پارلر نے اس کے سراپےکو تو شاداب کردیا تھا لیکن روح میں اتری تھکان کا کوئی علاج اس کے پاس نہ تھا۔
پندرہ برس قبل جب وہ چوبیس برس کی گھریلو بیوی تھی، ایسے کسی پارلر اخراجات کا سوچ بھی نہ سکتی تھی.
اس کا میاں اچھا کماتا ،اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا. ہر ماہ وہ ہاتھ میں آئی رقم میں رشتوں کو بھی شریک کرتا، وہ دیکھ کر کلستی، لیکن اس شراکت داری سے میاں کو روک نہ سکتی ، پہلے دل میں پھپھولے ، پھر تعلق میں اختلافات آنےلگے تو اس نے نوکری کرلی۔
نام فلک ناز تھا لیکن وہ ایک واجبی ہی سی عورت تھی، نہ حسین نہ متین لیکن مستقل مزاجی بہترین تھی.
نۓ لوگوں سے ملتے اکثر ایک جملہ اس کی زبان پر آجاتا” بہت اچھا کماتا ہے میرا میاں لیکن دوسروں پر خرچ کرکے مجھے اور میرے بچوں کو کس دیتا ہے”
وہ کماتی بھی اور دکھ گاتی بھی ۔
پھر اس کو کچھ اور بہتر نوکری مل گئی۔
کچھ گردن تنی ۔کچھ شکوہ بڑھا ۔
میاں کی عطا گیری سے اسے گھر میں صحرا سا بنتا لگتا. وہ سوچتی اگر یہ خرچ صرف اس پر اور اس کے بچوں پر ہوتو زندگی میں بادل بنیں، شجر اگیں اور پتے جھومیں.
بالآخر وہ ہو ہی گیا جو وہ مدت سے چاہتی تھی ، اس عورت کو نہال ہوجانا چاہۓ تھا، میاں نے کما کر فقط بیوی بچوں ہی پر لگانا شروع کردیا، لیکن وہ تین ماہ بعد ہی پھٹ پڑی
” تم کچھ کرتے کیوں نہیں، صرف تقدیر رنگ نہیں بھرتی زندگی میں، تدبیر کے بھی خاکے بنانے ہوتے ہیں”
اس بات کو کہتے اسے دانائی کا وہم ہوا اور میاں نظر میں نیازمند بنتا لگا.. آخر کو اب وہ میاں سے زیادہ کمانے لگی تھی، مگر وہم، وہم ہی ہوتا ہے، حقیقت نہیں، وہ تلخی سے ہنسا "اسم سیادت ملا تھا مجھے ، رزق وافر تھا، لیکن جب تم نے ذمہ داریوں کو آہیں بنا لیا تو وہ اسم واپس لے لیا گیا، اب جو کماتا ہوں وہ ہی تمہارا نصیب”
عورت کے چہرہ پر یہ سن کر جالے سے بن گۓ کہ اڑنے والے پنچھی کے پنکھ قدرت نےسمیٹ ڈالے … شکووں نے دریا کو جھیل بنا ڈالا.
اب برسوں گزرگۓ ہیں، وہ بہت کچھ پا چکی ہے، لیکن بادل اب بھی نہیں بنتے، شجر اب بھی نہیں اگتے، شگوفے نہیں کھلتے، پتے بھی نہیں جھومتے، بس ایک ہی موسم رہتا ہے. دھوپ کا، مشقت کا، کمانے کی جدوجہد کا.
ایک تبصرہ برائے “پنکھ… نصرت یوسف کی نئی اردوکہانی”
زبردست!!!
دوسروں کا جو رزق آپ کے ہاتھ میں دیا گیا ، جب ہاتھ تنگ ہوا تو وہ بھی واپس لے لیا گیا۔