قبرستان اور اندھیری رات

گورکن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

خلیل جبران/ مترجم : مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔
شکست و ریخت کے شکار بھربھری ہڈیوں والے ڈھانچوں ماحول پر دہشت طاری کیے ہوئے تھے، رات بھی سوئے اتفاق اتنی کالی تھی کہ ستارے بھی کالی چادر اوڑھے سوگئے تھے۔

میں حیات نامی وادی میں اُس رات اکیلا بیٹھا تنہائی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ اس وادی کے ایک طرف آنسوئوں اور خون کی نہر بہہ رہی تھی جسے عرفِ عام میں دو رنگا سانپ کہتے تھے۔ نہر میں آنسو اور خون آہستہ روی سے رقص کی مانند بہہ رہے تھے۔

آدھی رات کو روحیں اپنے ٹھکانوں سے نکلنا شروع ہوگئیں اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے قریب ہی کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سے سکوتِ شب میں ارتعاش پیدا ہورہا ہے۔
میں نے گھبرا کر دائیں بائیں مہیب اندھیروں میں دیکھنا چاہا اور اچانک مجھے لگا کہ میرا دل دھڑکنا بند ہوگیا، ایک ہولناک دیو قامت بلا میرے سامنے کھڑی تھی۔

میں نے ڈر پر قابو پاتے ہوئے کپکپاتی آواز میں چلا کر کہا: تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟
اس نے اپنی انگارہ نما جلتی ہوئی آنکھوں سے مجھے گھورا اور آہستہ سے بولا: مجھے کسی شے کی طلب نہیں اور میں ہر شے چاہتا ہوں۔

میں: براہ مہربانی مجھ سے دور رہو اور اپنا راستہ ناپو۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا میرا راستہ وہی ہے جو تیرا راستہ ہے، میں وہاں جاوں گا جہاں تم جائو گے اور میں وہیں رہوں گا جہاں تم رہو گے۔
میں: میں تنہائی کی تلاش میں یہاں آیا ہوں اور تم میری تنہائی میں مخل ہورہے ہو۔
وہ: میں بھی اکیلا ہوں پھر ڈرنے کی کیا بات؟
میں: میں تم سے ڈر نہیں رہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ: اگر تم مجھ سے خوفزدہ نہیں ہو تو ایسے کیوں کانپ رہے جیسے آندھی کے سامنے خشک پتوں پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔
میں: تیز ہوا سے میرے کپڑے پھڑپھڑا رہے ہیں مگر میں خود نہیں کانپ رہا۔
اس نے زوردار آواز میں قہقہہ لگایا اور بجلی کی کڑکڑاہٹ جیسی آواز میں بولا
تم بزدل مجھ سے خوفزدہ ہوگئے اور اس خوف میں بھی مبتلا ہوگئے کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اور اپنا خوف مجھ سے چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہو۔

وہ اسی پتھریلی چٹان کے سرے پر بیٹھ گیا جس پر میں ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا۔
چند لمحے مجھے دیکھنے کے بعد استہزائی انداز میں بولا ‘ تمہارا نام کیا ہے؟
میں: "میرا نام عبداللہ ہے”
وہ گویا ہوا
اللہ کے اکثر بندے اور اس کی تابعداری کے دعوے دار اللہ کے بندے نہیں ہیں بلکہ اپنے شیطانی نفس کے بندے اور پجاری ہیں، اپنا نام عبداللہ بتا کر شیطان کو شرمندہ نہ کرو، اتباع شیطان کی کرتے ہو اور دعوے عبداللہ ہونے کے؟

میرا نام عبداللہ ہے اور میری ولادت پر میرے والد محترم نے مجھے یہ نام دیا اور مجھے اپنا نام پسند ہے، میں کبھی اپنا نام نہیں بدلوں گا۔
وہ : یہی تو خرابی ہے کہ بیٹے اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہی کرتے ہیں جو ان کے باپ دادا انہیں سکھا گئے، جو لوگ وراثت میں ملنے والے نام و افکار سے خود کو دور نہیں کرتے وہ دراصل مردہ ہیں اور موت ان کا نام و نشان مٹادیتی ہے۔

میں نے اس کی بات پر تفکر انگیز انداز میں سر ہلایا اور تصور میں اپنے والد کی شبیہ لانے کی کوشش کرنے لگا، وہ میری طرف متوجہ ہو کر پوچھنے لگا کہ تم کیا کام کرتے ہو؟
میں شاعر بھی ہوں اور اپنی نثر نگاری سے بھی لوگوں کو محظوظ کرتا ہوں۔
وہ: یہ ایک بےسود کام ہے جس سے نہ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے نا نقصان۔

میں: اچھا تو میں ایسا کیا کروں جس سے انسانوں کا بھلا ہو؟
وہ بولا:
تم گورکنی کا پیشہ اختیار کر کے ان زندوں کو راحت دو جو اپنے مردہ اجسام میں رہتے ہوئے اپنے گھروں، محلوں اور عبادت گاہوں میں بھٹک رہے ہیں۔
میں نے کبھی مردوں کو گھروں کے اطراف بھٹکتے نہیں دیکھا۔

وہ : تم ظاہری آنکھ سے دیکھتے ہو جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ زندگی کے طوفان کے سامنے لڑکھڑاتے ہوئے یہ گمان کیے ہوئے ہیں کہ وہ زندہ ہیں حالانکہ وہ تو اپنی ولادت کے وقت سے ہی مردہ ہیں اور آسمان کی طرف نگاہیں کرکے کسی کو تلاش کررہے ہیں جو آکر انہیں دفن کرے۔
میں نے اس کی بات پر غور کرتے ہوئے استفسار کیا کہ
میں زندہ اور مردہ میں فرق کیسے کروں گا جبکہ دونوں ہی زندگی کی آندھی کے سامنے شکت کھائے ہوئے ہیں۔

اس نے جواب دیا:
زندگی کی آندھی کے سامنے مردے ارتعاش اور شش و پنج کا شکار رہتے ہیں جبکہ زندہ لوگ ہمیشہ آندھی کے شانہ بشانہ چلتے ہیں اور جب تک آندھی نہ رکے یہ بھی نہیں رکتے۔
یہ کہتے کہتے اس نے بیٹھے بیٹھے انگڑائی لے کر پیچھے ٹیک لگالی اور اس کے انداز میں عزم و ولولہ سا بھر گیا،

وہ میری طرف دیکھ کر بولا: کیا تم شادی شدہ ہو؟
میں : ہاں، میری بیوی بہت اچھی ہے اور میں اس کا بہترین ساتھی ہوں۔
وہ: آہ تمہارے گناہ تمہیں ڈبو دیں گے، تم جانتے ہو کہ شادی بھی غلامی کی ایک قسم ہے، اور شادی کو برقرار رکھنے کے لیے انسان غلامی کیے جاتا ہے، اگر تم آزاد رہنا چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو چھوڑ دو اور آزاد رہنا سیکھو۔

میں: میرے تین بچے بڑے ہورہے ہیں اور سب سے چھوٹا ابھی بولنا بھی نہیں سیکھا تو ان کا کیا بنے گا؟
"انہیں قبریں کھودنا سکھائو اور ہر ایک کو پھاوڑا دے کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔”
میں: نہیں مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ اپنی خوشیوں بھری زندگی اور اہل و عیال چھوڑ کر تنہا گزر بسر کرسکوں۔
وہ: مرد کی زندگی بیوی اور اولاد کے ساتھ کبھی پرمسرت نہیں ہوتی ، دراصل یہ بدبختی اور شقاوت کا ایک پہلو ہے جو چمکدار کاغذ میں لپٹی ہوئی کسی زہریلی مٹھائی کی مانند ہے۔
پس اگر پھر بھی تم ازدواجی زندگی پر مصر ہو تو کسی پری دوشیزہ سے شادی کرلو۔

میں حیرت زدہ ہوکر پوچھنے لگا کہ جن یا پریاں تو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تو پھر مجھے کیوں بھٹکا رہے ہو؟
وہ: ارے احمق انسان یاد رکھ پریوں کے علاوہ اس کائنات میں کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتا، اور جو جن اور پری نہیں ہے وہ فریب و دغا کا مجموعہ ہے۔
میں: کیا پریاں حسن و جمال میں بے مثال ہیں؟
وہ: ان کا حسن کبھی ختم نہیں ہوتا اور ان کی جوانی کبھی بڑھاپا نہیں اوڑھتی۔
میں: اچھا مجھے کوئی خوبصورت پری دکھائو میں اس کے ساتھ رہ لوں گا۔

وہ: اگر کسی پری کو تو دیکھ اور چھو سکتا تو میں کبھی تجھے اس سے شادی کا مشورہ نہ دیتا۔
میں: پھر ایسی بیوی کا کیا فائدہ جسے میں دیکھنے اور چھونے سے قاصر ہوں۔
وہ گہری سانس لیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا۔
ایسی شادی ہی تو فائدہ مند ہے اور اس کے نتیجے میں کم از کم کوئی اور مخلوق کائنات میں باقی نہ رہے گی بلکہ یہ چلتے پھرتے مردے بھی جو نہ زندگی کی آندھیوں کے سامنے ٹک سکتے ہیں نہ اس کے ساتھ چل سکتے ہیں۔

اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور چند لمحے خاموش رہنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوا اور استفسار کیا کہ
تمہارا دین کون سا ہے؟
"میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اور نبیوں پر یقین میرے دین کا حصہ ہے، اور میں انبیاء کو افضل مانتے ہوئے آخرت میں اللہ سے کرم کی امید رکھتا ہوں۔”

اس نے مجھے مزید حیران کرتے ہوئے کہا: یہ الفاظ نسلوں سے چلتے آرہے ہیں اور گمراہ لوگوں نے انہیں وضع کرکے تمہیں سونپ دیے اور اب یہ تمہارے لبوں پر جاری ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے نفس کے علاوہ کسی پر ایمان نہیں رکھتے، اور اپنے نفس کے علاوہ کسی کی تکریم کرنے سے قاصر ہو، تم اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہو اور تم آخرت کے بجائے یہاں ہمیشہ رہنا چاہتے ہو۔

ابتدائے حیات سے انسان اپنے نفس کا غلام ہے اور اپنی تسلی کے لیے اسے مختلف ناموں سے پکارتا آرہا ہے، کبھی اسے بعل کہتا تھا ، کبھی مشتری اور حتی کہ اب اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ کہنے لگا ہے۔
اس نے استہزائی انداز میں ہنستے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔

” کتنی حیرت انگیز بات ہے نا کہ جو لوگ اپنے نفس کی پوجا کرتے ان کا نفس حقیقت میں ایک بدبودار مرے ہوئے کتے کے مشابہ ہے”
میں دیر تک اس کی باتوں پر غور کرتا رہا اور مجھ پر زندگی اور موت کے مختلف معانی آشکار ہورہے تھے، میں حقیقت کی گہرائی میں کھو گیا۔کئی لمحوں بعد مجھے تجسس ہونے لگا کہ اتنی گہری اور سچی باتیں کرنے والا یہ پراسرار شخص یا روح کون ہے؟

میں نے بلند آواز سے پکار کر کہا
اگر تو کسی رب کی پیروی کرتا ہے تو تجھے تیرے رب کا واسطہ مجھے بتا تو کون ہے؟
وہ: میرا رب میں خود ہوں۔
میں: تیرا نام کیا ہے؟
وہ: خدائے مجنون
میں: تو کہاں پیدا ہوا؟
وہ: ہر جگہ
میں: تو کب پیدا ہوا؟
وہ: ہر زمانے میں
میں: تجھے حکمت و دانائی کس نے سکھائی؟ کس نے تجھ پر اسرارِ حیات و وجود آشکار کیے؟

اس نے جواب دیا:
میں حکیم و دانا نہیں ہوں، حکمت تو کمزور انسانوں کی صفت ہے، میں تو ایک طاقتور دیوانہ ہوں جس کے قدموں کی دھمک سے زمین چلتی ہے اور میں رکتا ہوں تو آسمان کے ستارے میرے ساتھ رک جاتے ہیں، میں نے انسانوں سے سیکھا کہ مزاح کیسے کرتے ہیں اور جنوں کے بادشاہ کی رفاقت میں وجود و عدم کے اسرار سمجھے۔

میں: اچھا تو تم ان ویران وادیوں میں کیا کرتے ہو اور تمہارے شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں؟
وہ کہنے لگا:
” میں صبح سورج پر سنگ زنی کرتا ہوں، دن میں انسانوں کو لعن طعن کرتا ہوں، شام کو فطرت کا تمسخر اڑاتا ہوں، اور رات کو اپنے ہی آگے جھک کر اپنی عبادت کرتا ہوں۔
میں نے سوالوں کا سلسلہ بڑھاتے ہوئے پوچھا:
تم کیا کھاتے ہو، کیا پیتے ہو، اور کہاں سوتے ہو؟

وہ: میں، زمانہ اور سمندر سوتے نہیں ہیں مگر ہم انسانی جسم کھاتے ہیں اور انسانوں کا خون پیتے ہیں۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اپنے سینے پر اپنے ہاتھ باندھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آہستہ سے بولا :
الوادع میں اب جارہا ہوں مجھے رات کے باشندوں سے ملنا ہے، جلد پھر ملیں گے۔
میں نے جلدی سے کہا:
براہ مہربانی میرے ایک اور آخری سوال کا جواب دیتے جائو۔
وہ رات کے اندھیرے میں گم ہوتے ہوئے بولا: خدائے مجنون مہربانی نہیں کرتا، پھر ملیں گے۔

وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا اور مجھے خائف، حیران و پریشان چھوڑ گیا۔
میں وہاں سے اٹھ کر چلنے لگا تو اس کی آواز کی بازگشت چٹانوں سے آنے لگی:
پھر ملیں گے، پھر ملیں گے۔

میں نے اگلے دن اپنی بیوی کو طلاق دے کر ایک پری سے شادی کرلی، پھر اپنے ہر بچے کو ایک ایک پھاوڑا دے کر کہا ” جائو اور جو بھی میت دیکھو اسے مٹی میں دفنادو”
اُس وقت سے اب تک میں قبریں کھودتا ہوں اور مردوں کو دفناتا ہوں، مردے بہت زیادہ ہیں اور میں اکیلا ہی انہیں دفنارہا ہوں ، اس کام میں میرا ہاتھ بٹانے والا کوئی نہیں ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں