فروری کے آخری عشرے کی ایک دوپہر ، بزرگ سیاست دان راجہ ظفرالحق سے رابطہ کی کوشش کی، راجہ صاحب نے فون اٹھایا، میں نے ملاقات کی خواہش ظاہرکی، انھوں نے کمال محبت سے اگلے روز آنے کی اجازت مرحمت فرمائی، یہ پہلی ملاقات تھی، سوچا کہ حکمران جماعت کے چئیرمین تک پہنچنے کے لئے پروٹوکولکے کتنے ہی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
اسلام آباد کے ایک نہایت پرسکون علاقے میں واقع ان کے دفتر پہنچا، ان کے سیکرٹری نے چٹ اندر بھیجی اور فوراً مجھے طلب کرلیاگیا۔ اب قریباً پون صدی تک طالب علمی سے وکالت اور سیاست تک ایک بھرپور زندگی گزارنے والے راجہ ظفرالحق میرے سامنے تھے۔ انھوں نے فوجی اور عوامی ،ہر دوقسم کی حکومتوں میں فعال کردار ادا کیا، اقتدار میں بھی رہے اور اپوزیشن میں بھی ۔ پاکستانی ریاست اور سیاست کے بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ میرے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست تھی تاہم وقت صرف ایک گھنٹہ ۔ بہت سے سوالات نہ پوچھے جاسکے، جو پوچھے گئے ان کا تفصیل اور جامعیت سے جواب ملا۔
اسلام اور پاکستان سے محبت میں راسخ العقیدہ بزرگ سیاست دان سے پانامہ کیس کے حوالے سے جان بوجھ کر سوال نہیں کیا کیونکہ جب یہ گفتگو ہورہی تھی، سپریم کورٹ فیصلہ محفوظ کرچکی تھی تاہم میں نے راجہ صاحب سے یہ ضرور پوچھا کہ کیا پانامہ کیس کے دوران عائد ہونے والے الزامات اور کھڑے ہونے والے سوالات نے بحیثیت مجموعی مسلم لیگ ن کی شبیہ پر برے اثرات مرتب نہیں کئے؟
راجہ ظفرالحق نے کہا:’’ اس کا انحصار کیس کے فیصلے پر ہے ۔ اگر یہ طے ہوتا ہے کہ پٹیشنر اپنا کیس ثابت نہیں کر سکے، وہ کوئی مستند ڈاکومنٹ یا کوئی ایسی شہادت نہیں دے سکے جو الزام لگانے والے کو دینی چاہیے تو پھر اس کا نقصان انہی کو ہو گا۔ پھر مسلم لیگ بالخصوص جو لوگ میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں بے پناہ فائدہ ہوگا۔بڑی کامیابی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ انہوں نے بہت کچھ کیا، 126 دن کا دھرنا دیا، پھر جلسوں میں بڑی گندی زبان اختیار کی، بڑے سخت الفاظ استعمال کیے جو اخلاق کے دائرے سے باہر تھے۔ یہ سارا کچھ کرنے کے بعد انہوں نے آخری حملہ یہ (پانامہ کیس) کیا ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں کی خواہش یہ بھی تھی کہ اس کیس کو اتنی طوالت دی جائے کہ یہ الیکشن تک چلا جائے، یہ الیکشن کمپین کا حصہ سمجھا جائے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو نقصان انہی کو ہوگا‘‘۔
اگلے عام انتخابات میں کتنی بڑی کامیابی کی توقع ہے ؟
’’ 2013 کے حالات کچھ اور تھے۔ اس وقت ہماری حکومت نہ تھی اور پرفارمنس کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ 2013 میں الیکشن ہوا، مرکز، صوبہ پنجاب اور کم از کم نصف حد تک بلوچستان میں، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کو سیٹیں ملیں۔ وہ میاں صاحب کی سابقہ شہرت اور شخصیت کی وجہ سے تھی۔ لیکن جونہی یہ الیکشن ختم ہوا، اس کے بعد میاں صاحب نے اپنا آئندہ کا ایجنڈا دیاکہ آئندہ پانچ برسوں میں ان کی ترجیحات کیا ہوں گی۔
اُس وقت امن و امان کی صورت حال بگڑی ہوئی تھی، توانائی کا شدید بحران تھا۔ پھر اداروںکی اصلاح کرنا تھی۔پھر وزیراعظم صاحب نے دیگر ملکوں کے علاوہ خاص طور پرچین کے تین چار دورے کیے، وہاں کی قیادت نے میاں صاحبکے انداز سیاست، سرمایہ کاری، معیشت کے حوالے سے ان کے تجربات دیکھے تو انہوں نے پاکستان میں 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی،کوئی آدمی اتنی بڑی سرمایہ کاری کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے مخالفین کو حیران اور ششدر کر دیا۔ جب یہ بات سامنے آئی تو دھرنے کا زمانہ تھا۔ چین کے صدر نے یہاں آ کر اس کا اعلان کرنا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
