محمودفیاض۔۔۔۔۔۔
عاطف کمپیوٹر انجینئر تھا۔ ایک وفا شعار بیوی اور دو بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہا تھا۔ہفتے میں پانچ دن کام، ویک اینڈ پر فیملی کے ساتھ آؤٹنگ، ڈنر۔ دوسرے تیسرے ہفتے دوستوں کے ساتھ رات بھر گپیں اور کبھی کبھار شغل میلے میں سگریٹ بھی پی لیتا تھا۔
اس کے علاوہ اس کی زندگی میں اور کوئی خواہش نہیں تھی۔ بچے بڑے ہوجائیں، پڑھ لکھ جائیں، وہ ریٹائر ہو کر پہاڑ پر اپنا گھر بنا لے۔ مذہب سے اس کا واسطہ جمعے کی نماز تک کا تھا۔ سلام پھیرتے ہی مسجد سے باہر بھاگنے والوں میں اس کا پہلا نمبر ہوتا تھا۔
پھر ایک حادثہ ہو گیا۔
اس کی کمپنی میں ایک قتالہ آگئی، نام جس کا حریم خٹک تھا۔بات ڈنر، اور پھر آگے تک جانے لگی۔زندگی میں پہلی بار وہ جمعے کی نماز کے بعد وہیں بیٹھا رہا۔
"مولوی سر! ایک بات پوچھنا تھی”، وہ جھجھک رہا تھا۔
"بولو بیٹا”، مولوی صاحب کے لہجے نے اسکی ہمت بندھائی۔
"میں شادی شدہ ہوں، مگر ایک اور لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ساری زندگی کسی غلط کام سے بچ کر گزاری ہے۔ اب بھی کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا۔ مگر اب مشکل یہ ہے کہ پہلی بیوی مجھے مار ڈالے گی، اگر اس کو پتہ چلا۔ آپ بتائیے میں کیا کروں؟” اس نے ایک سانس میں کہہ ڈالا۔
ہمممم، مولوی صاحب کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے، "دیکھو بیٹا! ہماری شریعت اس معاملے میں واضح ہے۔ مرد کو دوسری شادی کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم دونوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کرو”۔
شکریہ کہہ کر عاطف چلا آیا۔ مولوی صاحب نے اجازت دیدی تھی۔ بس انصاف کرنے کی شرط تھی۔ دونوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ اور پورا پورا انصاف۔
یہ کوئی اتنی مشکل بات نہیں ، عاطف نے دل میں دہرایا۔
مگر اس کی کمپیوٹر کی تعلیم آڑے آ گئی۔
جس میں اس نے منطق کی جدید تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ وہ کمپیوٹر سرکٹ ٹھیک کرتا تھا۔ جس میں ایک پرزہ ٹھیک نہ لگے تو وہ سرکٹ بیکار ہو جاتا تھا۔ جب سارے پرزے اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جاتے تو سرکٹ مکمل کرنے والی بتی جل جاتی تھی۔
عاطف جتنا سوچتا گیا اس کے لیے دونوں بیویوں میں انصاف کی بتی جلانا مشکل ہوتا گیا۔
اس کی تنخواہ دو لاکھ تھی۔ کیا ایک لاکھ دوسری بیوی کو دے سکے گا؟
پہلی بیوی نہیں پوچھے گی کہ باقی پیسے کہاں ہیں؟
ہفتے میں تین راتیں پہلی بیوی کو کیا بتا کر گھر سے باہر گزارے گا؟
اگلے روز وہ پھر مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔
"مولوی صاحب! یہ انصاف والی بات بہت مشکل ہے، میں کر نہیں سکوں گا”۔
"سبحان اللہ”، مولوی صاحب نے اس کی تعریف کی۔ "اسلام بھی تو یہی کہتا ہے میرے بچے! کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے ، یعنی یہ بشری تقاضا ہے کہ انسان سے خطا ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ بے فکر ہو کر دوسری شادی کر لیں۔ جتنا انصاف ہو سکتا ہے کرتے رہیں، اللہ خیر کرے گا”۔
