نصرت یوسف۔۔۔۔۔۔
زندگی کی مصروفیات میں حقوق اور فرائض کی نصیحتیں سننے اور بتانے سے ہی کام بن جاتا تو زہرہ جبیں کبھی اس دروازے پر نہ جاتی جس کا رنگ روپ بھی اس کے مکین جیسا مانند پڑ چکا تھا. لیکن اسے اس دروازے تک آنا پڑا،
تین مہینہ پہلے کاروبار میں نقصان ہوا، ہمت سے برداشت کیا، پندرہ دن پہلے پھیپھڑوں میں پانی کی رپورٹ آئی، رب کی آزمائش جانا، کل رات پالتو طوطا مر گیا…. اور برداشت ٹوٹنے لگی وہ چونک گئی…” کہاں گڑ بڑ ہے؟” دل کا الارم بج اٹھا اور آنکھوں میں ایک چہرہ ٹھیر گیا۔
اگلی صبح زہرہ جبیں اس دروازے پر کھڑی تھی، جہاں اسے آئے مدت بیت چکی تھی… دروازہ تو وہی تھا لیکن وقت بہت کچھ تبدیل کر چکا تھا۔
ہر چیز گرد سے بھری، بے ترتیب تھی۔اسی نے دروازہ کھولا جس سے ملنے زہرہ جبیں آئی تھی، اس نے مہمان کو سپاٹ تاثرات کے ساتھ دیکھا اور کمرے میں لے آئی۔
اس نے کچھ نہ پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے… زہرہ نے اس کی خاموشی کو ٹٹولنے کی کوشش کی، مسکرائی اور دھیرے سے پوچھا "کیسی ہو؟”
"کیسی ہوں؟” سوال ذرا سی ترمیم سے دہرایا گیا.. اور بس یہ ہی جواب تھا شاید.. وہ اپنے ہاتھ کے ناخنوں پر نگاہ جما کر بیٹھ گئی۔ ایک لمحہ بعد آتش فشاں جیسے پھٹ پڑے، وہ بولنا شروع ہوگئی۔
نہ جانے چلتے پنکھے کی گھڑ گڑاہٹ زیادہ تیز تھی یا اس کا لہجہ۔
زہرہ جبین موڑھے پر ساکت بیٹھی اس کی گفتگو دل جمعی سے سن رہی تھی۔ دونوں کا ناتا اٹوٹ تھا، دنیا اس کو مرچ سمجھ کر کنی کتراتی تھی لیکن اس کے قریب آکر لگا کہ دنیا ہی نے اسے پیپر منٹ سے صرف پیپر تک پہنچایا ہے۔
رویوں پر اسباق تحریر انہوں نے ہی کئے جن کے خون کا ماخذ ایک ہی تھا، چاہے گروپ میں جدا ہو۔
"جرم ضعیفی” کی سزا وہ انسان بھی دیتے ہیں جورب العالمین کے سجدوں سے پیشانی چمکاتے، رحمت اللعالمین کے اقوال سناتے ہیں۔”لہجہ میں کاٹ دار محرومیاں چیخ رہی تھیں۔
وہ بول رہی تھی اور مستقل بول رہی تھی۔
نہ جانے زہرہ کتنا سن رہی اور کتنا سوچ رہی تھی،اس وقت سننے یا نہ سننے کی اہمیت نہ تھی، اس وقت گھٹن اور حبس زدہ وجود میں روزن کا کھلنا ضرورت تھی۔
غیبت اور شکووں کا گلتا سڑتا ڈھیر تلف کرنا اہم تھا، وہ بنا کچھ بولے اس کو سنے گئی، اس کی نم ہوتی آنکھوں کو بھی سنا جن کی اپنی زبان تھی۔
"آؤپھل کھاتے ہیں”، زہرہ نے ساتھ لائے تھیلے کو ٹٹول کر ایک سیب اس کی جانب بڑھایا تو خفگی سے اسے دیکھتے وہ چپ ہو گئی…
نہ پھل کھایا اور نہ کچھ بولی…
"ہاں! پھر کیا ہوا، بات تو رہ ہی گئی،” کیلا چھیلتے زہرہ جبیں کی نرم آنکھوں نے سامنے والی آنکھوں کا اضطراب دیکھا اور ہمہ تن گوش ہو گئی..
” کسی کو نہیں پتہ کیا کیا بیت گیا، کسی نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہ کی”
"سامنے کی بدنمائی پر تبصرے بہت کیے لیکن یہ کیوں ہیں، کبھی سوچا؟؟؟” ایک اور مشکل سوال ابھرا۔
زہرہ جبیں اس بات کا کوئی جواب نہ دے سکی .
"جس کے اقرباء کو خدا اور رسول کا اتنا علم ہو کہ منبر و محراب پر بٹھائے جاتے ہوں وہاں ان کے رحم سے جڑے ناتے کی ایسی بے بسی ہو تو ظلم نہیں؟؟؟
"اف کب یہ لاوا ٹھنڈا ہوگا” زہرہ نے بے بسی سے اسے دیکھا جس کی آنکھیں پھر نم آلود تھیں۔
"کیا رب زندہ نہیں جو انسان بے فکر؟ ”
زہرہ جبیں اس کے سوال پر اضطراری کیفیت خمیدہ بیٹھی سیدھی ہو گئی۔
"سب تو ایسے نہیں "سراسیمہ وہ کھڑی ہوگئی،
” تم جن سے شکوہ کناں، نہ جانے ان کے ساتھ کیا مسائل، ایسا نہ گمان کرو” زہرہ کےلہجے میں کپکپاہٹ سی آئی.. وہ حقوق کے اس مطالبہ پر خوفزدہ ہوگئی تھی.. پچھلی تاریخ میں نوشیرواں سے بھی حق کا مطالبہ کرتے یہ پوچھا گیا تھا کہ” دنیا کے پل پر اے بادشاہ حساب دیتے ہو یا پل صراط پر؟”
زہرہ جبیں نے بے اختیار کان پر ہاتھ لمحے بھر کو رکھے، ماضی کی آواز کی گونج اسے لگا پھیل رہی ہے… "کہاں حساب دینا ہے ؟”
"ہاں تم بھی یہ کہو، کہ اچھا گمان کرو! کیا دوسروں کو بھی یہ سبق دیا کہ وہ بھی پھایہ رکھنے کا سلیقہ سیکھ لیں!! "اب اس کی آواز میں برہمی تھی۔
"رشتوں کی خبرگیری، اجنبیوں کی دادرسی پر مقدم ہے۔” اس جملے نے یاد دلایا کہ کچھ دن پہلے زہرہ نے بھی دادرسی کی تھی کسی اجنبی غمگین کی، قیمتی اوقات کے لمحات خرچ کیۓ گۓ تھے جزیرے کے دکھیاروں پر. وہ سوچ رہی تھی اورحلق میں کچھ پھنس رہا تھا،
اسے شدید کھانسی شروع ہو گئی، اس کی کانچ اور آنچ جیسی باتیں سنتے بے احتیاطی کر گئی تھی، کیلا تو وہ کھا نہیں سکتی تھی،بھول گئی تھی اور اب بھگت رہی تھی۔
شکوہ روک کر وہ اٹھی، درد بھری چال کے ساتھ اسنے پانی کا گلاس زہرہ کو دینا چاہا لیکن بیگ میں رکھی دوا ہی اس کا مداوا تھی۔
دوائی پھانک کر زہرہ اسے گلے لگاتے ہوئے آبدیدہ تھی ” اچھے انسان بھی کمزوری دیکھ کر کئ بار زیادتی کر جاتے ہیں” آنکھ سے ٹپکے آنسو اس کے کندھے پر پھیل گۓ اور وہ خاموشی سے جانے کے لیے مڑگئی۔
فضا میں روشنی تھکی سی تھی اور بے چین ہوا درختوں سے مڈبھیڑ میں تھی۔ زہرہ کا سبز دوشالہ شکووں اور غبار سمیٹے لوٹ چکا تھا۔