چینی صدر نہیں آ رہا اور نہ ہی کوئی سی پیک بن رہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ اور سفارت خانہ نے کہا کہ نہیں، آپ غلط کہتے ہیں۔ چینی صدر کادورہ مختص تھا۔ یہ تو آپ کے اس دھرنے کی وجہ سے ملتوی ہوا ہے۔ پھر یہ چپ ہو گئے۔ ان کے پاس اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں تھی کہ یہ کہہ سکیں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اور میں معذرت چاہتا ہوں‘‘۔
’’پھر جب سی پیک بننا شروع ہوا، اس پرچاروں صوبوں کی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی، جیسے کہ میاں صاحب کا طریقہ کار ہے، اس پر بھی انہوں نے طرح طرح کے شوشے چھوٹنے شروع کر دیے۔ بیانات میں اس قدر منفیت آ گئی کہ ہم سوچنے لگے کہ اس کا کیا جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک میں ہمارے لیے تو کچھ رکھا ہی نہیں ہے۔ احسن اقبال جتنی بھی وضاحتیں کرتے رہے، اس پر انہوں نے کان نہیں دھرے۔ آخر کار ان کو ساتھ لے کر چین گئے چینی قیادت کے پاس، انہوں نے وہ بنک بلائے جو یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہ ادارے بلائے جو یہاں کام کر رہے ہیں، سرمایہ کار بلائے۔ یہ سارا کچھ ان کے سامنے کیا، اِن کی ضروریات بھی معلوم کیں۔
پھر انہوں نے سندھ کے لیے اور خیبرپختونوا کے لیے مزید بہت کچھ دیا ۔اس پر واپس آ کر کہنے لگے کہ اب ہمیں تسلی ہو گئی ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کے لیے جو ملک ہمدردی سے کوشش کر رہا تھا، اسے یہاں کی قیادت پر اعتماد تھا، اس لیے کر رہا تھا۔ یہ اسے بھی خراب اور ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے سوالات کھڑے کئے کہ مغربی روٹ ہو گا یا مشرقی؟ انہوں نے کہا کہ پہلے مغربی ہی ہو گا، ترجیح اسی کو دیں گے۔ اس پر کام بھی شروع ہو گیا۔ یہ جو چین سے قافلہ آیا تھا وہ اسی راستے سے گوادر تک گیا‘‘۔
’’ یہ سارا کچھ ہونے کے باوجود ان کی کوششیں جاری رہیں کہ کسی طریقے سے اس کو مشکوک بنایا جائے۔ اگر ان کی ساری باتیں غلط نکلیں تو ان کی کیا کریڈیبیلٹی رہ جائے گی، البتہ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی بالخصوص میاں نواز شریف پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔ کچھ ملک کہہ رہے تھے کہ پاکستان تنہا ہوگیا، پھر اندرون ملک سے بھی آوازیں آنے لگیں پاکستان کا کوئی دوست ہی باقی نہیں بچا، تاہم اب کتنے ہی زیادہ ممالک یہاں آکر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی سی پیک میں شامل کیا جائے۔ایسے ممالک جن کے بارے میں آدمی سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔
عام آدمی کا خیال تھا کہ وسطی ایشیا کی چھ ریاستیں ہی ہوں گی اور کوئی نہیں۔ لیکن دو طرفہ تجارت کا سلسلہ ایسا بڑھا کہ یورپ کے ممالک نے بھی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں بھی اس میں شریک ہونا چاہیے، اس کے بعد یہاں کھلے انداز سے ڈویلپمنٹ کے لیے پیسے دیے گئے، اکانومک انڈیکیٹرز ایسے ہیں جو پہلے منفی تھی، پھر برابر ہونے کے بعد اب ان کی تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ سارا معاملہ بہت اچھا ہو گیا ہے، کچھ وقت مزیدگزرا، کوئی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہوئی تو پاکستان دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت بن جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اخلاقی طور پر کہتا کہ ہم غلط سمجھے تھے، ہمیں کچھ مغالطہ تھا، آپ جو کچھ کر رہے ہیں، ہم آپ کا پورا ساتھ دینے کو تیار ہیں‘‘۔
اگلے انتخابات میں کامیابی ملی تو آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی؟