اصولاً عاطف کو اس تسلی پر خوش ہونا چاہیے تھا، مگر وہ کنفیوز ہو گیا، اس نے مولوی صاحب سے پوچھ ہی لیا۔
"مولوی صاحب! بشری خطا تو ان معاملات میں ہے نا جو آپ کے بس میں نہ ہوں۔ اب یہ تو جان بوجھ کر جھوٹ بول کر دھوکا دینے والی بات ہے؟”
مولوی صاحب حیرانی سے اسے دیکھنے لگے کہ دوسری شادی والے اتنا کہاں سوچتے ہیں۔
"دیکھو برخوردار! میں نے آپ کے سامنے شریعت کا اصول کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔ آپ کو دوسری شادی کی مکمل اجازت شریعت دیتی ہے۔ اس کے لیے پہلی بیوی کو بتانا ہرگز ضروری نہیں۔ اور یہ بھی کہ دونوں میں انصاف کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، مگر آپ سے انصاف ہوگا نہیں۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے، میں کوئی زبردستی تو آپ کی دوسری شادی کروا نہیں رہا”۔
مولوی صاحب کا لہجہ آخر میں کچھ تلخ ہو گیا تھا۔
"جی مولوی سر”، عاطف پہلے سے ادب و احترام سے بولا:”میں تو بس ذہنی اطمینان چاہتا تھا۔ میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں، مگر ساری زندگی میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ مخلص رہوں۔ اپنے ماں باپ کی عزت کرتا ہوں۔ انہی کے مشورے سے پہلی شادی کی۔ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی اچھے طریقے سے رہنے کی کوشش کرتا ہوں، اس لیے امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی میری بشری کمزوریوں کے باوجود مجھے معافی دیں گے”۔
"بس سر، مجھے ایک بات کنفرم کر دیجیے۔ ۔ ۔” عاطف نے آخر میں مولوی صاحب سے انتہائی احترام سے درخواست کی۔ مولوی صاحب جاتے جاتے اس کی بات سننے رک گئے۔
"سر! میں نے سنا ہے کہ جھوٹ اسلام میں گناہ کبیرہ ہے؟ کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں؟”
"بالکل، بالکل آپ نے ٹھیک سنا ہے برخوردار، جھوٹ انتہائی لعنت ہے۔ اس لیے اسلام میں اسکو گناہ کبیرہ کہا گیا ہے۔ جیسے زنا اور قتل گناہ کبیرہ ہیں۔ آپ کی بات درست ہے”۔ مولوی صاحب نے عاطف کی تصدیق کی۔
"تو سر”، عاطف نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا،” شریعت کے مطابق دوسری شادی کرنے کے بعد مجھے مسلسل یہ گناہ کبیرہ کرنا پڑے گا؟”
"کک کیا مطلب؟ مولوی صاحب بالکل گڑبڑا گئے۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟ شریعت کے مطابق نکاح کرنے کے بعد کونسا گناہ کبیرہ محترم۔ اب وہ آپ کی زوجہ ہوں گی۔ آپ جیسے چاہو ان سے ازدواجی تعلق رکھو، یہ ہرگز گناہ کبیرہ نہیں ہوگا”۔
"نہیں مولوی سر، میرا مطلب زنا والے گناہ کبیرہ سے نہیں تھا، جھوٹ والے گناہ کبیرہ سے تھا۔ جس سے میں ساری زندگی بچتا چلا آیا ہوں۔ اب دوسری شادی کے بعد جب بھی میں پہلی بیوی کے پاس ہوں گا، وہ مجھ سے میرے آفس یا دیگر معمولات پوچھے گی۔ تو مجھے اس دوسری شادی کو چھپائے رکھنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولنا ہوگا”۔
"میری بیوی مجھ سے تنہائی کے لمحات میں اکثر پوچھتی ہے کہ تم صرف میرے لیے ہی ہو؟ ۔ ۔ مم ۔۔ مطلب آپ سمجھتے ہیں ناں، وہ رومینٹک باتیں ۔ ۔ وہ جب آپ کی بیوی بھی ۔ ۔ آپ سے ۔ ۔”عاطف بات کرتے کرتے گڑبڑا گیا ۔۔
"ہاں ہاں، ٹھیک ہے میں سمجھ گیا، تم آگے بولو ۔ ۔” مولوی صاحب نے بھی ناگواری کا اظہار کیا۔
"جج جی، وہی تو عرض کر رہا تھا، مجھے اپنی بیوی کے ساتھ تنہائی کے ان رومینٹک لمحات میں بھی خیال رکھنا ہوگا کہ میں جھوٹ ہی بولوں ، کہیں سچ میرے منہ سے نہ نکل جائے”۔
"تو مولوی سر، میرا سوال آپ سے صرف اتنا تھا کہ شریعت مجھے ایسے کام کی اجازت کیسے دینا چاہتی ہے جس میں میں گناہ کبیرہ کے جال میں پھنس جاؤں؟”
"دیکھو برخوردار، تم پہلے آدمی ہو جو دوسری شادی میں خود اپنی خواہش کا مخالف بن رہا ہے، مجھے حیرت ہے۔ خیر میں آخری بار وضاحت کر دیتا ہوں کہ نکاح معاشرے میں اعلانیہ رشتے داری کا نام ہے۔ جب آپ کے آفس کے کولیگ، آپ کے باقی گھر والے، اور آپ کے دیگر اعزاء کو اس کا علم ہوگا تو پھر شرعی تقاضا تو پورا ہو جاتا ہے۔ باقی معاملات میں انسان مکلف نہیں کہ مکمل طور پر گناہ سے پاک رہے۔ خطا و نسیان انسانی طبعیت کا حصہ ہے”۔
"پھر بھی یہ فیصلہ آپ کی طبعیت پر بھاری ہے تو بالکل آپ ایک ہی شادی تک محدود رہو۔ کیونکہ دوسری شادی کرنا بھی ہمت والوں کا کام ہے”۔
"جی مولوی سر! آپ ٹھیک کہتے ہیں، اس قدر ہمت مجھ میں نہیں ہے”، عاطف نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ۔ "ویسے بھی نکاح اگر معاشرتی اعلان ہے تو اس کا مقصد یہی ہے کہ سب جان لیں اور اگر کوئی اس رشتے پر اعتراض کرنا چاہے تو کرسکے۔ مگر آپ مجھے اس رشتے کو اس انسان سے چھپانے کا کہہ رہے ہیں جو اس دوسرے نکاح کی صورت میں سب سے زیادہ معترض ہو سکتا ہے”۔
حیرت ہے، مولوی صاحب بڑبڑائے۔ آپ مجھ سے دوسرے نکاح کی اجازت لینے آئے تھے۔ تاکہ آپ زنا جیسے گناہ سے بچ جائیں۔ اور اب آپ اسکے مخالف ہوئے جاتےہیں۔ میں تو آپ کی عقل پر حیران ہوں۔
مولوی سر، آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے ایمانداری سے مجھے شرعی معلومات فراہم کیں۔ اب میرے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ میں اس لڑکی سے ہفتے میں ایک بار ملتا رہوں اور زنا جیسا گناہ کبیرہ کروں۔ ۔ ۔ یا دوسرا یہ کہ میں اس سے نکاح کر کے زنا کے گناہ کبیرہ سے بچ جاؤں۔ ۔ ۔ مگر دوسری بیوی کو انصاف کے ساتھ آدھا حصہ نہ دینے کا گناہ بھی کروں، اور اپنی پہلی بیوی اور بچوں سے جھوٹ بولنے کا مسلسل گناہ کبیرہ بھی کرتا رہوں”۔
مولوی صاحب اس نوجوان کو اب دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، "تو پھر اب آپ کیا کرنے والے ہو؟ انہوں نے عاطف سے پوچھا”۔
"مولوی سر، مجھے ٹھیک ٹھیک تو پتہ نہیں، مگر اس کا صرف ایک ہی راستہ مجھے سمجھ آتا ہے، وہ یہ کہ میں نکاح سے پہلے یا فوری بعد اپنی پہلی بیوی کو سچ بتا دوں۔ اور اس کے رونے پیٹنے، اور ناراض ہونے کا مقابلہ کروں۔ اور اس طرح اپنی دوسری بیوی کو بھی پوری دنیا کے سامنے ایک جائز رشتہ دوں۔ ورنہ چپ چاپ اپنی پہلی والی زندگی جیتا رہوں”۔
مولوی صاحب مسکرائے اور کہنے لگے:”صاحبزادے، میں نے غلط کہا تھا کہ آپ ہمت والے نہیں ہو، آپ میں ہمت بھی ہے اور انصاف بھی۔ میری دعا ہے کہ آپ کے ساتھ بہتری کا معاملہ ہو۔ اللہ حافظ۔”