دعاعظیمی۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ ہرگز نہیں کہوں گی کہ ہم چوں چوں کا مربہ ہیں بلکہ ہم تو کٹ کٹ کٹاک کو بھی مات دے دیں۔ ہم رائی کا پہاڑ اور اچار دونوں بیک جنبش بنا سکتی ہیں۔ ب سے بات اور بات کابتنگڑ بنانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ عورتوں کی وہ عادت جس سے وہ خود بھی نالاں ہیں۔
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں، کبھی سوچا تو نہ تھا کہ جام شہادت ایسے نوش کرنا بھی ہماری قسمت میں لکھا ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی ہم پرانے پاپی ہیں، جام شہادت ہمارے نصیب میں کہاں البتہ قتل عمد کسی سے سرزد ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔
کون اپنی ہی صنف کی برائیاں کرتا ہے بھلا ، یہ کوئی ہم سا ہی میر جعفر ہے ورنہ یہ ہی خیر موضوع ہے،عورتوں کی وہ برائیاں جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔
سوچ بچار
سوچ بچار کرنا بھی ضروری ہے اکثر ایسی باتوں پر جو ہونے والی ہیں یا ہو چکی ہیں۔
حالات حاضرہ کی بجائے ان کی سوئی ہمیشہ ماضی کے کسی واقعے میں پھنسی ہوتی یا مستقبل کے کسی اندیشے میں الجھی ہوتی ہے۔
مقابلہ بازی
شو مارنے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتیں۔ اگر ان کے میاں جرنیل ہیں تو سمجھو میدان کی فاتح یہی ٹھہریں، اگر ڈاکٹر کی زوجہ ہیں تو نسخہ ہائے طب ان کے ہاتھ کی میل، اگر تاجر ہیں تو بیگم صاحبہ ہی مالک ہیں، اگر استاد ہیں تو دستارفضیلت ان ہی کے سر اور اگر حسین بھی ہیں تو ان کے نخرے لوکوں وکھرے اور اگر پیسہ دولت تو نہ صرف دولت ان کے گھر کی باندی بلکہ ہر کوئی ان کی باندی، جو خود پڑھی لکھی ہیں تو آپ شاگردی کے لیے تیار رہیں…جانے نعمتیں جذب کرنے کا ملکہ کم کیوں ہے ان میں، مطلب ہم میں۔ اچھلنا بھی ٹھیک پر حد بھی تو مقرر ہو..
واقعات پر ٹھنڈے طریقے سے غور نہیں کرتی۔ جہاں غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے وہاں جذبات امنڈ آتے ہیں ساون بھادوں کے بادلوں کی طرح اور جہاں جذبات آنے کی بات ہو وہاں سونامی کے خطرات ابھر آتے ہیں۔ اکثر مکس جذبات کا شکار ہوجاتی ہیں جیسے خوشی غمی اداسی اور جذبات احساسات اور خیالات کو ایسے اکٹھا کرتی ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ سرا ہاتھ میں آنا کہاں سے ہے۔
جس کی وجہ سے ان کی ذہانت متاثر ہوجاتی ہے۔ اکثر ان باتوں کی طرف توجہ دیتی ہیں جنہیں نظرانداز کرنا چاہیے۔ جتنی مرضی متوکل ہوں سہمی رہتی ہیں، محدود انداز نظر سے دیکھتی ہیں۔ حالانکہ زندگی کا ایک سرا غیب کےہاتھ میں ہے تو ہمیشہ اچھے ہی کی امید رکھنی چاہیے۔۔۔یا جب تک برا ہونہ جائے۔ دراصل سب زیادہ سوچنے کے سبب ہے۔
ان کے ہاں باریک چھاننی لگی ہوتی ہے۔ چیزوں،رویوں اور انسانوں کو باریک چھاننی سے گزر کے ان کی سمجھ شریف میں آناپڑتا ہے۔
یہ نازک خیال مہ وشیں جلدی برا مان جاتی ہیں، جلدی روٹھ جاتی ہیں۔ کبھی کبھار نوبت کوسنوں اور بد دعائوں تک پہنچا دیتی ہیں۔۔۔۔۔بس! کہنے کو بہت کچھ باقی ہے مگر جگ ہنسائی نہ ہو جائے اس لئے خاموش۔
یہ جرات رندانہ اور ہم جو ہمیں اچھے سے جانتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم سچ برتنے کے معاملے میں اتنے کورے ہیں جتنا کاغذ ۔ کبھی کبھار ضمیر کی محفل میں تو خود پہ منافقت کا الزام لگا بیٹھتے ہیں، پھر دلائل ہمارے حق میں یوں چلے آتے ہیں جیسے چھوہارے نکاح کی تقریب میں۔
بڑی مشکل سے منافقت سے مروت کا سفر طے کرتے ہوئے بال بال اور بار بار ضمیر کی عدالت سے باعزت بری ہوتے ہوتے رہ جاتے ہیں۔ ایک اعتبار سے ہم تھوڑے منافق ہی ہیں کہ دوسرے کی دل آزاری کے خیال سے آدھا جھوٹ بھی بول جاتے ہیں اور پورا سچ کہنا ہمیں کبھی نصیب ہی نہ ہوا ۔