سفرنامہ ترکی، قسط دوم
ڈاکٹر انس فرحان قاضی۔۔۔۔۔۔
چین کو چینی زبان میں چونگ کُووہ 中国 کہتے ہیں۔ چونگ 中 کا مطلب ہے درمیانی (middle) اور کوُوہ国 کا مطلب ہے سلطنت (kingdom). یہ تصور یا غلط فہمی تقریباً تمام تہذیبوں کو رہی ہے کہ وہ دُنیا کے وسط میں سب سے اہم تہذیب ہے۔
صحیح معنوں میں اگر دُنیا کے وسط میں مِڈل کِنگڈَم کہلانے کے قابِل کوئی جگہ ہے تو وہ تُرکی ہے۔ مشرق و مغرِب میں یورپ اور ایشیا کو مِلاتا ہوُا اور شمال و جنوُب میں روُس اور بحیرۂ روم (mediterranian) کے ذریعے افریقہ کو مِلاتا ہوُا مُلک۔
اِنسانی تاریخ کی پہلی آبادی جو شِکار کے ذریعے گُزر بسر کرتی تھی ، یہیں دریافت ہوُئی ہے۔ اِس دریافت کو زیرو پوائنٹ اِن ٹائم یا اِنسانیت کی ابتدا کہا جارہا ہے اور یہ تصوّر تبدیل ہو رہا ہے کہ اِنسان نے مِل جُل کر آبادی بنانے کا آغاز کھیتی باڑی سیکھنے کے بعد کیا۔
ہِندوُ گائے کی تعظیم اور پوُجا کی تُک بندی اِسی طرح کرتے ہیں کہ اِنسان نے تہذیب کی ابتدا گائے مِلنے کے بعد اس کے ذریعے کھیتی باڑی سے شروع کی۔ اس سے قبل ہر جانور اِنسان کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا تھا اور اسے شِکار کرنا پڑتا تھا۔ گائے اِنسان کو دیکھ کر رُک گئی اور اِنسان کھیتی باڑی کے ذریعے اپنی خوراک کا بندوبست کرنے لگا۔ پُرانا تصوّر یہ تھا کہ یہیں سے تہذیب کا آغاز ہوُا۔ اب تُرکی میں دریافت شُدہ اِن آثار نے ثابت کیا ہے کہ اِنسان اس سے پہلے بھی مہذّب تھا اور مِل جُل کر آبادی بنا کر رہتا تھا۔
حضرت نوُح علیہ السّلام کی کشتی کے آثار بھی تُرکی میں کوہِ ارارات پر بتائے جاتے ہیں۔
یہ خِطّہ ہر زمانے کی سب سے برتر تہذیب کے زیرِ اقتدار رہا ہے اِس لیے اس کی تاریخ اور تاریخی آثار انتہائی دلچسپ ہیں۔ قبل مسیح کی ہزاروں سال پُرانی لِڈیا اور میڈیا کی ریاستوں کے آثار بھی موجوُد ہیں۔ ان ریاستوں کو سائرس (جِنہیں قرآن مجید میں مذکوُر ذوالقرنین سمجھا اور کہا جاتا ہے) نے تسخیر کر کے عملاً پوُری دُنیا پر حکمرانی قائم کی۔
دروغ بر گردنِ راوی ، نوُح علیہ السّلام کے پوتے کنعان کے بیٹے حیث یا ہیتھ (heth) کی اولاد نے ہیتائت تہذیب کی بُنیاد رکھی ، جِس کا مرکز ھتوشا نامی شہر تھا۔ اِس شہر کے قریباً آٹھ ہزار برس پُرانے (5700 قبل مسیح کے) آثار تُرکی کے بوعازکلے نامی شہر کے پاس موجوُد ہیں۔
کنعان نوُح علیہالسّلام کے بیٹے ھام کے بیٹے تھے اور نمروُد بادشاہ کے چچا تھے۔
ہیتائت تہذیب 1200 قبل مسیح تک اناطولیہ پر غالب رہی جِس کے بعد لیڈیا کی سلطنت نے یہاں غلبہ حاصِل کر لیا۔ لیڈیا اپنے وقت کی سب سے ترقّی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی۔ سِکّہ سب سے پہلے لیڈیا کی تہذیب نے جاری کیا جو سونے اور چاندی کے بنے ہوتے تھے۔
دُنیا میں سب سے پہلے مُستقل دُکانیں بنا کر کاروبار کرنا لیڈیا میں شروع ہوا۔ خط کِتابت کے لیے پارچمنٹ یا پرچے بنانے کا کام بھی لیڈیا میں شروع ہوُا جِس کے بعد دُنیا کی سب سے بڑی لائبریریوں میں سے ایک یہاں قائم ہوُئی۔ لیڈیا کی دولت کے چرچے ہر سمت پھیلے ہوُئے تھے جب لیڈیا نے سائرس کی سلطنت پر حملہ کرنے کی غلطی کی۔ سائرس نے لیڈیا کی سلطنت کو ختم کر دیا۔ وہ ایک عادِل بادشاہ تھا جو اُس وقت کی تقریباً تمام دُنیا کا حاکم تھا اور جِس نے یاجُوج ماجُوج کو روکنے والی دیوار بھی تعمیر کی۔
سائرس کے بعد ایرانی اپنا غلبہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رکھ سکے اور اناطولیہ تہذیبوں کا اکھاڑہ بنا رہا۔ سِکندرِاعظم کی آمد کے بعد یہاں یوُنانی برتری قائم ہوُئی۔ اس کے بعد روُمی بازنطین سلطنتیں قائم ہوُئیں۔
روُمی دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تعلیمات اور توحید کے عقیدے کی طرف حواری برناباس نے دعوت دی تو کُچھ لوگ اُن پر ایمان لائے۔ برناباس کو یہودیوں کے اُکسانے پر شہید کر دیا گیا۔ برناباس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے صحیح العقیدہ توحید پرستوں نے کاپاڈوکیا میں روُمیوں کے ظلم سے پناہ حاصل کی۔
برناباس کے ساتھ پال نامی یہوُدی جو حواری ہونے کا دعویدار تھا نے 31 عیسوی سال میں دعویٰ کیا کہ اُس کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے آکر بتایا ہے کہ وہ خُدا کے بیٹے ہیں (نعوُذُ بِاللہ)۔ یہی پال دراصل موجوُدہ عیسائیت کا بانی ہے۔ اِس نے لوگوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلّق گُمراہ کرنا شروع کیا اور تثلیث کا باطِل عقیدہ ایجاد کیا۔
پال کا ایجاد کردہ یہ مذہب اناطولیہ میں جڑیں پکڑتا رہا ، یہاں تک کہ قنسطنطنیہ کے بانی روُمی بازنطین شہنشاہ قنسطنطین نے یہ مذہب قبوُل کر کے اس کو روُمیوں کے سرکاری مذہب کی حیثیت دِلا دی۔ اِس لحاظ سے موجوُدہ تُرکی عیسائیت کی جائے پیدائش ہے اور عیسائی دُنیا یہاں مُسلِم غلبے سے اُس سے کہیں زیادہ دِل گرفتہ ہے جتنے مُسلمان ہسپانیہ پر عیسائی غلبے سے۔
بِالآخر سلجُوقوں نے دُنیا کے اِس مرکز کو اِسلام کی جھولی میں ڈال دیا۔ سلجوُق سلطنت کا دارالخلافہ قونیہ تھا جو آج کل روُمی (جِن کی فکر کا علّامہ اقبال کے کلام پر گہرا اثر ہے) کے مزار کی وجہ سے مشہوُر ہے۔
بازنطین سلطنت کا خاتمہ عُثمانیوں کے ہاتھوں ہوُا جب سُلطان محمّد فاتح نے اِس کے تقریباً ناقابلِ تسخیر مرکز کو حیرت انگیز طریقے سے فتح کر لیا جِسے آج ہم استنبول کے نام سے جانتے ہیں۔
ہر تہذیب ، نئی ایجادات اور تعمیرات کی نشانیاں یہاں چھوڑ کر گیا اور آج آپ کو اِنسانیت کا اتنا تاریخی وِرثہ دُنیا میں شاید کہیں اور نہ مِلے۔
تُرکی حقیقی معنوں میں مِڈل کِنگڈَم ہے۔ یہ جعرافیائی طور پر دُنیا کے وسط میں ہے۔ مُسلمانوں کو قرآنِ کریم میں اُمّتِ وسط کہا گیا ہے اور تُرکی مسلمانوں کی اُمّیدوں کا بھی مرکز ہے۔
(طوالت کیلیے انتہائی معذرت خواہ ہوُں لیکن تُرکی کی تاریخ اِنسان کی تاریخ ہے جِس میں اختصار ممکن ہی نہیں۔ اِس تاریخ کو سمیٹنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔)