مترجم: حمزہ حسن شیخ
ہم دوپہر سے کچھ دیر پہلے اریزو پہنچے اور وہاں پر قلعہ رینائزئنس کو دیکھتے ہوئے دو گھنٹے گزار دیے۔ وینزویلاکے ادیب میگوئیل اوٹیرو سیلواہمیں جوسسین کے گردونواح کے اس سادہ و دلکش کونے میں لائے تھے۔ یہ اگست کے ابتدائی دنوں کی ایک جلتی اور سُلگتی اتوار تھی اوروہاں پہ کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا آسان نہ تھا جو ان سیاحوں سے اٹی گلیوں کے بارے میں کچھ جانتاہو۔
کئی لاحاصل کوششوں کے بعد، ہم واپس کار کی جانب گئے اور بغیر کوئی نشان چھوڑے اُس سڑک سے شہر کی جانب نکلے جو قدآور سروکے درختوں سے سجی تھی۔ ایک بوڑھی عورت جو بطخوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی، اس سے ہم نے قلعے کا پتہ پوچھا۔ خدا حافظ کہنے سے پہلے اس نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہمارا وہاں رُکنے یا سونے کاارادہ ہے اور ہم نے جواب دیا کہ ہم صرف دوپہرکے کھانے کے لیے جارہے ہیں جو کہ ہمارا اصل مقصد تھا۔
’’یہ بہت اچھی بات ہے۔‘‘اس نے کہا۔’’کیوں کہ اس گھر پر جن بھوتوں کا قبضہ ہے۔‘‘
میری بیوی اور میں جو کہ ان چیزوں پر بالکل یقین نہیں رکھتے ،ہمیں اس کی ضعیف الاعتقادی پر ہنسی آئی۔ لیکن ہمارے سات سالہ اور نوسالہ دوبیٹے حقیقت میں بھوت سے ملنے کے خیال پر بہت محظوظ ہوئے۔
میگوئیل اوٹیرو سیلواجو ایک شاندار میزبان اور خوش خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ ادیب بھی ہیں، ایک ناقابلِ فراموش کھانے کے ساتھ ہمارا انتظار کررہے تھے۔ چوں کہ ہم دیر سے پہنچے اس لیے کھانا کھانے سے پہلے ہمارے پاس قلعہ دیکھنے کا کوئی وقت نہ تھا لیکن اس کی بیرونی حالت بالکل بھی خوفناک نہ تھی اور اس پورے شہر کے بارے میں کسی بھی قسم کی بے چینی دُور ہوگئی۔
پھولوں کی روش سے سجی جگہ پر ہم نے کھانا کھایا۔ یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ اتنے ذہین و فطین لوگ اس پہاڑی پر پیداہوئے تھے جو کہ گھروں سے گھِری تھی اور جس کی آبادی بمشکل 90ہزار لوگوں پر مشتمل تھی تاہم میگوئیل نے قریباً مزاحیہ لہجے میں کہا کہ ان میں کوئی بھی اریزوکا قابل ذکر شہری نہ تھا۔
’’ان سب میں سے عظیم،‘‘اس نے کہا،’’ لڈوویکو تھا۔‘‘
اسی کی طرح کوئی بھی خاندانی نام تھا۔لڈوویکو فنون اور جنگ کا ایک عظیم بانی تھا جس نے اپنے دکھ و مصائب سے یہ قلعہ تعمیرکیااور جس کے بارے میں میگوئیلکھانے کے دوران بولتارہا۔
اُس نے ہمیں لڈوویکوکی لازوال طاقت کے بارے میں، اُ س کی مشکلات سے بھرپور محبت اور اس کی خوفناک موت کے بارے میں بتایا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ دل کی دیوانگی کے لمحے میں کیا ہُواتھا۔ اس نے اپنی بیوی کو بسترپرخنجرگھونپ دیا اور پھرپاگل اور غصیلے کتے خود پر چھوڑ دیے تھے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ اس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ ہمیں یقین دلایا کہ آدھی رات کے بعدلڈوویکوکا بھوت اس گھر کے اندھیرے میں بھٹکتا ہے اور وہ اپنی محبت کے اضطراب کو سکون دینے کی کوشش کرتاہے۔
قلعہ واقعی ہی بہت اداس اور بڑاتھا۔ لیکن دن کی روشنی میں بھرے ہوئے پیٹ اور مطمئن دل کے ساتھ میگوئیل کی یہ کہانی بھی اُن باتوں کی صرف ایک جھلک دکھائی دی جو اکثروہ اپنے مہمانوں کو لطف اندوز کرنے کے لیے کرتاتھا۔ ہمارے قیلولے کے بعد ہم نے اس بدقسمتی کے احساس کے ساتھ ان بیاسی کمروں کو دیکھا جو کہ مالکان کی کامیابی کے ساتھ کئی تبدیلیوں سے گُزرچکے تھے۔
میگوئیل نے پہلی منزل کو مکمل طورپر نئے سرے سے تعمیر کیاتھااور اس میں ماربل کے فرش، ایک چھوٹے تالاب اور ورزشی آلات کے ساتھ جدید طرزکے کمرے بنائے تھے۔ اس کے علاوہ بالکونی دلکش پھولوں سے اَٹی تھی جہاں پر ہم نے کھاناکھایاتھا۔
