ثمینہ رشید

معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی فرسٹریشن، ہمیں کیا کرناچاہئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثمینہ رشید۔۔۔۔۔۔
موضوع حساس ہے لیکن توجہ کا طالب بھی، کچھ عرصے کے عمیق مشاہدے اور ریسرچ کے بعد میں پوری زمے داری سے یہ لکھ رہی ہوں۔

ورچوئیل دنیا میں کسی کی فیس بک پروفائل سے اس کے بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل ہے اور کوئی خود کو کس طرح پیش کرتا ہے اس کی بنیاد پر شخصیت کا تجزیہ کرنا تقریباً ناممکن ہے ۔

سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک نے بہت سے لوگوں کو یہ مواقع بہت آسانی سے فراہم کردئیے ہیں۔ اور لوگوں سے مراد بنا تخصیص جنس اور طبقات ہے۔ اور اس کا بنیادی نقطہ جنسی گھٹن یا فرسٹریشن ہے ۔ لیکن کہیں نہ کہیں کچھ اور عوامل بھی اس کے ذمے دار ہوسکتے ہیں جو شاید میرے مشاہدے میں نہ آئے ہوں ۔

اس سارے مشاہدے میں جو بات شدت سے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ ہمارہ معاشرے کی اکثریت اکیسویں صدی میں بھی عورت اور مرد کے تعلق کو ایک روایتی فریم میں ہی دیکھتی ہے۔ عورت ہو یا مرد دونوں کے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو اپروچ کرنے کا مقصد ستر فیصد تک (یقیناً اور ہرگز ہرگز سب نہیں ) ایک مرد کے عورت کو، یا مرد کے عورت کو اپروچ کرنے کے پیچھے وہی روایتی ذہنیت اور نیت ہے۔

بظاہر sophisticated اور مہذب نظر آنے والے لوگ بھی ان باکسز میں کسی اور روپ میں پائے جاتے ہیں۔
کچھ دیر کے لئے معاشرے میں رائج عورت اور مرد کے روایتی تعصب کو بالائے طاق رکھ بھی دیں، تب بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ فیس بک پر اس قسم کے روئیے میں مرد اور عورت کی حتی کے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تخصیص بھی نہیں کی جاسکتی۔

ان میں بیشتر کا مقصد وقتی افیئر کے ساتھ وقت گزاری، کچھ مالی فوائد کچھ ذہنی تسکین ہوتا تو بھی اتنا الارمنگ شاید نہ ہوتا جتنا کہ یہ جان کر ہوا کہ بیشتر کا مقصد کسی نہ کسی طرح اپنی جنسی فرسٹریشن کا اظہار ہے اور یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے۔

موبائل فون کو یا انٹرنیٹ کو برا بھلا کہنے کا وقت گزر گیا۔ ہم سب کو ہی اسے اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کرلینا چاہیے ۔

جہاں یہ نئی ٹیکنالوجی دنیا میں نت نئی دریافتوں، نئے بزنس ٹولز اور اپرچونیٹیز سامنے لا رہی ہے وہیں ہمارے معاشرے میں اس کا استعمال گلی محلے کے معاشقوں کی جگہ ایک محفوظ متبادل کے طور پر ہورہا ہے بلکہ آزادانہ ہورہا ہے۔

حال کچھ یوں ہے کہ بھائی اور بہن کہہ کر ان باکس میں شروع ہونے گفتگو چند ماہ میں نہیں بلکہ صرف چند دنوں میں ہی کسی اور نہج پر جا نکلتی ہے۔ ایک دوسرے کی غیر اخلاقی تصویروں کا تبادلہ اور لوز ٹاک کے کمنٹس کے ساتھ ساتھ آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ کا تبادلہ بھی عام ہوچکا ہے۔

گو کہ ذمے دار دونوں ہیں اور اس تعلق کو initiate کرنے میں خواتین کا کردار بھی تقریباً برابر ہے لیکن خسارہ بہرحال عورت کے حصے میں ہی آتا ہے۔

بلیک میلنگ کے واقعات بھی عام ہیں اور دشمنی میں خواتین کی ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے کے بھی۔ بہت کم لوگ ہیں جو سائبر کرائم کو اس طرح کے قصے رپورٹ کرتے ہیں ۔ اور بعض انتہائی صورتحال میں (زیادہ تر) خواتین اور مرد حضرات خودکشی جیسا انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ہمارے ماننے نہ ماننے سے یہ حقائق بدلنے والے نہیں۔ نہ ہی بات نہ کرنے سے ان پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے۔
ہماری روایتی اخلاقیات کو یہ چیزیں انتہائی تیزی سے گھن کی طرح کھارہی ہیں۔

ہمارے ہاں مغرب کے بارے میں غلط تصورات کی بنیاد ایک ایسا عجیب سا ملغوبہ ماحول تشکیل پا رہا ہے جس کا مغرب میں بھی کوئی تصور نہیں۔ مغرب میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے کلچر کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کی یہ کمٹمنٹ عارضی ہوتی ہے یا آپ تعلقات کے سنجیدہ لینے یا ذمے داری اٹھانے سے گھبراتے ہیں ۔مغرب میں اس رشتے کو اتبی سنجیدگی اور ذمے داری سے لیا جاتا ہے جتنا ہمارے ہاں شادی کو۔

اگر کوئی شخص بنا تخصیص صنف اگر پرانے تعلق کومختصر عرصے کے بعد تبدیل کرکے نئے تعلقات بناتا ہے تو اس کے حوالے سے منفی تاثر ہی بنتا ہے جو جلد ان کو معاشرے میں تنہا کردیتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد وہاں بہت کم ہے۔

لیکن ہمارے ہاں اس ایک فرضی تاثر کو لے کر ایک نیا کلچر تیزی سے پھیلا ہے اور پھیل رہا ہے اور وہ ہے ان باکسسز سے واٹس ایپ تک کا تیزی سے سفر ، عارضی تعلقات ، اپنی جنسی اور ذہنی فرسٹریشن سے نجات کے غیر اخلاقی طریقے۔

عموماً جو خواتین یا حضرات اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں وہ عمومی نتائج سے لاپرواہ ہوتے جارہے ہیں اور اس میں خواتین بھی اسی طرح سوچتے ہوئے اس کے منفی نتائج کو پس پشت ڈالتے ہونے شامل ہیں۔

سستی ٹیکنالوجی سے انسان کو جس نئی دنیا کو دریافت کرنا تھا لیکن ہمارے ہاں اسے ایک انتہائی سطحی نوعیت کی نفسی تسکین کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ روئیے ہمارے معاشرے کی روایتی بنت کے بالکل خلاف ہیں۔

ہمیں کون سے ایسے راستے اختیار کرنے چاہئیں کہ معاشرے کی بنت اور اخلاقیات کی مسمار ہوتی دیوار کو بچایا جاسکے ۔ اور ہمارے ہاں کے سوشل میڈیا یوزرز کو جدید ٹیکنالوجی کے وسیع کینوس سے متعارف بھی کرایا جاسکے تاکہ ان کے ذہن اس سطحی نوعیت کی ایکٹیویٹیز سے باہر نکل کر کچھ بہتر اور مثبت سوچ سکیں۔

ہمیں بطور لکھاری اس ایشو کو زیر بحث لانے، اس کے عوامل کو سمجھنے اور اس کے حل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہیے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں