کتا انسان پر بھونکتے ہوئے

”جھپٹنا،جکڑلینا اور کاٹ کھانا“ لُہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخرکار حکومت سندھ نے کُتوں کے خلاف مہم چلانے کی ہدایت جاری کردی۔ سندھ کے باسی بہت دنوں سے صوبے میں کُتوں کے بڑھنے اور ان کے کاٹنے کی شکایت کر رہے تھے، مگر شاید کتے بھونک بھونک کر اتنا شور مچاتے تھے کہ یہ شکایت حکم رانوں کے کانوں تک پہنچ نہیں پاتی تھی، اور لوگ شکوہ کرتے تھے کہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اب اگر جوں جوں کی توں رہتی ہے اور نہیں رینگتی تو اس میں حکومت کا کیا قصور، البتہ جب تک سائیں قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ تھے تب تک جوں بے قصور تھی کہ کہاں رہتی کہاں رینگتی۔ پھر جوں کی مُراد بر آئی اور مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بن گئے، اور کسی حکم راں کے سر میں بسیرا کرنے کی آرزومند جوں کو رہنے کے لیے بالوں بھرا سَر مل گیا۔

اب اگر جوں کان پر نہیں رینگتی تو صرف یہ سوچ کر کہ میں اپنے کتے جانور بھائی کے مقابلے میں موئے انسان کی خاطر کیوں رینگوں۔

خیراصل بات یہ ہے کہ حکومت نے کتوں کے مقابلے میں عوام کی سُن لی۔ اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ حکومت سندھ عوام کو کتوں پر ترجیح دیتی ہے، کبھی کبھی ہی سہی۔
حکومت نے کتوں کے خلاف مہم کا اعلان کر تو دیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”ہر گلی سے کُتا نکلے گا تم کتنے کُتے مارو گے؟“

ہمارے دوست بانکے بھینس کالونوی جانوروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اسی لیے بھینس کالونی میں جابسے اور مچھر کالونی کی ایک خاتون سے عقد کیا اور ان دنوں گیدڑ کالونی میں رہتے ہیں۔ یوں تو انھیں ہر جانور سے محبت ہے مگر کُتوں کے معاملے میں زیادہ ہی حساس ہیں۔ کتوں سے اپنے محبت کی بابت کہتے ہیں،”بھیا! شادی کے بعد کُتے اپنے اپنے سے لگنے لگے ہیں۔“

بانکے بھینس کالونوی کتوں کے خلاف حکومت کی مہم سے بہت افسردہ ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ کتا مار مہم کے بہ جائے کتا روزگار مہم چلائی جائے، اس کے لیے پہلے کتوں کی ”مردم شماری“ کرائی جائے، پھر انھیں گھروں کی حفاظت کے لیے ماہانہ گوشت کی بنیاد پر بھرتی کرلیا جائے۔

فی گلی ایک کتا کافی ہے، یوں کتوں کی کھپت بھی ہوجائے گی، وہ آوارہ پھر کر اپنا وقت ضائع بھی نہیں کریں گے اور کم ازکم کتوں کا خون حکومت کے سر نہیں ہوگا۔

بانکے صاحب کی کتادوستی اپنی جگہ، مگر خاص طور پر کراچی میں کتوں کی بہتات دیکھتے ہوئے ہم ان سے اتفاق نہیں۔

احمدفراز کا محبوب خوش نصیب ہے کہ سُنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں، مگر کراچی میں تو یہ حال ہے کہ
سُنا ہے دن کو اسے ”مکھیاں“ ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو ”کُتے جکڑکے“ دیکھتے ہیں

ہمیں کتوں سے یہ شکوہ نہیں کہ وہ کیوں ہیں، ہمارا گلہ تو یہ ہے کہ بھائی کُتے! یہ تم بلاوجہ بھونکتے اور بے فائدہ کاٹتے کیوں ہو؟ شیر، چیتا، بھیڑیا انسان کو چیرپھاڑ کر اپنی بھوک مٹاتے ہیں، اور ان کے ہتھے چڑھنے والے کو کم ازکم یہ اطمینان ہوتا ہے کہ چلو بندہ کسی کام آیا۔

مگر کتوں کا سب سے بڑا کُتاپن یہ ہے کہ کاٹ کر چل دیے کسی نے پوچھا کیوں کاٹا تو کہہ دیا ”ایوئیں۔“ گویا”جھپٹنا، جکڑلینا اور کاٹ کھانا“لُہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ عجبب مصیبت ہے وہ عقابی روح جس کے نوجوانوں میں پیدا ہونے کے علامہ اقبال آرزومند تھے کُتوں میں بیدار ہوجاتی ہے۔

