ڈاکٹرمحمد مشتاق۔۔۔۔۔
زید ایک فور سٹار ہوٹل میں پروگرام کےلیے جارہا تھا۔ داخلی دروازے پر چیک پوسٹ تھی۔ گاڑی کا بونٹ کھلوایا گیا، ڈگی دیکھی گئی، سکینر کے ساتھ طواف کیا گیا، اس کے بعد گاڑی اندر لے جانے دی گئی۔
زید نے گاڑی مخصوص جگہ پر پارک کی اور اندر داخل ہونے لگا تو اب ایک اور سکینر تھا جس سے زید کو گزرنا پڑا اور اس کے ہاتھ میں سے لیپ ٹاپ بیگ لے کر اسے الگ سے سکین کیا گیا۔ اس کے بعد زید کو مسکراہٹ کے ساتھ ویلکم کیا گیا۔
زید نے رک کر پوچھا:
یہاں کتے کیوں نہیں ہیں؟
سیکیورٹی آفیسر کی سمجھ میں سوال نہیں آیا۔ اس نے وضاحت مانگی تو زید نے کہا:
فلاں فائیو سٹار ہوٹل میں تو کتے بھی گاڑی کا جائزہ لیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر گاڑی اندر لے جانے کی اجازت ملتی ہے، خواہ گاڑی اس ہوٹل کی اپنی ہو۔
سیکیورٹی آفیسر نے لجاجت کے ساتھ کہا:
ہم نے اس سلسلے میں ہوٹل انتظامیہ کو پورا پلان اور تخمینہ لاگت دیا ہوا ہے۔ جلد ہی یہ انتظام یہاں بھی ہوگا۔
زید نے کہا:
بہت خوب۔ لیکن اس ہوٹل میں تو اس کے باوجود اتنا بارود پہنچا تھا کہ دھماکوں نے اسے ملیا میٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ پھر ایسی چیک پوسٹ، ایسے سکینرز، ایسے کتوں کا کیا فائدہ؟ اس کے بجائے یہی اخراجات دہشت گردوں کو پکڑنے پر کیوں نہ لگائے جائیں؟
سیکیورٹی آفیسر نے مزید لجاجت کے ساتھ کہا:
سر، دہشت گردوں کو پکڑنے کی کوشش اپنی جگہ حکومت پر لازم ہے، لیکن اپنی احتیاط بھی تو ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے۔ زندگی بہت قیمتی ہے، سر!
عبایہ والی خواتین کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے، والی لاجک سے یاد آیا۔