محمدعثمان جامعی۔۔۔۔۔۔
”ہم ایک ملک چاہتے ہیں“
یہ نعرہ ان دنوں عراق کے گلی کوچوں میں گونج رہا ہے۔ غربت میں گلے تک ڈوبے عراقی عوام کا یہ مطالبہ کتنا بلیغ ہے، انھوں نے چند الفاظ میں وہ سب کچھ مانگ لیا جو طویل منشوروں اور کئی صفحات پر مشتمل چارٹرآف ڈیمانڈز میں بھی سمانا مشکل ہے۔
وہ اپنی سرزمین پر سیاہی پھیلاتی اندھیرنگری کا خاتمہ کرکے اسے ایک ملک ایک ریاست کی صورت دینا چاہتے ہیں۔ اس آرزو کے راستے پر وہ ہر روز نکلتے ہیں، تشدد سہتے ہیں، مصائب جھیلتے ہیں، جانیں دیتے ہیں، لیکن کوئی یوٹرن نہیں لیتے، ان کی ایڑھی نہیں گھومتی۔
ایک ایسے وقت جب عراق کی فضا عاشورے سے اربعین تک بین وماتم سے گونج رہی تھی، اسی ارض کربلا پر ایک اور کربلا برپا تھی، جس کی کہانی عراقی اپنے خون سے لکھ رہے ہیں، اور سرکاری اہل کار اور ”غیرریاستی مسلح تنظیمیں“ دھوئیں اور بارود سے۔
ریاستی بدانتظامی، بدعنوانی اور معاشی زبوں حالی کے خلاف یہ لہر گذشتہ سال جولائی میں اٹھی تھی، جو اب طوفان بن چکی ہے۔ اس سال کا اکتوبر عراق کی حالیہ تاریخ کا خونیں ترین مہینہ تھا۔ اس ماہ احتجاج اور مظاہرے کرنے والے 250سے زیادہ عراقی شہری بے رحمی سے ہلاک کردیے گئے اور 5 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ تاحال ہلاکتوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کرگئی ہے۔
ماضی قریب میں عراق کے باسی کبھی داعش کے ہاتھوں اور کبھی دہشت گردی کے واقعات میں جانیں گنواتے رہے ہیں، لیکن اس وقت ان کی زندگیاں چھیننے کا ”فریضہ“ حکومت ادا کر رہی ہے، جو شہریوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے غیرضروری طاقت کا بے محابانہ استعمال کر رہی ہے۔ نہتے شہریوں کو اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ وہ ایک غیرفعال سیاسی نظام اور بدعنوان سیاسی طبقے کے خلاف اپنے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
جن لمحات میں یہ سطور لکھی جارہی ہیں احتجاج لگ بھگ پورے عراق کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دارالحکومت بغداد میں رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ کربلا میں ایک اور کربلا برپا ہوئی ہے۔ جنوبی عراق میں واقع اس مقدس شہر نقاب پوش ہتھیاربندوں کی فائرنگ سے 18مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ جن مظاہرین پر ہلہ بولا گیا وہ پُرامن تھے اور شہر کے ایک چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ عینی شاہدین اور تصویریں اس سانحے کی پوری کہانی سنا رہی ہیں، لیکن حکام ”کچھ نہیں ہوا“ کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں۔
دھرنے میں شریک ایک شخص کا کہنا ہے”ہم نے دیکھا ایک نقاب پوش اور سیاہ لباس میں ملبوس شخص نے چوک کی طرف فائرنگ کی۔ میرے آس پاس لوگ گرگر کر مر رہے تھے اور زخمی ہورہے تھے۔“ ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے اس وقت سیکڑوں کی تعداد میں لوگ دھرنا دیے بیٹھے تھے جب ایک گزرتی ہوئی کار سے ان پر فائرنگ کی گئی۔ اُس کے بعد نقاب پوش مسلح آئے اور انھوں نے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔
اس احتجاج کا دوردور تک پھیل جانا حیرت انگیز امر نہیں۔2011 میں جب پوری عرب دنیا میں عوام اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور تیونس، مصر اور شام کی زمینیں عوامی غیض وغضب سے جل اٹھی تھیں، اس وقت بھی عراقی عوام تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ملک میں بڑے پیمانے پڑے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، لیکن حکومت نے بہ زور اس احتجاجی تحریک کو درہم برہم کردیا تھا۔
حالیہ برسوں کے دوران بڑے پیمانے پر جاری مالی بدعنوانی، بے روزگاری اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی ناکامی پر احتجاج وفتاًفوقتاً ہوتا رہا ہے۔ خاص طور پر موسم گرما میں جب بجلی کا بحران اور صاف پانی کی قلت زور پکڑ جاتے ہیں تو حالات پر دل گرفتہ اور مشتعل عوام کی برہمی بڑھ جاتی ہے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غصے سے بھرے اور جوش سے ابلتے عراقی بغداد اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر اپنے مطالبات کے حق میں نعرہ زن ہوجاتے ہیں۔
احتجاج کی ان لہروں کو آخرکار اقتدار کی قوت سے دبا دیا جاتا ہے یا یہ کسی سیاسی طاقت کے ہاتھوں یرغمال ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اصلاحات کے وعدے ہوتے ہیں، مگر یہ وعدے سراب ہی ثابت ہوتے ہیں کبھی ٹھوس شکل اختیار نہیں کرپاتے لیکن حالیہ احتجاج حکومت کے تشدد کے باوجود موسمی ثابت نہیں ہوا، اسے کوئی سیاسی کھلاڑی اپنے مقاصد کے لیے کام میں لاسکا ہے۔
یہ احتجاج گزشتہ برسوں کے دوران اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں سے کئی طرح مختلف ہے۔ پچھلے احتجاجوں کے برعکس یہ آتشیں لہر اچانک نمودار ہوئی۔ لوک کسی فردواحد یا جماعت کی آواز پر نہیں نکلے، نہ ہی اس کی شروعات کسی جماعت، گروہ یا سرگرم راہ نمائوں کے مُنظّم کردہ احتجاج کے طور پر ہوئی۔ اس کا سبب حکومت کا کوئی معاشی اقدام بھی نہیں بنا۔ یہ احتجاج ایک تنزلی کے ردعمل میں شروع ہوا۔
یہ تنزلی تھی لیفٹیننٹ جنرل عبدالوہاب الساعدی کی۔ عراق کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کمانڈر عبدالوہاب اساعدی دو سال قبل عراق کے اہم شہر موصل کو داعش کی گرفت سے آزاد کرانے کے باعث عوام میں بے حد مقبول ہیں اور انھیں اپنے ملک میں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ ان کی شخصیت ملک میں جاری فرقہ وارانہ آویزش سے ماورا تصور کی جاتی ہے اور انھیں حُب الوطنی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ رواں سال ستمبر میں جنرل ساعدی کو ان کے عہدے سے ہٹاکر وزارت دفاع میں بھیج دیا گیا۔ اس اقدام کو، جس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، جنرل ساعدی اپنی توہین اور اپنی عسکری تاریخ کی توہین قرار دے چکے ہیں۔
عوامی ہیرو کی یہ تنزلی زیادہ تر عراقیوں کی نظر میں بدعنوان نظام و مقتدرہ کی محض ایک سیاہ کارستانی ہے، جو اثرونفوذ بڑھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ ذاتی اور طبقاتی مفادات کے لیے کیے جانے والے ایسے اقدامات کو وطن سے وفاداری سمیت کسی قدر سے سروکار نہیں ہوتا۔ جنرل ساعدی سے ہونے والے سلوک نے ملک کے نظام اور مستقبل سے عراقیوں کی مایوسی دوچند کردی اور اب وہ ”ہمیں ایک ملک چاہیے“ کا نعرہ لگا کر دراصل اپنے آرزووں کے عراق کی تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں، چناں چہ یہ اس تحریک کا مرکزی نعرہ بن چکا ہے۔
احتجاج کرنے والے عراقیوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، جنھوں نے امریکا کے عراق پر 2003 میں قابض ہونے کے دور میں ہوش سنبھالا اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ امریکی حملے اور تسلط نے صدام حسین کے مخالفین کو اس کے اقتدار سے تو نجات دلا دی لیکن ساتھ ہی عراقی ریاست اور اس کے اداروں کو بھی تہس نہس کردیا۔
امریکیوں نے اپنی نگرانی میں ایک خامیوں سے پُر آئین بنواکر عراقیوں کے حوالے اور فرقہ وارانہ بنیاد رکھنے والا نظام ملک پر مسلط کردیا۔ یہ نظام ایسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا مجموعہ تھا جن میں سے زیادہ تر امریکا، ایران اور سعودی عرب کے پیادے اور آلہ کار نہیں تو کم ازکم ان ملکوں کے اتحادی ضرور تھے۔
اس نام نہاد سیاسی عمل کو امریکی اسباق طوطے کی طرح رٹنے والے مغرب کے تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے جمہوریت کا نام دیا، جو امریکی ”نجات دہندہ“ کی طرف سے عراقی عوام کے لیے تحفہ تھی۔ ان سب عوامل نے مل کر ایک ناکام ریاست کو جنم دیا ہے جو عراقی شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کی کم سے کم شرائط بھی پوری نہیں کر پارہی۔
عراق تیل کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن تیل کی برآمد سے ہونے والی آمدنی بدعنوانی کے پیٹ کا دوزخ بھر رہی ہے۔ یہ آمدنی صرف مختصر سی بدعنوان سیاسی قیادت کی ہوس زر کی تلافی کر رہی ہے، جب کہ لاکھوں افلاس زدہ عراقیوں کو بھوک کی بلا کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن انڈیکس کے مطابق دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں عراق بارھویں نمبر پر ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس فہرست میں عراق کا نام سب سے اوپر تھا، تاہم مغربی ممالک کے کچھ صحافیوں کی جانب سے حقائق سامنے آنے کے بعد حالیہ برسوں کے دوران مالی معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ 2003 سے تاحال عوامی فنڈز سے 450 بلین امریکی ڈالر مالیت کی رقم اُڑائی جاچکی ہے۔
یہ ہیں وہ حالات اور نظام جس میں احتجاج کرنے والے یہ نوجوان زندگی کے نام پر مشکلات جھیل رہے ہیں۔ ان کے لیے زندگی اتنی مشکل کردی گئی ہے کہ وہ اسے لُٹادینے کو بھی گھاٹے کا سودا نہیں سمجھ رہے۔
اس احتجاجی لہر کی ایک اور ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل افراد کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہ لاوا غریب محنت کش طبقے کی بستیوں اور کچی آبادیوں یا جھوپڑپٹیوں میں پھوٹا ہے، جہاں ریاست کی ناکامی اور روزمرہ زندگی کی ابتری کا نظارہ دور سے کیا جاسکتا ہے۔
ان بستیوں کے مکینوں کی دُکھ بھری کہانیاں عراق سے متعلق عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور تجزیوں میں شاذ ہی جگہ پاتی ہیں، جن میں بس یہ بتایا جاتا ہے کہ داعش کی شکست کے بعد عراق میں زندگی رواں دواں ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔
تعلیم سے محروم افلاس زدہ طبقہ اور مزدور قیادت کے لیے امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں یا متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے کی طرف دیکھتے ہیں، لیکن عراق میں معاملہ اُلٹ ہوگیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اس تحریک کا حصہ بن گئے ہیں۔ صورت حال دیکھتے ہوئے متعدد جامعات اور اسکولوں کی انتظامیہ نے نصابی اور غیرنصابی سرگرمیاں معطل کرتے ہوئے اپنے اداروں کے دروازوں پر تالے ڈال دیے ہیں۔
حکم راں طبقے کو اس احتجاج کے دوران ابتدا میں صرف پسے ہوئے طبقے کا سامنا تھا، لیکن عراق کے نہایت موثر شیعہ مذہبی راہ نما مقتدیٰ الصدر نے احتجاج کی حمایت کرکے مظاہرین کی قوت اور حکومت کی مشکلات بڑھادی ہیں۔ عراق میں ایرانی اثرونفوذ کے مخالف سمجھے جانے والے مقتدیٰ الصدر نے نجف میں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے میں شرکت کرکے اپنی حمایت ان کے پلڑے میں ڈال دی۔
واضح رہے کہ مقتدیٰ الصدر ایک اہم مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ پارلمینٹ میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والے بلاک سائرون کے سربراہ بھی ہیں، جن کی حمایت اور تعاون سے حکومت تشکیل پائی ہے۔ انھوں نے وزیراعظم سے جلدازجلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا ہے۔
احتجاجی تحریک کی حمایت اور مظاہرین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف پارلیمنٹ کے چار اراکین مستعفی ہوگئے ہیں، جن میں دو مقننہ کے صرف دو کمیونسٹ رکن بھی شامل ہیں۔
اگرچہ عراقی فورسز ماضی میں بھی احتجاج کرنے والے کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتی رہی ہیں، لیکن اس مرتبہ تشدد اپنی سطح اور متاثرین کی تعداد کے اعتبار سے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ مظاہرین پر نہ صرف اصلی گولیاں چلائی جارہی ہیں اور آنسو گیس کے شیل ان کے سروں پر مارے جارہے ہیں بلکہ عمارتوں کی چھتوں پر بیٹھے اسنائپرز (چھپ کر گولی چلانے والے مشاق نشانہ باز) بھی احتجاج کرنے والوں کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔
عراقی حکام حکومت کی جان ودل سے مدد کرنے والے ان اسنائپرز کی شناخت اور ان کے تعلق کے بارے میں پوری ڈھٹائی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان اسنائپرز کا تعلق ایران کی پشت پناہی سے سرگرم عسکری تنظیموں سے ہے، جن کے یونٹس داعش سے مقابلے کے لیے عراق میں لائے گئے تھے اور جو اب عراق میں عسکری کے ساتھ سیاسی طاقت حاصل کرچکی ہیں۔
خبررساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندے سے دو عراقی حکام نے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مظاہروں اور دھرنوں کو ختم کرانے کے لیے ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے اسنائپرز کو استعمال کیا جارہا ہے۔ رائٹرز کے مطابق عراقی سیکیوریٹی فورسز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی کی اتحادی ملیشیائوں کے سربراہوں نے ازخود یہ فیصلہ کہ انھیں مظاہروں کو کچلنے میں حکومت کی مدد کریں گے۔
یہ ایک کُھلی حقیقت ہے کہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کو ایران کے حمایت یافتہ عسکری اور سیاسی گروہوں کی بھرپور اعانت حاصل ہے۔ اس حوالے سے خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ ایک عسکری تنظیم حشید (Hashid) کا نام لیا جارہا ہے۔ عراقی عوام کے غصے کا سامنا حکومت کے ساتھ ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ رواں احتجاجی تحریک کے دوران بغداد کے جنوب میں 200 میل کے فاصلے پر واقع صوبہ میسان میں عسکری تنظیم ”عصائب اھل الحق“ کے صدر دفتر پر مشتعل مظاہرین نے حملہ کردیا تھا،
اس واقعے میں فائرنگ کے نتیجے میں 14مظاہرین ہلاک ہوگئے تھے۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں، جن میں مقتدیٰ الصدر کے حامی بھی شامل تھے، نے عصائب اھل الحق کے ایک مقامی راہ نما پر حملہ کرکے اسے اس کے بھائی کی جان لے لی تھی۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عراق میں احتجاجی تحریک شروع ہونے کے دوسرے ہی دن ایران کے پاسداران انقلاب کے سنیئر کمانڈروں کے ایک گروپ نے عراق کی خفیہ ایجنسی اور فوج کے حکام سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد سے پاسداران انقلاب کے اعلیٰ حکام مسلسل عراقی حکومت سے رابطے میں ہیں اور مشورے دے رہے ہیں۔
عراق میں ایران کے اثرورسوخ اور اس کی پشت پناہی سے سرگرم عسکری تنظیموں کے کردار نے عراقی عوام کو اپنے ہم سائے ملک سے کتنا متنفر کردیا ہے اس کا اندازہ کربلا کے واقعے سے لگایا جاسکتا ہے ، جہاں مظاہرین نے ایرانی قونصل خانے پر حملہ کرکے وہاں نہ صرف عراق کا پرچم لہرا دیا بلکہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کا پوسٹر بھی پھاڑ ڈالا۔
اس پس منظر میں ایران اور عراق میں اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کا پسے اور کچلے ہوئے عراقیوں کے احتجاج اور ان کے بڑھتے قدموں سے خائف ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
عراق میں ان دنوں تمام ذرائع ابلاغ پابندیوں کی زد میں ہیں۔ احتجاج شروع ہونے کے دوسرے دن ہی حکومت نے انٹرنیٹ بند کردیا تھا، جس کا مقصد دنیا کو عراق کے غریبوں کے احتجاج اور ان پر ٹوٹتی قیامت سے بے خبر رکھنا تھا۔ سرکاری اہل کاروں نے متعدد ٹی وی چینلوں پر حملہ کیا اور ان کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی۔
احتجاج کے جواز اور وجوہات کو ملیامیٹ کرنے کے لیے سرکاری پروپیگنڈا زورشور سے جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مظاہرین بیرونی قوتوں کے اُکسانے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
عراقی عوام کو احتجاج کرنے والوں کے خلاف اُکسانے کے لیے الزام لگایا جارہا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ بعث پارٹی (صدام حسین کی جماعت) کی سازش ہے، اس طرح بعث پارٹی اقتدار میں واپس آنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے مظاہرین کو مذاکرات کے لیے کی جانے والی پیشکش غیرموثر ثابت ہوئی ہے، کیوں کہ اس احتجاج کی قیادت کوئی کر ہی نہی رہا تو پیشکش کا جواب کون دے گا اور مذاکرات کون کرے گا!
حکومت کی جانب سے اصلاحات اور رعایتیں (سبسڈیز) دینے کا اعلان بھی کوئی رنگ نہ لاسکا، کیوں کہ عراق کا بدعنوان سیاسی نظام اب اصلاح اور مرمت کے قابل نہیں رہا ہے۔ عراقیوں کی نظر میں یہ نظام اپنی قانونی حیثیت مکمل طور پر کھوچکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورت حال میں بہتری صرف اس وقت آسکتی ہے جب موجودہ حکومت اقتدار سے دست بردار ہوجائے اور نگراں حکومت قائم کرکے بین الاقوامی نگرانی میں آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، جن کے ذریعے منتخب ہونے والے عوام کے حقیقی نمائندے ایک غیرفرقہ وارانہ آئین تیار اور منظور کریں۔
ان سطور کی اشاعت تک پتا نہیں عراق میں واقعات کیا کروٹ لیں گے، لیکن ان آگ اور خون میں ڈوبے ان واقعات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ ریاست کے وسائل کی تقسیم کی فہرست میں حاشیے پر جگہ پانے والا طبقہ، جس کی محنت، طاقت، حُب الوطنی، ووٹسب کچھ مفادپرست، بدعنوان اور خودغرض اقلیت کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنارہتا ہے، اگر بیدار ہونے اور اپنے حق پر آئے ہو تو اسے کسی قیادت، شخصیت اور جماعت کی ضرورت نہیں پڑتی، پھر ڈانوڈال ہوتی ریاستیں اور حکومتیں اسے دبانے اور جھکانے کے لیے لاکھ جتن کرلیں جو ہاتھ جاگ اٹھیں وہ دست سوال بنتے ہیں نہ جُڑ کر معافی کے خواستگار۔