محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔
ڈارون صاحب نے تحقیق کی اور انسانوں کا ناتا بندروں سے جوڑ دیا۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ بندر ترقی کرکے انسان بن گئے اور جھوم جھوم کر ”تبدیلی آئی رےتبدیلی آئی رے“ گانے لگے۔
اگر یہ بات سچ ہے، بھلے بات ہو رسوائی کی، تو صاحب! کہنا پڑے گا کہ بندروں نے کمال کردیا، ورنہ یہاں تو آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر سب کے سب بندر ارتقاءکرکے انسان کیوں نہ بن پائے؟
ممکن ہے باضمیر بندروں نے اپنی نوع یا پارٹی بدلنے سے انکار کردیا ہو۔ ان بندروں نے جب انسانوں کا حال دیکھا ہوگا تو طنزاً کہا ہوگا،
”کہو میاں!کیا پایا انساں ہوکے۔“ خیر یہ اُن بندروں کی مرضی جنھوں نے ارتقاءقبول نہ کیا، ہم کون ہوتے ہیں ان بندروں سے یہ کہنے والے کہ بندے بن جائو، مگر بندے بنو یا نہ بنو کم ازکم ہم انسانوں کو تنگ تو نہ کرو، اس کام کے لیے تم دور کے رشتے داروں کی ضرورت نہیں ہمارے قریب کے رشتے دار کافی ہیں۔ بندروں سے یہ درخواست ہمیں راولپنڈی میں ان کی حرکتوں کی وجہ سے کرنی پڑی۔
ایک خبر کے مطابق کچھ روز قبل چار جنگلی بندروں نے راولپنڈی کے نواحی علاقے رتہ امرال میں تباہی مچادی اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلادیا۔ ان بندروں نے گائیوں اور مُرغیوں پر حملہ کیا اور انھیں زخمی کردیا۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ بندر علاقے میں نصب موبائل ٹاور پر چڑھ گئے اور وہاں سے گھروں کی چھتوں پر کود پڑے۔
ان کے خوف سے لوگوں نے بچوں کو گھر سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ گویا علاقے پر ان کی عمل داری قائم ہو گئی اور انھوں نے کُھلم کُھلا حکومت کی رِٹ کو چیلنج کردیا۔ ان کا ہلّہ راولپنڈی کی اس مضافاتی بستی ہی تک محدود نہیں رہا بل کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق ان باغی بندروں نے اسلام آباد کی اسٹریٹ لائٹس بھی توڑ دیں۔
خبر میں ان حملہ آوروں کو ”جنگلی بندر“ کہا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں شہری بندر بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ بندر مہذب اور متمدن ہیں، اس لیے بڑی تمیز سے چھلانگ لگاکر ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر جابیٹھتے ہیں، اور اپنی اس نقل مکانی یا ”فلور کراسنگ“ کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔
یہ اسٹریٹ لائٹس نہیں توڑتے مال توڑتے ہیں، تاہم اس مہذبانہ رویے کے باوجود شہری بندروں کو انسان سمجھنا غلطی ہوگی، کیوں کہ ان کے دُم ہوتی ہے، جسے بہ وقت ضرورت یہ اظہاروفاداری کے لیے یہ خوب ہلاتے ہیں۔
رہی بات جنگلی بندروں کی یلغار کی، تو ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے کہ وہ اسلام آباد تک جاپہنچے، لیکن اس میں حیرت کیسی، ”راولپنڈی“ تک رسائی ہوجائے تو اسلام آباد پہنچنا کیا مشکل۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بندروں نے یہ اُدھم کیوں مچایا؟ انھیں کس بات پر غصہ تھا؟ کیا وہ احتجاج کر رہے تھے؟ مگر کیوں اور کس کے خلاف؟
حکومت کے مخالفین کہیں گے کہ یہ منہگائی اور بجٹ کے خلاف احتجاج تھاکوئی نئیں بھئی کوئی نئیں بھلا بندروں پر منہگائی اور بجٹ کا کیا اثر ہونا ہے! گویا ”بندر کیا جانے بجٹ کا مزہ۔“ منہگائی ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے، انھیں نہ کچھ خرید کر کھانا ہوتا ہے، نہ رہنے کے لیے مکان چاہیے، پیٹرول بجلی، گیس، موبائل فون اور انٹرنیٹ سے بھی ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔
سُنا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھانے کا ارادہ رکھتے تھے اور منتظر تھے کہ کوئی اعلان کرے ”مجھے بندر کے بچوں کو پڑھانا ہے“ مگر جب انھوں نے آکسفورڈ کے پڑھوں کو جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملاتے، ٹیگور کو خلیل جبران بناتے اور سال کے بارہ موسم لاتے دیکھا تو سوچ لیا کہ ایسی پڑھائی سے بہتر ہے کہ ہمارے بچے درختوں پر چڑھائی ہی کا سبق سیکھ لیں۔
سو انھیں پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں بھی نہیں بھرنا پڑتیں۔ رہ گئی بندربانٹ تو اس کے لیے درختوں پر لدے پھل مُفت کا مال ہیں، انھیں اُس سرکاری بندربانٹ سے کوئی سروکار نہیں جس میں وزیروں مشیروں کی تعداد بڑھانا، مخالف جماعت کے ارکان توڑ کر ملانا اور اتحادیوں کے ناز اُٹھانا لازمی ہوتا ہے۔ پس تو ثابت ہوا کہ ان بندروں کا احتجاج منہگائی کے خلاف بھی نہیں تھا۔
اوہو، کہیں یہ فیاض الحسن چوہان کو وزیرجنگلات بنانے پر اظہاربرہمی تو نہیں تھا؟ موصوف عریانیت کے سخت خلاف ہیں، اس باعث انھوں نے اپنی فراغت سے پہلے والی وزارت کے دوران ایک فلم کے پوسٹرز کو اور اداکارہ نرگس کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ ممکن ہے جنگلات کی وزارت سنبھالنے کے بعد جانوروں کے ننگے گھومنے پر یہ کہہ کر اعتراض کردیا ہونکلو نہ ”بے حجاب“ زمانہ خراب ہے، جس پر بندروں کو غصہ آگیا۔
وجہ جو بھی ہو، مگر حیران کُن امر ہے کہ بندروں نے گائیوں اور مرغیوں پر کیوں حملہ کیا اور اسٹریٹ لائٹس کیوں توڑیں؟
ہمارے خیال میں ان بندروں کو وزیراعظم کے ”مُرغی، گائے، بکریاں پال پروگرام“ پر اعتراض ہے۔ ان کا مطالبہ ہوگا کہ وزیراعظم نے اپنے اس ”پال“ پروگرام میں بندروں کو کیوں شامل نہیں کیا۔
اب بندروں کو کون سمجھائے کہ نہ تم انڈا دو نہ بچہ، نہ دودھ دیتے ہو نہ کھائے جاتے ہو، زیادہ سے زیادہ ڈُگڈگی پر نچائے جاتے ہو، اور ڈُگڈگی پر ناچنے والوں کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اور تمھاری طرح مالک پر حملہ نہیں کرتے، بڑی شرافت سے پلتے ہیں۔
اور اگر تم نے یہ سوچ کر اسٹریٹ لائٹس توڑیں کہ ثابت کرنا چاہتے ہو بڑے کام کے ہو اور جب چاہو گے اندھیر مچادو گے، تو اے پیارے بندرو! تم کتنے بھولے ”بھالو“ ہو۔ تمھاری اس خدمت کی کسے ضرورت، یہاں تو پہلے ہی اندھیرنگری چوپٹ راج ہے۔