بھوری بھینس اور اس کا بچہ

بھوری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعاعظیمی کی نئی اردو کہانی

سردیوں کی یخ بستہ رات تھی۔
سکینہ تھر تھر کانپتی صاف ستھرے، نتھرے نتھرے ستاروں بھرے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔
یکایک اس کی نظر ایک شعلے کی طرف لپکی، اتنے بڑے تاروں سے چم چم کرتے آسمان پر وقت کی بہت ہی چھوٹی سی اکائی کے ہزارویں حصے میں شعلہ لپکا اور غائب ہو گیا جیسے کسی کے گلے میں راگ اٹک گیا اورسانس ٹوٹ گیا۔

"تو یہاں پالے میں کیوں کھڑی ہے”؟
حیات نے اماں سے پوچھا۔
"پت! پانی پینے آئی تھی جیون جوگیا! سوچا کہ اپنی” بھوری "کو دیکھتی جائوں، تجھے پتہ ہے اس حال میں نظر تورکھنی پڑتی ہے، دن پورے ہو گئے، وہ بہت سست ہو رہی ہے”۔
سکینہ نے تشویش سے بتایا۔

"اسے میں دیکھتا ہوں”
"تو کوٹھڑی میں جا تجھےپالا لگ جائے گا۔”
اس نے اپنے گرد گرم چادر لپیٹی اور کس کے بکل مار لی۔ وہ اپنے گھبرو پت کی پشت پہ دعائیں باندھتی رہی۔
اس کا ابا بھی ایسے ہی بکل مارا کرتا تھا، یکایک اس کو خیال آیا۔
آسمان پہ لاکھوں تارے چم چم کر رہے تھے، ایک تارا ٹوٹنے سے آسمان کو کیا فرق پڑا۔
پر کاش وہ تارا جو ٹوٹا میرے نام کا نہ ہوتا۔ سکینہ کو بیوہ ہوئے سات سال ہونے کو آئے تھے پر کرم داد کادکھ پرانا ہونے میں آتا ہی نہیں تھا۔

اس کا چہرہ آنسووں سے بھیگ گیا۔
کرم داد اس کے نام کا تارا تھا۔
بہت سے تارے جگمگا رہے تھے، پر اس کے حصے کا آسمان خالی تھا۔
"اماں! تو ابھی تک ادھر ہی کھڑی ہے!!
بھوری کو ست تے وی خیراں نیں تو کائی فکر نہ لا تے سو جا”
پتر نے تسلی دی۔
انہوں نے بھوری کے لیے طویلے کو گرم کرنے کا بندوبست کیا ہوا تھا، تھاپیوں کی انگیٹھی سے ماحول قدرے بہتر تھا ورنہ سخت سردی تھی ۔

وہ اپنے کھسے گھسیٹتی، شکر شکر کا کلمہ پڑھتی، لحاف منہ پہ لے کے سوتی بن گئی۔ حیات علی بھی اپنے بسترمیں دبک گیا۔

ایک تو رامو، اس کا دیور ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ اول تو گھر میں ٹکتا کب تھا، اس کی دیورانی پھر امید سے تھی۔ وہ اکثر اپنی دیورانی کے بارے میں سوچتی رہتی کہ اس بار پتہ نہیں وہ بیٹے کی شکل دیکھ پائے گی یا نہیں لیکن پھر اس کی تمام تر توجہ بھوری کی طرف چلی گئی۔

بھوری کے ماتھے پہ ڈب تھا اور باقی رنگ بھی بھورا سارے ڈنگروں میں اس کی چھب نرالی ہی تھی۔

یہ بھینس چودھری نے سکینہ کے ابا کو دی تھی جب اس نے دوسری شادی کی۔ وہ بہت خوش تھا۔ رشتہ سکینہ کے باوا نے کرایا تھا۔ دوسری ووہٹی جہیز میں دیسی، ولایتی بہت سا سامان اور سونا اور ٹومبیں اور ان گنت بھینسیں لائی تھی جس میں سے چودھری نے بھوری سکینہ کے باوا کو دے دی تھی جو اس نے سکینہ کو جہیز میں دے ڈالی تھی۔

ویسے تو بھوری خالصتاً سکینہ کی تھی، پر کرم داد کی وفات کے بعد اس کو پالنے کا بندوبست اس اکیلی کے بس کا نہ تھا یا شاید اس نے دیور کا مان رکھا جب وہ بولا :
"بھرجائی! میں اس کا خیال رکھوں گا”، ادھ پہ اس نے دیور کو دے ڈالی تھی۔

اس کا دھیان بھوری میں اٹکا رہا۔۔۔۔ اس بار کے پھل پہ اس کے اور اس کے بیٹے کا نام تھا نا۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا تھا ، جب بھی ان کی باری آتی فطرت ساتھ نہ دیتی۔ پچھلی بار کے پھل پہ رامے کا حق تھا تب تو بھوری نے کٹی کو جنم دیا تھا اور رامے نے گاؤں بھر میں لڈو بانٹے تھے بالکل ایسے لڈو جیسے اس کے کرم داد نے اپنے پہلوٹھی کے پتر کے ہونے پہ بانٹے تھے۔۔۔ وہ دیر تک حساب کتاب لگاتی رہی۔
کب چاننا ہو گیا اسے گھپ گھور کوٹھڑی میں پتہ ہی نہ چلا۔

اس کی دیورانی کے ہاں تین لڑکیوں کی ولادت ہوئی تھی۔ وہ سہاگن تھی پر اپنے حصے کا درد چپکے چپکے سہہ رہی تھی۔ اب کے بار شاید رب سوہنا سن لے وہ مسیتی تیل ڈالتے وقت دعا کرنا نہ بھو لتی۔
وہ دیورانی جٹھانی تھیں۔ ایک دوسرے سے دل کا سارا دکھ سکھ کہہ دیتی تھی۔ راما دن بہ دن اپنی حرکتوں سے اسے پریشان رکھتا، زیادہ شور کیسے کرتی، اس نے نر اولاد تو اسے دی نہیں تھی۔

اس نے اب توچودھریوں کے” دارے” پہ ہی رہنا شروع کر دیا تھا۔ کوئی کچھ بولتا کوئی کچھ
سکینہ بھی پاسے پلٹتی رہتی اور اس کی دیورانی داراں بھی۔ دونوں کہیں سے خالی تھیں۔
ایک دن دیورانی پوچھنے لگی کہ بھرجائی "اک گل تے دس؟”

سکینہ بولی: "کی”؟

"تیرا دکھ وڈا اے یا میرا”؟ سکینہ ماتھا پکڑ کے بیٹھ گئی. دونوں ساگ کھلارے بیٹھی تھیں اور باتوں میں کام کا کیا پتہ چلتا، دو کی بجائے چار ہاتھ چلتے ، بھرجائی کو لگتا کہ بیوگی کا دکھ ڈاہڈا اے پر داراں کو لگتا وہ سہاگن ہو کے بھی دکھی ہے.

"سر دا سائیں دل دی گل نہ سنے ایس نالو تے رنڈاپا چنگا”. سکینہ منع کرتی تو کہتی:
"تو اونچا اونچا رو سکتی ہے بین ڈال سکتی ہے پر میں کی کراں!”

مینوں رب نے گجی مار ماری، بے شک تیرا دکھ سورج ورگا اے

گل سن جھلئی!”رب گجی یا کھلی مار نئیں ماردا ، اوہ تے مکھن دے پیڑے ورگا اے، سچا ستھرا تے پاک”
داراں بولی:
” پر جیون موت تے اودھے ہتھ وچ آ نا،کٹا ، کٹی ، کڑیاں منڈے، رزق سب اوہدی ہی تے مرضی اے”
یہ سن کے سکینہ کہنے لگی:

"جھلئی داراں ! اے تے سچ اے ، پر اے تے رب نئی کہندا جے منڈا ہووے تے لڈو ونڈو تے جے کٹا ہووے تے سوگ وٹا پالوو۔
اونہیں کدے نئی کہیا کہ سر دا سائیں چنگا نہ ہووے تے اونہوں چھڈ نئی سکدے
(کاگز) طلاق لینا گال کوئی نئیں اینوں گال اساں آپ بنایا اے

داراں حیران پریشان بھرجائی کی باتیں سنتی گئی، پھر ہانڈی چڑھاتے بولی:”ساویاں مرچاں کینیاں پاواں”. اس کی عادت تھی کچھ نہ کچھ پوچھتی رہتی تھی.

پھر ایک دم بولی:
"بھر جائی تو وی نکاح کر لے "

سکینہ سیانی عورت تھی جواب دیا:
"رب سوہنے نے تے منع نئی کیتا کجاک پتر میرا، لوکی کی کہن گے جے میں نکاح کر لوواں۔
جیویں توکہنی ایں رامے نوں نئی چھڈ سکدی، تین کڑیاں لے کے کتھے جاواں انج ای میں وی کجھ نئی کر سکدی.

” رکھی سکھی کھا گوپالا تے رج کے پانی پی تے ڈیٹھاں ونگو جی”
دونوں دکھ سکھ میں رجھی تھیں ۔
"اے سارا کھیڈ فیر وڈکیاں دا اے تے رب نوں کیوں بولدے.”
سکینہ بولی:
"آہ رب تے ستھرا پاک ملائی تے مکھن دے پیڑے ورگا اے”

"ہولی بول پر جائیے جے مولوی نے سنیا تے پنڈو بار کڈ دے گا”

دونوں ہنسیں۔ اتنی دیر میں پورے گھر میں تھرتھلی مچ گئی۔
سب اکٹھے ہو گئے ایک نازک مرحلہ طے ہوا۔
اتنے میں حیات علی حاتو بھاگا آیا
"اماں ,صندقچی چوں پیسے کڈ”
ایدکی آپا وی سارے پنڈ وچ لڈو ونڈاں گے۔
حاتو نے خوشی سے خبر دی:
اماں! بھوری نے کٹی دتی بالکل اپنے نال دی اک ہور بھوری
ماں بیٹے کی آ نکھوں میں پو کے تاروں کی چمک تھی۔

گڑ . پیویاں دی کھل. لون دی ڈلی ہر شے کا بندوبست کیا گیا
‎بھوری کی ٹہل سیوا بنتی تھی نا. داراں حسرت سے دیکھ رہی تھی.
ادھے دکھ سکھ پیسے نال تے ادھے ساڈھیاں وڈیاں دیاں بنائیاں ہویاں گلاں باتاں نال جڑے ہوئے نیں۔

‎وہ بالوں کی لٹیں اور سوالوں کی گنجلیں کھولتی حیرت سے دیکھنے لگی:
واہ سوہنیا ربا۔۔۔۔۔ وہ زور سے ہنسی۔ ایسے لگا دکھ نے کبھی اس گھر میں جھاتی ماری ہی نہیں۔
‎سارے پنڈ میں لڈو جن پہ چاندی کا ورق لگا تھا، تام چینی کے پھولدار تھال میں بانٹے گئے۔

‎سکینہ کو بہت دنوں بعد سکون کی نیند آئی اور داراں سوچتی رہی یعنی آدھے دکھ ہوتے ہیں اور آدھے ہمیں سماج کا نیوندرا ہوتا ہے۔ رات بہت چمکدار تھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں