مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدرڈاکٹرمحمد مرسی کمرہ عدالت میں انتقال کرگئے۔ اُن کی عمر 68 برس تھی۔
عرب میڈیا کے مطابق محمد مرسی کمرہ عدالت موجود تھے اور کارروائی برخاست ہونے کے بعد بے ہوش ہوگئے تھے۔ اُنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے متعددبار اپنی رپورٹس میں بتایا کہ ڈاکٹرمحمد مرسی کو جی میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایاجاتا رہاہے۔
مارچ 2018 میں برطانوی سیاست دانوں اور وکلا کے ایک پینل نےقرار دیاتھا کہ ڈاکٹر مرسی کو جس قیدخانے میں رکھاگیا ہے، اس کی حالت اس قدر خراب ہے کہ وہ وہاں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، ان کی اچانک موت واقع ہوسکتی ہے۔ قیدخانے کی حالت نہ صرف بین الاقوامی اصولوں بلکہ مصری قوانین کے مطابق بھی نہیں ہے۔
پینل کے مطابق ڈاکٹر مرسی کو ناکافی طبی سہولتیں دی جارہی ہیں، ان کی شوگر کو کنٹرول کرنے کا کوئی علاج نہیں کیاجارہا ہے۔ یادرہے کہ اس پینل کی سربراہی کنزرویٹو پارٹی کے سیاست دان کرسپن بلنٹ کررہے تھے، وہ برطاونی پارلیمان کے رکن بھی ہیں اور ایک طویل عرصہ فوج میں بھی گزار چکے ہیں۔
انھوں نے مصری حکومت سے درخواست کی تھی کہ انھیں ڈاکٹر محمد مرسی سے ملنے کی اجازت دی جائے تاہم السیسی حکومت نے ان کی درخواست مسترد کردی۔
ڈاکٹر مرسی کا تعلق دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے تھا۔ وہ اس کے سیاسی ونگ ‘فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی” کے سربراہ تھے۔ ان کی قیادت ہی میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے مصری تاریخ میں پہلے آزادانہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بعدازاں ڈاکٹر محمد مرسی نے مصری تاریخ کا پہلا آزادانہ صدارتی انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
ڈاکٹر محمد مرسی 30 جون 2012ء سے 3 جولائی 2013ء تک مصر کے صدر رہے۔ وہ چار برس کے لئے منتخب ہوئے تھے لیکن 2013 میں، ان کی صدارتی مدت کے پہلے ہی سال میں مصری فوج نے ان کے خلاف مظاہرے کروائے اور اس کے بعد اقتدار پر قابض ہوگئی۔