دوسری منزل جو کہ صدیوں تک استعمال ہوئی تھی، بے ترتیب کمروں پر مشتمل تھی جس کا سازوسامان مختلف وقتوں کا تھا جن کو اُن کی اپنی قسمت پر چھوڑدیاگیاتھا۔لیکن سب سے اوپر والی منزل پر ہم نے ایک کمرہ دیکھا جس کو دراصل محفوظ کیاگیاتھا اورجسے وقت نے بالکل ہی بھُلادیاتھا اور یہ لڈوویکوکا سونے کا کمرہ تھا۔
یہ لمحہ جادوئی تھا، وہاں پر بسترتھااور اس کے پردوں پر سنہری دھاگے سے کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ بستر کی چادر اور اس کے کنارے اس کے قربانی دینے والے عشق کے سوکھے خون کے ساتھ سجے تھے۔ انگیٹھی میں ٹھنڈی راکھ موجود تھی اور اس کی لکڑی پتھرکی ہوچکی تھی۔ زرہ بکتر اپنے ہتھیاروں کے ساتھ سجے تھے اور ایک سنہرے فریم میں سوچ میں ڈوبے ہوئے ایک نواب کی آئل پینٹنگ لگی تھی ۔جس کو فلورینٹائن کے ماہر نے بنایاتھا اور جو اچھی قسمت نہ ہونے کی وجہ سے اپنا وقت یہیں گزار سکاتھا۔ تاہم جس چیز نے مجھے بہت متاثرکیاتھا وہ تازہ اسٹربریاینز کی ناقابل بیان خوشبو تھی جو کہ اس سونے کے کمرے میں مکمل طورپر چھائی ہوئی تھی۔
تیوزکینی میں موسم گرما کے دن لمبے اور سُست ہیں اور اُفق اپنی جگہ پر رات کے نوبجے تک منجمد رہتاہے۔جب ہم قلعے میں گھومناپھرنا بندکرچکے تو پانچ بج چکے تھے
لیکن میگوئیل ہمیں سین فرانسسکوکے گرجاگھر میں سجی پیریرو ڈیلا فرانسسکا کی تصاویردکھانے کے لیے لے جانے پر اصرار کرتارہا۔ پھر ہم چوک پر بنی آرام گاہ کے نیچے کافی پینے کے لیے بیٹھ گئے۔ اور جب ہم اپنے سوٹ کیس لینے کے لیے آئے تو ہم نے کھانے کو اپنا منتظر پایا۔ اور ہم شام کے کھانے کے لیے رُک گئے۔
جب ہم زردآسمان پرصرف چمکتے ہوئے تارے کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھے تو لڑکوں نے کچن سے برقی روشنیاں اُٹھائیں اور اوپروالی منزل پراندھیرے کوکھوجناشروع کردیا۔ میز پر بیٹھے ہوئے ہم جنگلی گھوڑوں کے سرپٹ دوڑنے کی آوازیں سُن سکتے تھے۔ ماتم کرتے دروازے، خوشی کی چیخیں جو کہ غم زدہ کمروں سیلڈوویکوکو بُلارہی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وہاں سونے کا منحوس خیال پیش کیاتھا۔ ایک خوش خرم میگوئیل اوٹیرو سیلوانے اُن کی حوصلہ افزائی کی اور ہم نے بھی انکار کرنے کی اخلاقی جرأت نہ کی۔
اس کے برعکس مجھے جوخوف تھا، ہم نے بھرپور نیند کے مزے لیے،میں اور میری بیوی پہلی منزل کے سونے کے کمرے میں سوئے جب کہ بچے اس سے ملحقہ کمرے میں سوئے۔ دونوں کمرے جدید طرزِ تعمیر کے تھے اور اُن میں کچھ بھی عجیب و غریب محسوس نہ ہوا۔ جیسے ہی میں نے نیندکے لیے انتظار کیا۔ میں نے ڈرائنگ روم میں لگے گھڑیال کے ساتھ بارہ بے خوابی کے دورے محسوس کیے اور مجھے بطخوں کی دیکھ بھال کرتی اس عورت کی خوفزدہ شبیہ یادآئی۔ لیکن ہم اتنے تھک چکے تھے کہ ہم جلد ہی نیندکی وادی میں کھوگئے۔
ایک نہ ختم ہونے والی نیند میں اورجب سات بجے کے بعد میری آنکھ کھلی تو تابندہ سورج کھڑکی کے راستے اندرجھانک رہاتھا۔ میرے ساتھ میری بیوی معصومیت کے پُرسکون سمندرمیں غوطے لگارہی تھی۔ ’’یہ کیا بیوقوفی ہے؟‘‘ میں نے خود کو کہا،’’کہ اس زمانے میں اور دنوں میں بھی بھوتوں پر یقین ہوناچاہیے۔‘‘
لیکن اسی لمحے مجھے رس بھریوں کی تازہ خوشبو نے اپنی لپیٹ میں لے لیااور میں نے چونک کر انگھیٹی کو دیکھا جس میں راکھ ٹھنڈی ہوچکی تھی اور اس کی لکڑی پتھرکی ہوچکی تھی اورسنہری فریم میں سجی غمزدہ نواب کی تصویرہمیں تین صدیوں سے گھور رہی تھی
کیونکہ ہم پہلی منزل کے سونے کے کمرے میں نہ تھے جہاں ہم پچھلی رات سوئے تھے لیکن اب ہم لڈوویکوکے بسترپر لیٹے تھے، ایک مسہری اور گردآلود پردوں تلے اور جس کے منحوس بستر کی چادریں ابھی بھی اس کے تازہ اور گرم خون سے بھیگی ہوئی تھیں۔