ڈاکٹرعاصم اللہ بخش۔۔۔۔
چند روز پہلے کی بات ہے ایک دوست نے واٹس ایپ پر ایک لنک بھیجا اور کہا اسے دیکھیں۔ میں نے کلک کیا لیکن مذکورہ لنک کھلا نہیں۔ پوچھا، کیا تھا اس میں۔ میرا خیال تھا یہ ویسا ہی کچھ ہو گا جو واٹس ایپ پر سارا دن گردش در گردش میں رہتا ہے۔ کہنے لگے یہ ایک انگریزی کی فلم ہے، اس کا نام بتایا۔ گزشتہ شب وہ فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
فلم کی کہانی نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ، بالخصوص بوسنیا ہرژیگووینا میں خانہ جنگی کے دوران ایک جوڑے کو پیش آئے واقعات پر مبنی ہے۔ یہ فکشن ہے سچا واقعہ نہیں اور نہ ہی یہ جنگ اس فلم کا موضوع ہے۔ بس یہ کہ فلم کی کہانی چلتی رہتی ہے اور آپ اس جنگ کی حشر سامانیوں سے بھی آگاہ ہوتے رہتےہیں۔
اس فلم کا ہیرو امریکی ہے لیکن بوسنیا میں موجود ہے۔ بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں مکمل امن ہے لیکن ہیرو حالات کے متعلق متفکر ہے اور اپنی اس تشویش کا اظہار ایک مقامی دوست سے کرتا ہے۔ دوست اس کی بات کو ہنسی میں اڑا دیتا ہے اور کہتا ہے تمہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ سراجیوو میں ایسا کچھ نہیں، اور سراجیوو میں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ یہاں ہر سو امن ہے اس شہر کی جانب کوئی دیکھے گا بھی نہیں۔
اس موقع پر ہیرو خود کلامی کے انداز میں کہتا ہے کاش تم جانتے جنگ تو دیہات میں شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔ جنگ تو فٹبال کے اسٹیڈیمز میں شروع ہوتی ہے۔ گویا خانہ جنگی کا آغاز ہمیشہ مرکز یا بڑے شہروں سے دور ہوتا ہے اور جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے تو باہمی تقسیم اپنے عروج پر ہوتی ہے۔۔۔۔
یہاں تک کہ کھیل کے میدانوں کا اختلاف اور کشمکش بھی اسی انتشار اور باہمی چپقلش کا عکاس بن جاتا ہے۔ وہ محض کھیل کی مسابقت سے بڑھ کر گروہی تقسیم کی آئینہ دار بننے لگتا ہے۔ اب مقصد نہ تو بہتری رہتا ہے اور نہ تبادلہ خیال۔۔۔ اب یہ ایک لڑائی ہے جو ہتھیار کے بجائے الفاظ سے لڑی جارہی ہے۔
فلم کے ہیرو کے ان الفاظ نے گویا مجھے مبہوت کر دیا۔۔۔ مجھے وہ قول یاد آنے لگا کہ بندہ بھی کس درجہ غافل ہے، وہ اپنے حال میں مست دنیا کی فکر میں سرگرداں ہوتا ہے، جبکہ بازار کی کسی دکان میں اس کے کفن کا کپڑا پہنچ چکا ہوتا ہے۔
آج ہم سب جانتے ہیں کہ بوسنیا پر کیا بیتی ، امن کے گڑھ سراجیوو میں کیسا الم ناک قتل عام ہؤا۔ لاتعداد بے گناہ مارے گئے۔ سب کچھ تباہ ہو گیا
میرا دھیان بار بار اپنے حالات کی طرف جاتا ہے کہ امن کے جزیروں کی مانند بڑے شہروں کا سکون ہمیں غافل کیے دے رہا ہے جبکہ پاکستان کے شمال اور جنوب مغرب میں حالات اچھے نہیں۔
فٹ بال اسٹیدیم کی کسر ہم سوشل میڈیا پر پوری کیے دے رہے ہیں۔ لہجہ، آہنگ، طرز تکلم ۔۔۔ گویا بس نہیں چلتا کہ سکرین سے برآمد ہو کر گریبان ہی پکڑ لیں۔ یہ اب صرف بحث و تمحیث نہیں ۔۔۔ نفرت اور انتقام کا مظہر ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی کسی تباہی کے راستے پر تو نہیں چل رہے جہاں کسی مرحلہ پر اچانک حالات کی رفتار قابو سے باہر ہوجائے؟ ضروری نہیں کہ خود پر ہی بیتے تو ہم سمجھیں ۔۔۔۔
لسانی، فرقہ وارانہ، سیاسی جنگوں کے شاخسانے آج جابجا اس کرہ ارض پر بکھرے پڑے ہیں، خاص کر مسلم دنیا میں۔ خود کو کسی بھی "اعلیٰ مقصد” کے نام پر جذباتیت کا ایندھن بنانے سے پہلے ایک نظر ان کی جانب بھی دیکھ لیں ۔۔۔۔ حصولِ عبرت کے لیے !
ایک تبصرہ برائے “ایک فلم جس کے ڈائیلاگ نے مجھے مبہوت کردیا”
تحریر بہت الجھی ھوئی ھے ۔ کلئیر نہیں ھوا کہ رائٹر کا میسیج یا انسپائریشن کیا ھے؟ اور فلم کا نام چھپانے میں کیا مصلحت درپیش ھے؟
آپ کسی کتاب یا فلم سے متاثر ھو کر مضمون تو لکھ دیتے ہیں لیکن اس کا نام قارئین کو بتانا پسند نہیں کرتے کیوں ؟