ابن فاضل۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کی کاریگری دیکھیے ہمارے سر کے ہربال کے نیچے تین فیکٹریاں کام کررہی ہیں. بغیر کسی کاریگر، دھوئیں اور شور کے چپ چاپ. اور انسان کی پیدائش سے آخری سانس تک ہرلحظہ محو کار رہتی ہیں. یہ فیکٹریاں ہیئر فولیکل( hair follicle) اور سیبا شئیس گلینڈز (sebaceous glands) ہیں. ہئیر فولیکل بال بناتا ہےجبکہ سیباشئیس گلینڈز ایک طرح کا روغن یا تیل پیدا کرتے ہیں جسے ‘سی بم’ کہتے ہیں. یہ سیبم بالوں کو توانا ملائم اور جلد کوصحت مند رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
جب کچھ دن گزرتے ہیں تو اس روغن کے تہہ بالوں اور جلد پر بتدریج آجاتی ہے. ساتھ ہی فضا میں معلق مٹی اور کاربن کے ذرات اس تہہ پر چپک جاتے ہیں. اور یوں سر میں خارش ہونا شروع ہوجاتی ہے. بعض صورتوں میں کچھ خاص قسم کے بیکٹیریا بھی اس روغن میں پنپتے ہیں جو ہلکی سی بُو اور خارش کا سبب بنتے ہیں. ایسی تمام صورتوں میں سر کو دھونا لازم ہوجاتا ہے۔
اس بات پر غور کرنے سے پہلے کہ سر کو کس چیز سے دھویا جانا سب سے بہتر ہے۔ دھونے کے عمل کو سمجھنا ضروری ہے. عام حالات میں کسی بھی قسم کاتیل یا روغن پانی میں حل نہیں ہوتے. تمام اقسام کے صابن اور غیر صابونی مصفی یعنی ڈیٹرجنٹ بنیادی طور پر ایملسیفائر ہوتے ہیں. جو تیل کو پانی میں حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں.
جب صابن یا ڈیٹرجنٹ کا محلول کسی تیل بردار چیز پر لگایا جاتا ہے تو تیل کو خود میں حل کرلیتا ہے اور یوں مذکورہ شے تیل سے پاک ہوجاتی ہے. اسی طرح مٹی اور کاربن کے ذرات بھی اس محلول میں ایک طرح کی برق سکونی کی طاقت سے پکڑے جاتے ہیں. یوں صابن یا ڈٹرجنٹ والے محلول سے ہاتھ کپڑے اور بال وغیرہ بالکل صاف ہو جاتے ہیں.
اب دیکھیں بالوں کی ملائمت سی بم کے دم سے ہے. جب ہم بال دھوتے ہیں تو سیبم دھل جاتا ہے جس سے بال ایک دم روکھے اور خشک اور کھردرے لگنے شروع ہوجاتے ہیں. اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سائنسدان دہائیوں سے جتن کررہے ہیں. سب سے پہلے ہلکے سے ہلکا صابن یا ڈیٹرجنٹ بنانے کی کوشش کرتا ہیں جو بالوں کو کم سے روکھا کرے اور بآسانی دھل بھی جائے۔
آج کل سوڈیم لاریتھ سلفیٹ.( sodium laureth sulphate) یا امونیم لارتھ سلفیٹ. (Ammonium laureth sulphate ) استعمال ہوتے ہیں. تقریباً سبھی اچھے شیمپو یہی دونوں ڈیٹرجنٹ استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ یہ ہلکے ہونے کی وجہ سے جھاگ کم پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ خوب جھاگ بنے. اس کام کیلئے پھر مختلف کیمیائی اجزاء کا سہارا لینا پڑتا ہے. زیادہ تر شیمپو جھاگ بڑھانے کے لئے لارک ایسڈ ایمائیڈ یا کوکو ڈائی ایتھانول ایمائیڈ ( diethanol coco amide) استعمال کرتے ہیں۔
اب آتی ہے باری ملائمت دینے کی. یہ سب سے مشکل کام ہے. ملائمت کیلیے کسی نہ کسی تیل کی ضرورت ہے. اب شیمپو کا بنیادی کام تیل کو دھونا ہے یعنی دو متضاد کام ایک ساتھ کرنا ہیں. اس کیلیے ہزاروں تجربات کیے گئے ہیں اور کیے جارہے ہیں.
مختلف شیمپو بنانے والے مختلف اقسام کے مہنگے سے مہنگے تیل جیسے روغن بادام، آرگان یا کیمومائل آئل کی کچھ مقدار شیمپو میں شامل کرتے ہیں تاکہ وہ بال دھلنے کے بعد یہ تیل بالوں کسے چپک جائیں اورخشک ہونے پر ملائم محسوس ہوں. لارئیل فائیو والے تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پانچ اقسام کے تیل شیمپو میں ڈالتے ہیں۔
لیکن دھونے کے دوران اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ تیل بال مکمل طور پر دھلنے سے پہلے ہی بالوں سے چپک جائیں گے. یا ایک بار چپکنے کے بعد شیمپو میں موجود ڈیٹرجنٹ کے اثر سے دوبارہ نہ دھل جائیں. کیونکہ ان کا توازن ہر شخص کے لیے مختلف ہوگا۔
جس کی سرکی جلد زیادہ تیل والی ہے اس کیلئے نتائج مختلف اور خشک جلد کیلئے مختلف۔ اسی طرح بالوں کو صحت مند اور چمکدار کرنے کیلئے ایگ پروٹین اور ہائیڈرولائزڈ وہیٹ پروٹینز بھی ڈالی جاتی ہیں لیکن بات پھر وہی کہ یہ پروٹینز اور ڈیٹرجنٹ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پروٹین بالوں سے چپکنے کی کوشش کرے گی جبکہ ڈیٹرجنٹ کی ذمہ داری ان کو اتارنا ہوتی ہے۔
ایک قسم کا مصنوعی تیل جو کہ سلیکون آئل کہلاتا ہے بالوں کے ساتھ چپکنے کی اور ان کو چمکدار اور ملائم دکھانے کی خصوصی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی قلیل مقدار میں ہی شیمپو میں شامل کیا جاسکتا ہے. کیونکہ اگر زرا سی زیادہ مقدار میں شامل کرلیا جائے تو شیمپو کی بہت جلد کئی پرتیں بن جاتی ہیں اور وہ قابل استعمال ہی نہیں رہتا۔
سو اس ساری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ جب تک سائنس دان کوئی بہت زبردست حل نہیں نکال لیتے بالوں کے لیے بالکل عام سا شیمپو استعمال کریں اور دھونے کے بعد اچھے تیلوں اور پروٹینز پر مشتمل کنڈیشنر یا موائسچرائزر استعمال کریں کیونکہ زبردست بال تاحال کسی بھی ایک شیمپو کے بس کی بات نہیں. لہذا شیمپو اور موائسچرائزر کا دوہرا نظام ہی بہترین حل ہے۔