’’توانائی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا، اسے حل کرنے کے لیے ساری تدابیر اختیار کی گئیں، سولر سسٹم بھی لایا گیا، ڈیم بھی شروع کیے گئے، سارے معاملات اچھے انداز سے چل رہے ہیں کہ 2018 ء میں بہت تھوڑی لوڈ شیڈنگ رہ جائے گی،کارخانوں کے لیے بھی بجلی وافر ہو گی اور گھریلواستعمال کے لیے بھی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو معیشت کا پہیہ ذرا تیزی سے چلنا شروع ہو جائے گا۔ ’’ذرا تیزی سے‘‘ کے الفاظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ ابھی وہ کیفیت نہیں آئی۔ بہرحال اس سے بے روزگاری ختم ہو گی، لوگوں کو سہولتیں ملیں گی۔ اگر تجارت بہتر ہو جاتی ہے، دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھتا ہے تو پھر نوجوانوں کو باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں یہاں پر ہی روزگار ملنا شروع ہو جائے گا انشاء اللہ۔ اگلے انتخابات کے بعد ہم اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے، اور د یکھیں گے کہ اس سے مزید کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘‘۔
مسلم لیگوں کا اتحاد ہوسکے گا؟
’’تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد ان لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں، پرویز مشرف نے بھی ایک مسلم لیگ بنانے کی کوشش کی تھی، جو پرانی مسلم لیگیں تھیں ان کے بھی کئی ٹکڑے ہوئے۔ ان میں کوئی اپنا مستقبل غیر محفوظ سمجھتے ہوئے کسی دوسری جماعت میں چلا گیا، اب ان کے خیال میں کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اکٹھے ہوں تو شاید ہمارا کوئی وجود بن جائے لیکن اس طرح تو وجود نہیں بنتا‘‘۔
مشرف کو گنجائش ملی نہ ملے گی
’’میاں نوازشریف کا سعودی عرب جانے کی بابت کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، مشرف کا یہ خیال تھا کہ جب تک نواز شریف یہاں رہیں گے، وہ جم نہیں سکیں گے کیونکہ میاں نواز شریف کی اہلیہ محترمہ بڑی جرأت اور دلیری سے جلوس نکال رہی تھیں، وہ اس سے بھی بہت تنگ تھے۔ باقی پارٹی بھی کوشش کر رہی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بھی بن گیا جس کے سربراہ مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان تھے، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی اتحاد میں شامل تھیں۔
اس سب کچھ کی وجہ سیمشرف کی مقبولیت جو ابتدا میں ہو سکتی تھی، وہ بھی نہ ہوئی، پرفارمنس نہیں تھی، کشمیر کے مسئلے کو انھوں نے نقصان پہنچایا، مذہبی طبقات ان کے خلاف ہو گئے، وہ مکمل طور پر عدم استحکام کی طرف جا رہے تھے، مشرف نے یہی علاج سوچا کہ اگر انہیں(شریف فیملی کو) باہر روانہ کر دیا جائے تو شاید اس سے کوئی فائدہ ہوجائے لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ لندن میں کانفرنسیں ہوئیں، اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی شریک ہوئیں اور باقی پارٹیاں بھی۔ ان سب نے میاں نواز شریف سے کہا کہ راجہ ظفرالحق کو مسلم لیگ کا سربراہ بنا دیا جائے۔ ہم اپنے طور پر پورے ملک میں کوشش کرتے رہے۔ چاروں صوبوں میں، جلسے بھی کیے اور میٹنگز بھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کو کوئی گنجائش ہی نہیں ملی اور نہ ہی آئندہ گنجائش ملنے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے‘‘۔
مشرف نے کہا کہ راجہ ظفرالحق قابو آجائے تو…
’’پرویز مشرف نے مجھ سے بھی رابطہ کیا تھا۔ میں نے اپنی جماعت کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلا کر بتایا کہ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ کچھ نے کہا کہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بات کرنے میں کیا حرج ہوسکتاہے بھلا، پتہ چلنا چاہئے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جب مجھ سے بات کی، ہماری ملاقات ہوئی، اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوئیں، تو میں نے انھیں کہا کہ آپ نے بڑی زیادتی کی ہے، آپ نے ہمارا تختہ الٹا،کہنے لگے کہ انہوں نے مجھے کیوں ہٹایا تھا۔ میں نے کہا کہ مقرر بھی انہوں نے ہی کیا تھا، وہ بات آپ کو یاد نہیں رہی اور نکالنے والی بات آپ کو یاد آ گئی۔ پھر انھوں نے کچھ ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ میں ان کی توقع پر پورا نہیں اترا تھا۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ ناراض ہو گئے۔ وہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ آدمی قابو آ جائے تو بہت سی مشکلات آسان ہو جائیں گی‘‘۔
مشرف کے خلاف قانونی کارروائی میں حکومت سرگرم کیوں نہیں؟
’’پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑا ہوا ہے کیوں کہ اگر ہماری حکومت گرم جوشی کا مظاہرہ کرے تو سمجھا جائے گا کہ یہ انتقامی کارروائی پر اتری ہوئی ہے، انصاف اس کے پیش نظر نہیں ہے، چونکہ مشرف نے ان کی حکومت توڑی تھی اس لیے یہ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جب آپ مدعی بن کرآرٹیکل 6 کا مقدمہ داخل کر دیتے ہیں تو اس کے بعد عدالتی کارروائی ہی رہ جاتی ہے۔ پھر مشرف نے بہانے شروع کر دیے، عدالت کی طرف آتے آتے ’اے ایف آئی سی ‘ کی طرف رخ کر لیا، وہاں کافی دن لیٹے رہے۔ کوئی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کمر میں سخت تکلیف ہے۔ ڈاکٹرز سرٹیفکیٹ بھی دے دیتے ہیں۔ پھر وہاں جا کر یہ ڈانس کرتے ہیں۔
’’راجہ صاحب! کہیں فوج کی طرف سے کوئی درخواست تو نہیں کی گئی کہ ہاتھ ہلکا رکھیں؟‘‘
’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘
بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل تھا؟
’’ جب عدالت کسی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے اور وہ کسی کو منظور نہیں ہوتا تو وہ اسکے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرتاہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ پہلے جو 4/5 کا فیصلہ تھا، وہ پھر اتفاق رائے کا ہوگیا۔ انہوں نے ان کی اپیل مسترد کر دی تھی، پھر ان کو کچھ کرنا چاہیے تھا۔ آج تک انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی، وہ معاملہ بھی آج تک پڑا ہوا ہے۔ پانچ سال تک انہوں نے حکومت کی ہے، اس دوران انہوں نے کچھ نہیں کیا‘‘۔
فوجی حکومت کا وزیراطلاعات، تجربہ کیسا رہا؟
’’ اُس وقت اتنے زیادہ ٹی وی چینلز بھی نہیں ہوتے تھے۔ اُس وقت محض یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ یہ خبر نہیں چھپنی چاہیے، وہ نہیں چھاپتے تھے۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ چلتا رہتا تھا۔ ایک بار خدشہ پیدا ہوگیا کہ کوئی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے کچھ حصے نہ چھاپ دے گا۔ چنانچہ سب کو منع کر دیا گیا لیکن نوائے وقت نے چھاپ دیے۔ پھر ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور غلام اسحاق خان بھی تھے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا کرنا چاہیے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ نتیجتاً کچھ نہیں کیا گیا‘‘۔
جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کیسی رہی؟
’’ مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ جنھیںجنرل ضیاء صاحب نے عزت دی، جنھیں پریشانیوں سے نکالا ، ان میں سے بعض لوگ جنرل صاحب کی شہادت کے بعد انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔ اکثریت نہیں، بعض لوگ ایسے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ اخلاقی طور پر اچھا رویہ ہے۔ اگر آپ کسی کے ساتھ شامل رہے ہیں تو آپ کو اس کی تمام اچھائیوں اور برائیوں کی ذمہ داری لینا پڑتی ہے۔ جنرل ضیا الحق جب سے فوج میں بھرتی ہوئے،انھیں کمیشن ملا، ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت بھی تہجد پڑھتے تھے، رات کو اٹھ کر قرآن مجید پڑھتے تھے۔
یہ کوئی بعد کی بناوٹ نہیں تھی۔ وہ حقیقی طور پر مسلمان تھے۔ اسلام کے نفاذ کے لیے ان کی خواہش بڑی حقیقی تھی اور صحیح تھی۔ نفاذ اسلام کے لیے پاکستان بننے کے بعد آج تک جو کچھ کیا گیا، انہی کے دور میں پیش رفت ہوئی۔ اگر وہ کہتے تھے کہ نظام صلوٰۃ ہونا چاہیے تو کئی لوگ کہتے کہ ہم مارشل لاء کی نماز نہیں پڑھنا چاہتے۔ بھئی! اگر نہیں پڑھنی تو مارشل لاء کا نام کیوں لیتے ہو۔
اسی طرح جنرل ضیا الحق نے فحاشی ختم کرنے کے لیے حقیقی کوشش کی۔ پوری اسلامی دنیا میں انہیں ایک رہنما کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ 1980 میں جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہو رہا تھا، سب ممالک نے ان سے درخواست کی کہ ساری اسلامی دنیا کی طرف سے آپ ہی اقوام متحدہ سے خطاب کریں۔ حالاں کہ اس وقت اسلامی ممالک میں زبردست قسم کی لیڈر شپ موجود تھی، ہرقسم کے لوگ تھے۔ ان میں سے آج کوئی بھی نہیں رہا۔ چنانچہ انہوں نے خطاب کیا، انہوں نے تمام مسائل، جو مسلم ممالک کو داخلی طور پر درپیش تھے یا انھیں عالمی قوتوں کے ہاتھوں پریشانیاں تھیں، سن کچھ انہوں نے کھلے اندازمیں بیان کیا‘‘۔
’’ایک اور عجیب بات ہوئی کہ انہوں نے کہا، میں اپنی تقریر سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کرواتا ہوں۔ یہاں بھی میں تقریر کروں گا تو پہلے قرآن مجید کی تلاوت ہو گی اور پھر میں اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ انہوں نے بڑا احترام کمایا۔ پھر جب ان کی شہادت ہوئی تو ان کے جنازے میں کتنے زیادہ لوگ شریک ہوئے سوائے عراق کے صدر صدام حسین کے، انھوں نے تعزیت بھی نہیں کی۔
کیوں کہ انہوں نے کہا کہ تھا کہ جنرل ضیا الحق نے کہاتھا کہ ہم عراق ایران جنگ میں مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ہمیں کسی کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ایک ملک کے ساتھ ہو جائیں۔ حالاں کہ پوری دنیا کی طرف سے ان پر دبائو تھا کہ آپ ایران کے خلاف عراق کا ساتھ دیں۔ انہوں نے بہت مختصر سا اجلاس بلایا، جس میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس پر ہم بعد میں شرمندہ ہوں۔ ہم نے کوئی کردار ادا کرنا ہے تو مصالحت کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے ایک امن کمیٹی بنائی۔ وہ خود بھی وہاں گئے۔ ایران بھی گئے اور دیگر ممالک میں بھی گئے ورنہ معاملات بڑی حد تک خراب بھی ہو چکے تھے‘‘۔
جنرل ضیاء نے اسلام کا نام اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال کیا؟
’’یہ ایک ایسی بات ہے، جس کی کوئی لاجک نہیں ہے۔ خود اسلام کے بارے میں جو مخالفین، جن کو یہ دین پسند نہیں، اس کی ترویج پسند نہیں، اس کا اقتدار پسند نہیں، اس کی شان و شوکت پسند نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اقتدار ابتدائی 29، 30 سال ٹھیک رہا، اس کے بعد اسے کیا ہوگیا؟ جنرل ضیا الحق نے سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی قانون کتاب و سنت کے خلاف نہیں بنے گا۔ اگر کوئی ایسا قانون ہے تو اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں تھا ماسوا اسلامی نظریاتی کونسل کے۔
اس کا طریقہ کار بھی ایسا تھا کہ کسی معاملے کو قانون بننے تک ساڑھے سات سال لگ جاتے تھے ۔ وہ( پچھلی حکومت ) جو طریقہ کار آئین کے اندر لکھ گئے تھے، شاید وہ سمجھتے نہیں تھا کہ اسے زیادہ ترویج دینی چاہیے۔ انہوں نے طریقہ کار ایسا بنایا تھا کہ پانچ سال تک وہ پیش ہو گا، دو سال تک اس پر بحث ہو گی، چھ مہینے اس پر قانون سازی ہو گی۔ اس طرح ساڑھے سات سال بن جاتے تھے۔ تاہم جنرل ضیاء الحق نے اس کے متوازی ایک اور ادارہ قائم کیا، وفاقی شرعی عدالت۔ اس کے لیے بھی انہوں نے پہلے ہر ہائی کورٹ میں ایک شریعت بنچ قائم کیا۔ بعد میں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ چاروں صوبوں کی الگ الگ ہائی کورٹس الگ فیصلے دیں، اس وقت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نہیں تھی۔
کسی نے کہا کہ اس کے لیے سپریم کورٹ میں ایک شریعہ بنچ قائم کیا جائے، انہوں نے وہ بنا دیا۔ پھر چاروں صوبوں میں الگ الگ شرعی عدالتیں بنانے کے بجائے ایک ہی عدالت، وفاقی شرعی عدالت یہاں بنا دی۔اس کے ججز علماء سے بھی لیے، اور باقی پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس میں مقرر کیا گیا۔
جیوڈیشری سے بھی اور جو مذہبی سکالرز ہیں، ان میں سے بھی۔ وہاں پر ایک ایسا نظام قائم کیا گیا کہ کوئی آدمی بھی بغیر ٹکٹ چسپاں کیے ایک سفید کاغذ پر درخواست لکھ کر دے کہ فلاں قانون قرآن اور حدیث کے خلاف ہے تو وہ اس کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور فیصلہ دے سکتے ہیں حتیٰ کہ وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ یہ قانون جسے چیلنج کیا گیا ہے، فلاں تاریخ کے بعد نہیں رہے گا۔ یہ نظام کسی اور جگہ نہیں ہے۔ وہاں وکیل بھی پیش ہوتے تھے اور سکالر اور مذہبی سکالر بھی‘‘۔
’’اس کے بعد انہوں نے نظام زکوٰۃ رائج کیا جو اسلام کا ایک خاصہ ہے، سب سے غریب طبقہ کی کفالت معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’جن کو ہم اقتدار د یتے ہیں، ان کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کریں‘۔ جنرل ضیا الحق نے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جو پہلے نہیں تھا۔ اس پر بھی اعتراض ہوا کہ یہ زبردستی زکوٰۃ کاٹ لیتے ہیں، کسی کی مرضی نہ ہو تو بنکوں سے کاٹ لیتے ہیں۔کہاگیاکہ لوگ بنکوں سے رقمیں نکال لیں گے تو کیا ہو گا۔ آپ یقین کریں کہ ہر سال بنکوں میں زکوٰۃ کی رقم کاٹی جاتی ہے تو وہ پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔
الحمدللہ پاکستان کے لوگ مسلمان ہیں اور اسلام پر عمل کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ زکوٰۃ زبردستی کوئی کیوں کاٹ لیتے ہیں ، زبردستی کوئی عبادت ہوتی ہی نہیں ہے، اس کا اجر ہی نہیں ملتا۔ جب میں قاہرہ (مصر) میں سفیر تھا تو یہاں سے ایک وفد گیا کہ ہم جامعۃ الازہر کے شیوخ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس وقت شیخ الازہر جادالحق تھے۔
میں وفد کو لے گیا، انہیں ملایا، انہوں نے اپنے بڑے، پرانے سکالرز کو بلا لیا کہ یہ پتہ نہیں کیا پوچھیں، شاید میں اکیلا جواب نہ دے سکوں۔ انہوں نے پہلا سوال یہی کیا کہ یہ زکوٰۃ زبردستی کیوں لے جاتی ہے؟ یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ شیخ الازہر نے پوچھا کہ اگر آپ بجلی کا بل نہ ادا کریں تو زبردستی لے لیا جاتا ہے نا؟ لینڈ ریونیو نہیں دیتے تو آپ کی جائیداد قرق ہو جاتی ہے نا؟ اگر دنیاوی نظام میں ایسا ہو سکتا ہے تو خالق کائنات کی طرف سے مقرر کردہ اڑھائی فی صد زکوٰۃ کیوں نہیں لی جاسکتی، وہ بھی اموالِ ظاہرہ پر، بنک اکائونٹ بھی اموالِ ظاہرہ میں شامل ہے، وہ آپ کے گھروں میں آ کر نہیں کہتے کہ یہ زیور آپ نے چھپایا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ صرف ایک شق، اس پر بھی اعتراض! وہ لوگ واپس آئے، پھر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا‘‘۔
کیا واقعی روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتاتھا؟
’’جب روس میں زار روس کی حکمرانی تھی، بادشاہت تھی، اس وقت سے ان کا کہنا تھاکہ ہم گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم Land locked ہیں۔ ہمارے پاس بندرگاہیں نہیں ہیں کہ ہم دنیا کے ساتھ رابطہ کر سکیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے۔ یہ کوئی چند سال پہلے کی بات نہیں ہے۔ ان کے سمندر آٹھ مہینے جمے رہتے ہیں۔1993ء میں ، میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں شرکت کے لیے ویانا گیا ہوا تھا، میرے ساتھ بیگم نصرت بھٹو بھی تھیں۔ اس وقت بھی میں سینیٹر تھا۔ وہاں سے مجھے بلوایا گیا اور ایک خصوصی ایلچی کی حیثیت سے وسطی ایشیا کی چھ ریاستوں میں بھیجا گیا تھا، میں ان کے وزرائے خارجہ سے ملا۔ دو، تین دن تک ہر ملک میں رہا، ان کے وزیراعظم سے بھی ملا اور صدور سے بھی۔ ان میں سے ہر ایک نے کھڑے ہو کر نقشے کی مدد سے بتایا کہ ہمارا سب کچھ ماسکو کی طرف جاتا ہے، ریلوے لائنیں بھی، ہوائی راستہ بھی۔ ہمارا باقی دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے، میاں نواز شریف جو موٹر وے بنا رہے ہیں۔
اس کی صورت میں ہمیں ایک نئی نوید ملی ہے۔ میں1993ء کی بات کر رہا ہوں۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ اگرہمیں یہ راستہ مل جائے تو ہم دنیا میں اپنا سامان بھیج سکتے ہیں اور وہاں سے منگوا سکتے ہیں۔ یہ تو ہمارے لیے بہت بڑا راستہ کھل جائے گا۔ اب روس کا رویہ صرف اسی وجہ سے بدلا ہوا ہے، اب روسی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی سی پیک میں شامل کریں۔ یہ نہر سویز سے 10 گنا بڑا موقع پاکستان کو ملا ہے۔ اسی وجہ سے انڈیا کہتا ہے کہ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے، انھیں اندازہ ہے کہ اس سارے سلسلے کا والیوم کیا ہے۔ یہ خطے کے لیے کتنی بڑی تبدیلی ہو گی جس کا مرکز پاکستان ہو گا۔ دشمن کو یہ بات برداشت نہیں، افسوس کہ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔
پیپلزپارٹی نے سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دی تھیں؟
’’دیکھیں جی! کسی نے یہ دیکھا تو نہیں کہ ان کا وزیر داخلہ فہرستیں دے رہا ہے نہ ہی اس طرح دی جاتی ہیں۔ لیکن جب انڈیا کا رویہ پاکستان سے متعلق ذرا سخت ہوا، بے نظیر صاحبہ کا دور تھا، بھارت نے کہا کہ جب آپ کا ملک ٹوٹنے لگا تھا تو ہم نے آپ کی مدد کی تھی۔ آپ ہمارے اس احسان کو یاد نہیں کرتے اور آپ نے ہمارے خلاف یہ کام شروع کردیے۔ تو جن کو پتہ نہیں تھا، انہیں بھی پتہ چل گیا‘‘۔
ن لیگ دفعہ 62 اور63 ختم کرے گی؟
’’اگر کوئی فرد بھی عوامی عہدہ سنبھالنا چاہتا ہے تو اسے امین اور صادق ہونا چاہئے۔ یہ کسی انسان کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی صریح آیات کے تحت ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے بادشاہ نے بلایا اور کہا کہ میں نے آپ کو ناجائز جیل میں ڈالے رکھا ہے، آپ تو بڑی صلاحیت والے آدمی ہیں۔ آپ ملک کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟ تو آپؑ نے فرمایا: مجھے ملک کے خزانے پر مقرر کر دیں۔ میں دیانت دار ہوں اورمیں اس فن کو بھی جانتا ہوں۔ وہاں جو قحط پڑتے تھے، اس کا علاج بھی آپ نے کرکے دیا تھا۔ اس لحاظ سے جو صادق ہو نہ امین، اسے تو یہ دفعات 62 اور 63 اپنے لیے زہر قاتل لگتی ہیں۔ وہ کیوں انہیں برداشت کرے گا‘‘۔
’’دراصل پرویز مشرف کے زمانے میں باقاعدہ ایک مہم چلی تھی ، جس کے ذریعے پاکستان کو ڈی اسلامائز، ڈی نیوکلیرائر اور کشمیر کے مسئلے کو بالکل ختم کرنا تھا۔ اس میں اندرون ملک کے لوگوں کی خواہش کم اور بیرونی دنیا کی خواہش زیادہ تھی۔ آپ دیکھیں کہ پرویز مشرف نے جو کتاب لکھی ہے “In the line of fire” اس میں ایک پورا باب، بہت بڑا باب پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہے جس میں اسے ایکسپوز کیا گیا، عالمی سطح پر پاکستان کو ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں جگہوں سے یہ چیزیں لی ہیں اور یہ فلاں فلاں ملکوں کو دے رہے ہیں۔ پوری تفصیل سے جھوٹ کا ایک پلندہ بنا کر لکھا ہے۔
یہ بات وہ فرد کہہ رہاہے جو اپنے تئین ملک کا صدر بنا پھرتاتھا۔کہتے ہیں، باڑ اس لیے لگائی جاتی ہے کہ فصل کو محفوظ کرے لیکن اگر باڑ ہی فصل کو کھانا شروع کر دے تو پھر حفاظت کیسے ہوگی۔ مشرف نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی خود اجازت دی، وہ آگرہ جا رہے تھے تو فارن آفس نے کہا کہ ہم آپ کی بریفنگ کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نہیں مانتا۔ میں اس کا آئوٹ آف دی باکس حل نکالنا چاہتا ہوں۔ پھر وہاں بے عزتی کروا کے واپس آئے۔
اگلی سارک کانفرنس ہوئی تو انھوں نے اسٹیج پر جا کر واجپائی کو سیلوٹ کیا تھا۔ اس طرح تو ملک نہیں چلتے، اس طرح ملکوں کی عزت نہیں بنتی۔ ملک کے لیے نظریہ بھی بے حد ضروری ہے اور سیاسی استحکام بھی۔ جمہوریت بھی ضروری ہے۔ تنقید کرنے والے غور نہیں کرتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) 62 اور 63 دفعات دورکی بات ، آئین سے کوئی بھی اسلامی دفعہ نہیں نکالے گی۔ ہم حدود کے قوانین اور ناموس رسالتؐ والے قانون کو بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔
نوازشریف، جلاوطنی سے پہلے اور بعد
’’ایک آدمی اتنی مشکلات میں سے گزرا ہو، ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاگیا، ان کی حکومت ختم کی گئی، ان پر تشدد کیا گیا، ایک کوٹھڑی میں انھیں بند رکھا گیا، بچوں کو رکھا گیا، ان کے گھر میں فوج آ کر بیٹھ گئی، وہاں روز عورتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔ اس کے بعد انہیں یہاں سے ہتھکڑیاں لگا کر جہاز پر کراچی لے جایا جاتا تھا۔ قلعہ میں کس طرح بند کیا جاتا تھا، کیا کچھ اذیتیں دی گئیں، وہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی اچھے حالات میں رہتے تھے، مالی طور پر ان کی پوزیشن بڑی مستحکم تھی، ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔
ان چیزوں کا اثر تو ہوتا ہے نا! ریاستی معاملات میں ان کے رویے وہی ہیں جو اس سے پہلے تھے۔ وہ اس قوم کے انتہائی ہمدرد ہیں، وہ عام آدمی کی پریشانی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سافٹ سپوکن ہیں، کسی کی بے عزتی نہیں کرتے۔ وہ فوری طور فیصلہ نہیں کرتے، غور و فکر کرتے ہیں، مشورہ کرتے ہیں، انتہائی مخالف سے بھی مشورہ کرتے ہیں۔ سیاست دان کتنی ہی عجیب باتیں ان کے خلاف کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان سے مشورہ کرتے ہیں وہ دروازے پر جا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ گاڑی تک پہنچ کر انہیں الوداع کہتے ہیں، ان میں کوئی تکبر نہیں آیا۔ وہ اپنے معاملات میں پہلے سے بھی زیادہ احتیاط کرتے ہیں‘‘۔
داستانِ حیات
راجہ فضل داد خان کے فرزند ارجمند راجہ ظفرالحق کوئی بارہ برس کے تھے جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے ایک گائوں مٹور میں پیدا ہوئے، 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔سن 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پالی ٹیکل سائنس میں ماسٹر اور پنجاب لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔1958ء سے 1981ء تک وکالت کرتے رہے، 1987ء کے بعد سپریم کورٹ میں وکیل رہے۔گریجویشن کے فوراً بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے، تب سے اب تک یہی پارٹی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران میں کبھی پارٹی سے تعلق میں کمزوری نظر نہیں آئی۔1963ء سے1971ء تک مسلم لیگ ضلع راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری رہے۔
اس کے بعد ضلعی صدر منتخب ہوئے،1981ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ 1973ء میں انھیں مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن چنے گئے،1977-78ء تک راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے صدر جبکہ1981ء میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1981ء سے 1985ء تک وزیراطلاعات و نشریات رہے، اس دوران میں مذہبی امور کی وزارت بھی انہی کے پاس تھی۔1985ء سے 1986ء تک مصر میں سفیر رہے، 1986ء سے 1987ء تک وزیراعظم محمد خان جونیجو کے سیاسی مشیر رہے، یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔1990-91ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 45ویں سیشن میں پاکستانی کی نمائندگی کی،1991ء میں چھ برس کے لئے سینیٹر منتخب ہوئے،1997ء میں اگلی مدت کے لئے بھی سینیٹ کا انتخاب جیت گئے۔1991-94ء میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و مذہبی امور کے چئیرمین بنائے گئے۔
1992-97ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن رہے۔سن 1992ء سے وہ موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، یہ مسلمانوں کی سب سے پرانی عالمی تنظیم ہے جو 1926ء مکہ مکرمہ، سعودی عرب میں قائم ہوئی۔ آنے والے برسوں میں بھی اس عہدہ کے لئے بار بار منتخب ہوئے۔سن 1996ء میں مسلم لیگ کے مرکزی نائب صدر منتخب ہوئے، 1994-96ء کے عرصہ میں سینیٹ میں قائدحزب اختلاف بھی رہے جبکہ 1997-99تک قائدایوان۔ جولائی1997ء سے 1999ء تک وزیر مذہبی امور رہے۔ سن 2000ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ کے چئیرمین منتخب ہوئے۔