوا تھا ـ جو رینگتا رینگتا سر پر جا پہنچا تھاـ اب چپ رہنا انسانی جان کی حرمت کے خلاف تھا لہذا تمام تر صلاحیت بروئے کار لا کے پہلے دہائی دی، یا استاذہ! استاذہ! پھر چیخ و پکار میں اضافہ ہوا مگر چیونٹے کی عربی نہ سمجھ آئی ـ

بعض دانش مند لڑکیوں نے سر پر ہاتھ مارنے شروع کر دئیے ـ میڈم پریشان کہ یکایک سب پہ جنوں کا دورہ کیوں پڑ گیا ـ اب کے ہم نے ذرا ہمت کر کے آواز نکالی، ” حیوان حیوان،” اور سر پر ہاتھ مارا ـ “حیوان صغیر ” … میڈم نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور حیوان صغیر کا سن کے جو ان کا خون خشک ہو گیا تھا، وہ ہنسی کے پھوارے میں تبدیل ہو گیا ـ یہاں پھر محترمہ ممدوحہ کا بیان درست ہے کہ وہ روز ہے ہمیں نمل اور نملة اس وقت بھی اصل معنی میں یاد آتا ہے جب سامنے نمل NUML کا گریجویٹ یا استاد کھڑا ہو یا اپنی عزیزہ نمرہ کا “نمل ” ورق پھڑپھڑاتا ہو ـ

2- استاذ اکرم غراب کا تذکرہ انہوں نے کیا مگر ان کا میز بجا بجا کے کلام اقبال سنانا ” الصین لنا والعُرب لنا، الہند لنا .. ” جو ہمیں کسی اور ہی جہاں میں لے جاتا ـ جہاں ہم نے جانا کہ آلات کے بغیر موسیقی کیا ہوتی ہے ـ آواز کا زیر وبم استاذ غراب کے ہاتھ کی تھپکی اور مرتعش میز .. اور کیسی دل سوز لے میں “مسلمون مسلمون نحن مسلمون ” سنایا کرتے تھے ـ

اب کوئی لاکھ ہمیں کہے یہ “امت ” تو ایک میتھالوجی ہے ـ رنگ نسل زبان دھرتی ہی نیشنلزم کی اصل ہے ـ ہمارے کانوں میں وہ عمرو بن العاص کی دھرتی سے آئی آوازیں گونجتی ہیں ـ ” رَمضَان رَمضَان یا موسم القرآن ” .. اور اور ..اسلام کے کتنے پہلو ہیں مسلمانیت کے کتنے رنگ ہیں ـ نغمہ و غنا، ساز و امنگ ـ کلفرڈ گیرٹز اور شہاب احمد نے کہاں بتائے، عربی کی ان کلاسوں نے سمجھائے ـ

3- استاد محمد عطیہ ہمارے پسندیدہ استاد تھے ـ انہوں نے تعبیر کی کلاس میں اپنی پسندیدہ شخصیت پر مضمون لکھنے کو دیا ـ ان دنوں ہم نے مصریوں کی محبت میں تازہ تازہ” حسن البنا شہید کی ڈائری ” پڑھی تھی ـ سو ٹوٹا پھوٹا اردو نما عربی میں ایک ڈیڑھ صفحہ لکھ ڈالا. جو کافی نامکمل تھا ـ دل ڈرا ہوا تھا ـ

ممدوحہ عزیزہ بھی ناولوں کے زیر اثر تھیں ـ یہ نسیم حجازی کے محمد بن قاسم سے متاثر ہو کے “نجم السحر ” کے عنوان سے ایک شہ پارہ گھڑ لائیں ـ باقی تو اب یاد نہیں مگر میری پہلی سطر سنتے ہی استاد زور سے اچھلے اور پوچھا تم حسن البنا کو کیسے جانتی ہو؟ اور جواب میں ہمیں فی البدیہہ جو وضاحت دینا پڑی اس کی وہی کیفیت تھی جو محترمہ کا نثر پارہ سن کے استاد عطیہ کے سوال کے جواب میں ان کی تھی ـ نجم السحر کون تھا اور محمد بن قاسم کون تھا ـ تشبیہہ استعارہ کو ان سے اچھا کون جانتا تھا مگر ہمارا تخت ستم بن کے تعبیر کا یہ حال ہوا ـ

انہی سر عطیہ نے جب بتایا کہ ان کی اماں انہیں واپس بلا رہی ہیں اور شاید گرمی کی چھٹیوں کے بعد وہ نہ آئیں تو مارے عقیدت کے ہم نے فیصلہ کیا کہ یادگار تحفتاً پیش کی جائے ـ ممدوحہ اور ہم چونکہ ان دنوں بلائے بے اماں کی طرح اک دوجے کے سر سوار رہتے تھے، لہذا اکٹھے پہلے رانا مارکیٹ کا گشت کیا ـ وہاں سے ونڈو شاپنگ کر کے اسلام آباد کی مہنگائی اور دکانوں میں مناسب سامان کی کمیابی پر سیر حاصل تبصرے کیے ـ پھر فیصل مسجد کتاب خانے کا رخ کیا ـ

ادھر کتابوں کے انبار پھرولتے ایک خطاطی کا جڑاؤ فریم جچ گیا ـ مبلغ ایک سو چالیس روپے دے کے ہم واپس آئے ـ پھر تعبیر میں ملے ہوم ورک میں اپنی اماں کو خط لکھا جس میں استاد کے لیے “ھدیة ضخمة ” خریدنے کا خاص ذکر کیا مع قیمت کے ـ جس دن دینا تھا، سر کو کچھ دیر ہو گئی ـ اور جماعت کا وہی حال جو ان مواقع پر ازل سے ہوتا آیا ہے ـ کچھ میز پر چڑھی بجا رہی تھیں ـ کچھ کھڑکی میں لٹکی گا رہی تھیں ـ کچھ دروازے سے باہر جھانک رہی تھیں ـ

ادھر ہم نے بورڈ پر بڑا بڑا تحریر کیا ” إنتظرنا لأستاذ بشدة ، يا الله! ما جرمنا ” جونہی پلٹے ہبڑ دبڑ کھٹاک کھٹاک لڑکیاں چھلانگ پھلانگ کے کرسیوں پر لینڈ ہو رہی تھیں ـ اس افرا تفری میں بورڈ مٹانا رہ گیا اور دوسرا ہمارا خط بھی کرسی تلے گر گیا ـ سر نے داخل ہوتے ہی بورڈ دیکھا پھر پلٹ کے پوچھا یہ کس کی کارروائی ہے ـ ممدوحہ پہلو میں بیٹھی تھیں اور بجائے ساتھ دینے کے ہنس ہنس کےہماری جانب معنی خیز اشارے کر رہی تھیں ـ

ہمارا دم خشک تھا ـ ادھر استاد مسکرائے اور “جرمنا ” پر دائرہ لگا کے پوچھا تم کیا کہنا چاہتی تھیں؟ لو جی ـ یہی تو کہنا تھا سو لکھ دیا ـ مگر ممدوحہ سمجھ گئیں کہ ہم نے اردو میں عربی لکھنے کا کارنامہ کیا ہے ـ وضاحت پیش کی تو استاد نے مسکراتے ہوے مٹا کے لکھا ” یا الله! ما ذنبنا ” .. یہ تو ہوئی تعبیر کی مشق ـ

دوسری ایک ناگفتنی محترمہ نے چھپائی کہ جب سر کے ہوم ورک طلب کرنے پر پوری کلاس نے کرسیوں کے نیچے جھانک اور ہاتھ پھیر کے ہمارا خط برآمد کیا، اور ہم نے بصد احترام سر کو پیش کیا تو کیا ہوا .. تحفہ خریدنے، اس کی رقم درج کرنے اور کچھ لڑکیوں کے پیسے نہ دینے کا جو استغاثہ اماں جان کے نام درج کیا تھا، اس نے سر کی باچھیں کہاں تک چیر دیں ـ

( اور اب ان کی صحبتِ نیک کے اثر سے ہم بھی لکھتے تھک گیے، ویسے بھی تعلیق اصل سے بڑھ جائے تو خود ایک نادر پارے کا مرتبہ پا لیتی ہے ـ اپنی عزیز از جان کے قصے سے ہم یہ زیادتی نہیں کرنا چاہتے ـ ان کی تنہا داستان بھی اس سمے ہمیں سر آنکھوں پر گوارا ہے ) ـ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں