دعاعظیمی۔۔۔۔۔۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ کلسٹر بم چلانے والی جمہوری حکومت کس بے شرمی سے اقوام عالم کے سامنے اپنی بھیانک تصویر پیش کر رہی ہے مگر کل تلک جو کچھ ہو رہا تھا آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کیا یہ قانون امن کا راستہ کھولے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قانون کے لیے وادی جموں وکشمیر میں اتنا خون بہا؟ کیا یہ قانون کلسٹر بم سے زیادہ خوفناک ہے یا معمول کی بات؟
اس وادی کے متعلق تنازعہ تقسیم پاکستان کے وقت سے ہی چل رہا ہے، کوئی اس کے محل وقوع کے متعلق جاننا چاہے تو اسے یوں بتایا جائے گا:
جموں و کشمیر (کشمیر یا بھارت کے زیر انتظام کشمیر) بھارت کے شمال میں سب سے ریاست ہے جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ پاکستان میں جموں و کشمیر کو اکثر مقبوضہ کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
مودی سرکار نے آج ہی ایک صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ کہلائے گی جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں بھی تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لداخ کو وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا اور اس کی بھی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کا بل بھی پیش کردیا۔ اجلاس کے دوران بھارتی اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید احتجاج کیا۔
بھارتی آئین کی اس شق ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہوجائیں گے، کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں غیرمسلم آبادکار کشمیر میں آباد ہوجائیں گے، جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔
کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ
بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت ہے اور متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں منع ہے۔
آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتا جبکہ صنعتی کارخانے اور ڈیم کے لیے اراضی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی، جغرافیائی اور مذہبی صورتحال یکسر تبدیل ہوجائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی اور وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسایا جائے گا۔
اس صدارتی آرڈیننس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ایک بار پھر ریاستی دہشت گردی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ وادی بھر میں انٹرنیٹ، موبائل فون سروس، لینڈ لائن فون اور ہر طرح کا مواصلاتی رابطہ کاٹ کر علاقے کو محصور کیا جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کے دل شکوک وشبہات اور خطرات سے بھرگئے، ان کی تشویش اور بےچینی فطری عمل ہے۔ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جاۓ والی کیفیت ہے۔ اسے اخوت کہتے ہیں۔
اس وقت بھی جموں وکشمیر کے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ ہے اور آزادی کی تحریک کے راہنمائوں کو نظربند کیا جا چکا ہے۔ اس میں کوئئ شک نہیں کہ اس تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے کشمیریوں کی چوتھی نسل خون کا نذرانہ پیش کر رہی ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج میں اضافہ اور کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا عمل امریکہ کی جانب سے کشمیر ایشو پر پاکستان بھارت کے درمیان مذاکرات اور ثالثی کی پیشکش سے شروع ہوا۔ بھارت نے طاقت کا اندھا دھند استعمال اور وادی کی خصوصی حیثیت کو بدلنے کی سازش کی ہے تاکہ کل کو مذاکرات کی میز پر اسے ناکامی کا سامنا نہ ہو۔
نہیں معلوم کہ عالمی طاقتوں کا خفیہ گٹھ جوڑ ہے کہ وہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر تنائو کو ہوا دے رہی ہیں یا فطرت کا قانون ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا ہے مرگ مفاجات۔
اقوام عالم کا وہی اصول راہنما ہے
میں تم کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و ثنا اول طاوس و رباب آخر
ایک بار پھر پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ایسے مواقع پر تدبیر،ہوش مندی، اتحاد اور یگانت کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ کلسٹر بم استعمال کرنے والے دشمن کی ہر سازش ناکام ہو اور عالمی برادری بےضمیری اور بےحسی کے خول سے باہر آئے۔ سوال یہ ہے کہ وہ سورج کب طلوع ہو گا جب تمام انسان انسانیت کے جھنڈے تلے ایک ہو جائیں گے؟