ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔
جی، ڈیل ہو چکی۔۔ پہلے ہی عرض کیا تھا کہ میاں صاحب کبھی بھی سزا کا پورا عرصہ اندر نہیں گزاریں گے، ضرور جلد یا بدیر باہر آئیں گے۔ تو قفس سے پرندے کی آزادی کا وقت اب قریب آ چکا۔
وہ کیسے جناب! کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟
یار، ہم کوئی پولیس، انٹیلی جنس یا ایف آئی اے وغیرہ میں تو ہیں نہیں کہ ثبوت پیش کریں، ماحول کو دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں، اڑتی چڑیا کے پر گننے کی جستجو کرتے ہیں۔ لہٰذا رات بھر بستر پر کروٹ لیتے رہے، کبھی ایک پہلو تو کبھی دوسرے، انگاروں پر لوٹتے رہے۔ بالآخر، صبح جو کان میں آذان کی آواز پڑی تو دماغ کے دریچے بھی کھل گئے اور بات بھی سمجھ میں آگئی۔
وہ کیسے بھائی؟
دیکھو میرے بھائی! جیسے ہر واردات اپنے پیچھے کچھ نشانات چھوڑ جاتی ہے، جیسے پرانے زمانے میں چور اور ڈاکو، مقام واردات پر اپنا شناختی کارڈ اور خنجر بھول جاتے تھے، اسی طرح کل مریم بی بی کی پریس کانفرنس نے بھی ’’جائے وقوعہ‘‘ پر ایک نشانی چھوڑ دی ہے۔
وہ کیا بھائی؟
’شہباز شریف‘۔ اس ڈیل کی سب سے بڑی نشانی شہباز شریف ہے۔ شہباز شریف کا کسی ایسی پریس کانفرنس میں نہ صرف شریک ہونا بلکہ پورا وقت دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہنا جو ’طاقت کے مرکز‘ کے ساتھ ’جنگ‘ چھیڑنے کے مترادف ہو، بتا رہا ہے کہ ڈیل ہو چکی ہے۔ اب جو کچھ ہوگا، محض رسمی اداکاری ہوگی۔
مگر بھائی، سب خانوں کا خان تو مسلسل تڑیاں لگا رہا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا، کسی کو ڈھیل نہیں دوں گا!
او میرے بھولے بابو! بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ ’جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔‘ جب ملک کے ’اصل مالک‘ کوئی فیصلہ کر ڈالیں، تو راستہ خود ہی نکال لیتے ہیں۔ جو اہداف مالکوں کو چاہیے تھے وہ حاصل ہو چکے، لہٰذا، اب کسی ’شریف‘ کو مزید اندر رکھنا، دائمی دردِ سر پالنے کے مترادف ہے۔
اگر یہ ڈیل ہے تو ’مالکوں‘ کو کون سی ایسی مجبوری درپیش تھی؟
دیکھو بھائی، پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ یا اب تحریکِ انصاف ۔۔۔۔ یہ سب آپس میں رشتہ دار اور بھان متی کا کنبہ ہیں۔ ان تینوں کا مقصد اسٹیٹس کو برقرار رکھنا اور سسٹم کو چلانا ہے۔ اور یہی چیز مالکان بھی چاہتے ہیں۔ کہ سسٹم چلتا رہے۔ گاڑی چلتی رہے۔ اس ڈیل سے جو اہداف حاصل کیے جائیں گے وہ یہ ہیں:
نوازشریف کے باہر آنے سے حکومت گرانے، اسپیکر اسمبلی کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے یا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے جیسی دھمکیوں سے نجات مل جائے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے اور سسٹم کو جام کرنے کی دھمکی سے جان چھوٹ جائے گی۔
نون لیگ پیپلزپارٹی سے فاصلہ کر لے گی کیوں کہ نون لیگ کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ موقع پرستی دکھاتی ہے اور اپنے اتحادیوں کو ہمیشہ بیچ منجھدار میں چھوڑ کر کشتی سے چھلانگ لگا لیتی ہے۔
نون لیگ کے فاصلہ کرنے سے پیپلزپارٹی تنہا ہو جائے گی، پھر اس کے ساتھ نمٹنا آسان ہو جائے گا۔ ’زوردار‘ اور ’زردار‘ ون آن ون آمنے سامنے ہوں گے۔ یوں ان کے لیڈروں کا دماغ بھی آسانی سے ٹھکانے لگایا جائے گا۔
اس ڈیل کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں سوائے جج کے کوئی بدنام نہیں ہو رہا، نہ کسی کا نام لیا جا رہا ہے کہ کس نے ان پر دباؤ ڈال کر میاں صاحب کے خلاف فیصلہ کروایا۔ اگر آپ ارطغرل ڈرامے میں سعدالدین کوپیک کی سیاست دیکھیں تو اس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا کہ جس بندے سے وہ کوئی گھناؤنا کام لیتا تھا، اپنے دوسرے کسی خاص بندے کے ذریعے اس کو مروا دیتا تھا۔ یہی کچھ یہاں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی دن، ’ضمیر کے قیدی‘ اس جج صاحب کی خودکشی کی خبر سننے کو ملے یا پھر ’نامعلوم‘ افراد کے ہاتھوں قتل کی۔
رہا یہ سوال کہ کیا میاں صاحب مفت میں باہر آئیں گے یا کچھ دے دلا کر۔ تو میرے بھائی، وہ جو سنتے آ رہے تھے کہ میاں صاحب خاموشی کے ساتھ، آف دی ریکارڈ بہت کچھ دینے کو تیار ہیں لیکن سب خانوں کے خان کی ضد تھی کہ گا بجا کر یہ رسمِ رسوائی ادا کی جائے،
تو اب لگ یہی رہا ہے کہ تمام ’رسوم‘ سادگی اور خاموشی سے ادا کرنا طے پا چکا ہے۔ سب خانوں کا خان جتنی چاہے دھمکیاں لگاتا رہے، ڈھیل دینے والے دے چکے، ڈیل کرنے والے کر چکے۔
سلام ہے اسٹوری رائٹر کو۔ عدالت سے سزا ہو جانے کے بعد۔۔۔پتھر پر لکیر پڑ جانے کے بعد ۔۔۔۔بند گلی میں پہنچ جانے کے بعد، کس خوبصورتی سے معاملہ سلجھا دیا کہ سانپ بھی مر گیا، لاٹھی بھی بچ گئی۔