کاٹنے والے تو چلو لہو گرم رکھنے کے لیے کاٹتے ہیں، مگر بھونکنے والے صرف خون خشک کرنے کے لیے بھونکتے ہیں۔ ان میں کم ازکم ازکم اتنی ”انسانیت“ تو ہونی چاہیے کہ بھونکنے سے پہلے بتادیں، ”بھیا! ہم کاٹنے والے نہیں، اپنی کتیا پر بھونک نہیں سکتے اس لیے تم پر بھونک کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، بُرا مت ماننا، تم تو ہمارا درد سمجھتے ہو، چلو ہم بھونک چُکے اب تم جائو۔“

اب بندے کو کیا پتا کہ جو بھونک اور غرا کر جان نکالے ہوئے ہے وہ صرف بھونکنے والا ہے، اور اگر بھونکنے والا ہے تو کیا خود جانتا ہے کہ میں صرف بھونکنے والا ہوں کاٹنا میرے فرائض میں شامل نہیں جس کا کام اُسی کو ساجھے۔

ہماری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ یہ اتنے کُتے اچانک آئے کہاں سے؟ غالب آج ہوتے تو ”سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں“ کی طرح یقیناً یہ سوال بھی اٹھاتے کہ”اتنے کُتے کہاں سے آئے ہیں“ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کُتوں کے یوں بھونکنے پر ہم تو بعض اوقات ان سے زیادہ بلند آواز سے پوچھتے ہیں”کچھ تو بھونکو“ کہ مُدعا کیا ہے۔ اس بلاوجہ کی بھونک پر لوگ پتھر دے ماریں تو کُتے ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں، سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے۔ شاید ان کی یہ دردناک شکایت سُن کر ہی جذباتی کُتے انتقاماً انسانوں کو کاٹ لیتے ہیں۔

ہمارا اندازہ ہے کہ کُتے اپنا تذکرہ سُن کر یہاں آگئے ہیں۔ یوں تو ہمارے عوام کے ہونٹوں پر جتنا کُتے کا نام رہتا ہے اس کی نصف تعداد میں بھی ہم کسی اور جانور کا نام نہیں لیتے۔ ہمارے ہاں کُتا تخاطب میں آتا ہے، مکالمے میں آتا ہے اور نعروں میں تو بہت ہی آتا ہے، ایسی صورت حال میں کتوں کا غول کا غول آتا ہے تو حیرانی کیسی۔ انھوں نے سوچا ہوگا جو لوگ کُتوں کا اتنا ذکر کرتے ہیں کیوں نہ ان میں جاکر رہا جائے۔

پھر کُتوں نے یہ بھی سوچا ہوگا یہاں کُتے پالے جاتے ہیں، چھوڑے جاتے ہیں، کردیے جاتے ہیں مگر کھائے نہیں جاتے۔ اب انھیں کیا خبر کہ بعض قصائی اور ہوٹل والے کُتوں کی وفاداری کا فائدہ اٹھاکر بھولے بھالے کُتوں کو گائے بکری ہونے کا یوں یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کی بات پر یقینِ کامل رکھتے ہوئے ”پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سَر رکھ دیا“ کی تصویر ہوجاتے ہیں،

کتوں کا یقین اتنا راسخ ہوتا ہے کہ پہلی بوٹی کے گلے سے اُترتے ہی قصائیوں اور ہوٹلوں کے گاہک کے دل میں بھی گھر کر جاتا ہے، وہ تو جو جب طبعیت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے، تو خیال کچھ دیر پہلے کے کھانے کی طرف لپکتا ہے۔

کُتے کچھ بھی سوچ کر آئیں ہوں، مگر اتنا تو سوچیں کہ ہم سندھ کے عوام پر پہلے ہی ہر کوئی غراتا اور کاٹ کھاتا ہے، پھر ہمارے ساتھ کُتوں والی بھی ہورہی ہے، یعنی تیرا غم میرا غم اک جیسا صنم، ہم دونوں کی ایک کہانی، اور ہمارے پاس کسی اور تسکین کی طرح ویکسین بھی نہیں۔

ہم کُتوں سے خائف حضرات کو مشورہ دیں گے کہ وہ کسی بھونکنے اور کاٹنے پر کمربستہ کُتے کے سامنے آتے ہی ہماری اس تحریر کی آخری سطریں پڑھ دے، وہ دُم ہلاتا ہوا اس سے لپٹ جائے گا اور نم آنکھیں اُٹھا اور دُم ہلاکر کہے گا، ”بس بھی کر، رُلائے گا کیا پگلے۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں