ڈاکٹرمحمد مشتاق۔۔۔۔
الحمدللہ ، میں نیوز چینلز اور ٹاک شوز بالکل نہیں دیکھتا۔ البتہ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اہم تجزیہ نگاروں کی آرا کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ کشمیر کے موجودہ المیے پر یہ تجزیے پڑھ کر دل پر عجیب اداسی بلکہ مایوسی کا عالم طاری ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اگر میرے جیسے سدا کے رجائیت پسند کا یہ عالم ہے تو عام پاکستانی ، جو سازشی نظریات پر فوراً ایمان لے آتے ہیں ، ان کی کیا حالت ہوگی؟
ان تجزیوں میں کچھ تو وہ تھے جن کی ابتدا و انتہا "مرو اور مارو ” پر ہوتی ہے، کچھ وہ تھے جو نام کے تجزیے تھے لیکن دراصل احساسِ محرومی کے جذبے سے لکھی گئی جگتوں کے نمونے تھے اور کچھ وہ تھے جن کا حاصل یہ تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اور جو کرنا ہے وہ کشمیریوں نے ہی کرنا ہے۔ اس وقت مجھے اس آخری موقف پر ہی بات کرنی ہے۔
اگر واقعی یہی پوزیشن ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے سے دستبردار ہوجائے اور کشمیریوں کو بھارت کے ساتھ اپنا معاملہ خود طے کرنے دے۔ تاہم ایک لمحہ ٹھہر کر ذرا اس موقف کے دیگر لازمی نتائج پر بھی غور کرلیں۔
اس موقف کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آزاد کشمیر اور گلگت-بلتستان سے بھی دستبردار ہوجائے کیونکہ یہ دونوں علاقے بھی ریاستِ جموں و کشمیر کا حصہ تھے اور کشمیر کے بڑے سوال کا ایک جزو ہیں۔ پھر اس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بھی دیکھ لیں کہ اس کے اثرات آپ کے دریاؤں پر، اور ان دریاؤں کے ذریعے آپ کی زراعت اور پھر معیشت پر ، کیا مرتب ہوں گے اور اس سے بھی بڑھ کر "سی پیک” کا کیا بنے گا؟
یہ تو اس موقف کے لازمی طور مرتب ہونے والے وہ منطقی نتائج ہیں جن کا اثر آپ کی معیشت پر مرتب ہوگا۔ گویا یہ خالص مادی اور مفاد پرستانہ نقطۂ نظر ہوا ۔ اس خالص مادی اور مفاد پرستانہ نقطۂ نظر سے بھی پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کشمیر پر فریق کی پوزیشن سے نیچے آکر محض "سہولت کار” کی حیثیت اختیار کر لے۔
تاہم اس مسئلے کا سب سے اہم پہلو وہ انسانی المیہ ہے جو اس خطۂ زمین پر رونما ہوچکا ہے۔ اس انسانی المیہ کے رونما ہونے میں اگر تاجِ برطانیہ کا کلیدی کردار رہا اور پھر اس کے بعد اس کی ذمہ داری بھارت کے ظلم و ستم پر عائد ہوتی ہے تو یہ بھی اپنی جگہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان ، خواہی نخواہی، اس المیے کی ذمہ داری اٹھانے میں حصہ دار ہے۔
اب اتنا کچھ ہوچکنے کے بعد پاکستان کیسے "میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو” کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے؟ ہلکے سے ہلکے الفاظ میں اسے منافقت، بزدلی اور دوغلا پن ہی کہا جاسکے گا۔ مایوسی پھیلانے والے ان تجزیہ نگاروں سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی قوم اپنے ضمیر پر اتنا بڑا بوجھ اٹھا سکے گی؟
واضح رہے کہ پاکستان کا ابتدا سے آج تک موقف یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف کشمیریوں اور بھارت کے درمیان نہیں ہے بلکہ پاکستان اس مسئلے کا ایک فریق ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا ۔
1947ء کا تقسیمِ ہند کا منصوبہ ہو، قانونِ تقسیمِ ہند ہو، یا (موجودہ) گلگت-بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو، 1948ء میں (موجودہ) آزاد جموں و کشمیر کی آزادی کی جنگ ہو، 1948ء سے 1957ء تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادیں ہوں، 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو، 1966ء کا معاہدۂ تاشقند ہو ، 1971ء کی پاک بھارت جنگ ہو، 1972ء کا شملہ معاہدہ ہو، 1984ء میں سیاچن کی جنگ ہو، 1989ء سے وادیِ کشمیر میں برپا ہونے والی قیامت ہو، 1999ء کی کارگل جنگ ہو یا 2019ء کا پلواما کا واقعہ ہو، ہر ہر موقع پر پاکستان، خواہی یا نخواہی، مسلمہ طور پر یا متنازعہ طور پر، فریق رہا ہے۔
اب اتنا کچھ ہوچکنے کے بعد کیسے پاکستان اچانک بوریا بسترلپیٹ کر کہہ سکتا ہے کہ کشمیری خود کچھ کریں تو ہم مدد کرسکتے ہیں ورنہ ہمارے بس میں تو کچھ نہیں ہے؟! یہ موقف تجزیہ نگاروں کا ہوسکتا ہے لیکن ریاستِ پاکستان کا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کے پاس موجودہ المیے کے تناظر میں کیا آپشن ہیں؟
کچھ آپشنز سیاسی ہیں ، کچھ عدالتی اور کچھ فوجی، اور اہم بات یہ ہے کہ سارے آپشن قانونی ہیں ۔
ایک آپشن یہ ہے ، اور پاکستان پہلے بھی بارہا اس آپشن کو استعمال کرچکا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھائے۔ واضح رہے کہ شملہ معاہدے کے بعد بھارت کا موقف یہ رہا ہے کہ اب اقوامِ متحدہ کی قراردادیں غیرمتعلق ہوگئی ہیں کیونکہ اس معاہدے میں فریقین طے کرچکے ہیں کہ آپس کے تمام تنازعات کا پرامن حل باہمی رضامندی سے تلاش کریں گے ۔
بہ الفاظِ دیگر، بھارت کا موقف یہ ہے کہ شملہ معاہدے نے کشمیر کے تنازعے کو بین الاقوامی تنازعے سے علاقائی تنازعہ بنادیا ہے۔1989ء سے 2001ء تک مقبوضہ کشمیر میں جو قیامت برپا ہوئی اس نے پاکستان کی اس پوزیشن کو مستحکم کردیا کہ یہ تنازعہ بدستور بین الاقوامی ہے ۔
2001ء کے بعد جب پاکستان نے افغانستان اور کشمیر کے مسئلوں پر یوٹرن لیا تو اس کے بعد اب پہلا ایسا موقع ملا ہے جب پاکستان ایک دفعہ پھر یہ کہنے کی پوزیشن میں آگیا ہے کہ یہ تنازعہ بین الاقوامی ہے۔ اتنے اہم موڑ پر یہ موقف اختیار کرنا کہ پاکستان خود کچھ نہ کرے جب تک کشمیری نہ اٹھیں، انتہائی اہم موقع ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے بابِ ہفتم (دفعات 39 تا 51) کے تحت "اجتماعی تحفظ” (Collective Security) کا نظام وضع کیا گیا ہے اور اس باب کے تحت سلامتی کونسل جو فیصلے کرے ان کا ماننا اقوامِ متحدہ کی تنظیم کے تمام ارکان پر لازم ہوتا ہے۔ اس باب کی دفعہ 39 کے تحت تین مواقع پر سلامتی کونسل کارروائی کا اختیار رکھتی ہے:
- جب کوئی ریاست جارحیت کا ارتکاب کرے؛
- جب کوئی ریاست امن کو نقصان پہنچائے؛ یا
- جب کسی ریاست سے بین الاقوامی امن کو خطرہ ہو۔
کیا بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت یک طرفہ طور پر ختم کرنے اور اسے ضم کرنے کے نتیجے میں ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی سبب وجود میں نہیں آچکا، بالخصوص جب بھارت کے اس اقدام سے قبل ہی ، اور اس کے بعد بھی ، سیز فائر لائن پر سخت کشیدگی جاری ہے جو کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے؟
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ سلامتی کونسل میں معاملے اٹھانے اور پھر اس سے مناسب فیصلہ کروانے کےلیے سفارتی جنگ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے پاس اس سفارتی جنگ کے لڑنے کےلیے اس سے بہتر اور کوئی موقع ہو بھی نہیں سکتا۔ بڑی دشواری بڑا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
پچھلے ڈیڑھ مہینے کے ملکی، بھارتی اور بین الاقوامی مآخذ کے بغور جائزے سے میرا تاثر یہ بنا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی کوشش کا بروقت اندازہ لگالیا تھا اور کشمیر میں سیزفائر لائن کے اطراف میں موجودہ کشیدگی کو اسی سیاق میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سے کم تر درجے کا ، لیکن اس کے باوجود مؤثر، آپشن یہ ہے کہ پاکستان سلامتی کونسل میں بابِ ہفتم کے تحت کارروائی کےلیے کوشش کرنے کے بجائے بابِ ششم کے تحت کارروائی کی کوشش کرے۔ بابِ ششم کے تحت منظور شدہ فیصلوں کو وہ حتمیت حاصل نہیں ہوتی جو بابِ ہفتم کے تحت فیصلوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن ان کا بہت زیادہ بین الاقوامی پریشر ضرور ہوتا ہے۔
پھر چونکہ یہ فیصلے بابِ ہفتم کے فیصلوں کی بہ نسبت ہلکے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا منظور کروانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادیں بابِ ششم ہی کے تحت منظور کی گئی تھیں۔
بھارت نے یہ قراردادیں مان کر اور عالمی سطح پر وعدہ کرکے ان کو اپنے اوپر لازم کردیا تھا اور اس وجہ سے اب وہ ان قراردادوں سے جان نہیں چھڑا سکتا۔جیسا کہ عرض کیا، 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے یہ موقف اپنایا کہ اب یہ قراردادیں غیرمتعلق ہوگئیں لیکن نائن الیون کے بعد اب پہلی دفعہ پاکستان کو یہ بھرپور موقع ملا ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر ان قراردادوں کا معاملہ اٹھائے اور ان کا متعلق ہونا منوالے۔
اسی نوعیت کی ایک تاریخی کامیابی پاکستان نے 1957ء میں حاصل کی تھی جب جموں و کشمیر کی نام نہاد دستورساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کےلیے دستور بنا کرا س میں جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قراردیا اور بھارت نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اب استصوابِ راے کی قراردادیں غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔
اس موقع پر پاکستان اس معاملے کو سلامتی کونسل لے گیا اور وہاں سے قرارداد نمبر 122، 123 اور 126 منظور کروائیں جن میں تصریح کی گئی کہ یہ بندوبست استصوابِ رائے کا بدل نہیں ہے اور یہ کہ وہ قراردادیں بدستور متعلق ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اسی نوعیت کی بھرپور کوشش کرکے ایک دفعہ پھر ان قراردادوں کا متعلق ہونا منوالے۔ مجھے حیرت ہے کہ مایوسی پھیلانے والے تجزیہ نگار اس آپشن کو کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں؟
ایک آپشن شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کا معاملہ اٹھانے کا بھی ہے کیونکہ اس معاہدے میں (کشمیر کا نام لیے بغیر) قرار دیا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان موجود مسائل کے حتمی حل تک کوئی فریق یک طرفہ طور پر صورتِ حال کو تبدیل نہیں کرے گا:
Pending the final settlement of any of the problems between the two countries, neither side shall unilaterally alter the situation
کیا بھارت کی جانب سے موجودہ اقدام اس شق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگر ہاں، تو پھر ہمارے پالیسی ساز دیکھ لیں کہ اس معاملے کو کن فورمز پر کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔ اتنی بات بہرحال طے ہے کہ اس شق کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر پاکستان نہ صرف بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرسکتا ہے بلکہ کشمیر کے مسئلے کے حل کےلیے مؤثر حکمتِ عملی بھی طے کرسکتا ہے۔
جہاں تک ان فوجی آپشنز کا تعلق ہے جو قانونی طور پر جائز بھی ہیں، ان پر اگلی کسی تحریر میں بات کریں گے، ان شاء اللہ۔