عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دوست اس غم میں پتلے ہونے کی کوشش کررہے ہیں کہ ترک صدر طیب ایردوان کو کیسے پتہ چلا کہ سعودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو ملائیشیا میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا۔
یاد رہے کہ ترک صدر طیب ایردوان نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شریک نہ ہونے پر مجبور کیا اور دھمکی دی کہ عمران خان نے ایسا کیا تو وہ پاکستانی سٹیٹ بنک میں رکھے سعودی ریال واپس اٹھالے گا اور چالیس لاکھ پاکستانیوں کو بھی سعودی عرب سے نکال دیں گے۔
دوستوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے طیب ایردوان کو یہ خبر دی ہوگی اور ترک صدر نے اسے لوگوں کے سامنے منکشف کردیا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انھیں جو کچھ کہا، ان کے پاکستان کی طرف پرواز کرنے سے پہلے یہ خبر سعودی عرب میں ترک جاسوسوں نے استنبول پہنچا دی تھی۔
یہ بات کہنے کی نہیں کہ جب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں آئی ہے، انھوں نے امریکی ایما پر ترکی سے مخاصمت کا ایک افسوس ناک باب کھولا۔ اس مخاصمت کی داستان بڑی افسوسناک ہے جسے کسی روز الگ سے بیان کروں گا۔
جب ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو جاسوسی نظام کو تیز کردیا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بھی ایسا ہی ہوا۔ اسی نظام نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سازشوں کو ترک حکمرانوں کے سامنے متعدد بار کھول کر رکھ دیا۔ اس سب کچھ کے باوجود ہمارے دوستوں کا یہ سوال بڑا ہی معصومانہ ہے کہ ترک صدر کو اس ساری بات کا کیسے پتہ چلا اور یہ کہ انھوں نے پاک سعودی تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔
دوستوں کا خیال ہے کہ ترک صدر کے انکشاف کے سبب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین برادرانہ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ اس "برادرانہ تعلقات ” کی اصطلاح پر لوٹ پوٹ ہونے کو جی چاہتا ہے۔بالخصوص جب تحریک انصاف والے بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے چالیس لاکھ پاکستانیوں کو بے روزگار ہونے سے بچالیا۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستان کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ کیا بھائی ایسی دھمکیاں دیتے ہیں بھلا؟
محمد بن سلمان کی مذکورہ بالا دھمکیوں کے بعد کون سے برادرانہ تعلقات؟ انھیں "غلامانہ تعلقات” کہہ لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ محمد بن سلمان سے پہلے پاکستان سعودی عرب تعلقات غلامانہ ہرگز نہ تھے، ان میں پھر بھی رکھ رکھائو تھا۔ اب تو سیدھی سادی بلیک میلنگ ہورہی ہے۔
طیب ایردوان نے یہ انکشاف کرکے سعودی عرب پر بہت کچھ واضح کردیا ہے کہ محمد بن سلمان کی حرکتوں کی انھیں پل پل کی خبر ہے۔ قارئین کو بخوبی یاد ہوگا کہ محمد بن سلمان نے ایک معروف عرب صحافی جمال خشوجی کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کروا کے اس کا الزام ترکی پر عائد کرنے کا منصوبہ بنایاتھا لیکن یہ منصوبہ بری طرح ناکام رہا ۔
ترک حکومت نے تمام تر ثبوتوں، آڈیو اور ویڈیو ٹیپس کے ذریعے پوری دنیا کو بتادیا کہ قاتل محمد بن سلمان خود ہیں۔ اس کے بعد سعودی ولی عہد ترک صدر طیب ایردوان کے خلاف سخت جنون میں مبتلا ہیں۔ یہ جنون انھیں بہت سی حماقتوں پر مجبور کردیتا ہے۔ پاکستان کو ملائیشیا ، ترکی، ایران اور قطر کے مشترکہ منصوبے سے دور کرنے کی حرکت بھی اسی جنون کا نتیجہ ہے۔
ترک صدر طیب ایردوان پاکستان سے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ انھیں پاکستان کی مجبوریوں کا بھی احساس ہے۔ پاکستان کو جلد یا بدیر پیٹرو ڈالر کے بجائے سونے کی بنیاد پر تجارت کے منصوبے کا حصہ ضرور بننا ہوگا۔ یہ ایک بڑے مشترکہ منصوبے کا ایک جزو ہے۔ عمران خان کی وجہ سے اس منصوبے میں پاکستان کی شمولیت میں دیر ہوسکتی ہے تاہم پاکستان کی بقا اور خوشحالی پیٹروڈالر اکانومی سے الگ ہونے ہی میں ہے۔ آل سعود کسی وجہ سے امریکی غلامی پر مجبور ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دنیا میں ہر کسی کو اس غلامی میں شریک رہنے پر مجبور کریں۔