عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔
جماعت اسلامی لاہور میں عمومآ کم ہی زیادہ بڑے پاور شو منعقد کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تاہم 16 جون 2019 کا مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوامی مارچ ایک بڑا شو تھا۔ اس عوامی مارچ کے کامیاب ہونے کی ایک ہی وجہ ہے کہ لوگوں کی عمران خان کی قیادت میں قائم حکومت سے امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ڈیلیور کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سے دس فیصد ڈیلیور کرکے عوام پر ہمیشہ حکمرانی کے خواب دیکھتی تھی۔ پاکستانی قوم مسائل کی دلدل میں جس قدر گھری دھنسی ہوئی تھی،اس کا تقاضا تھا کہ حکومت کم ازکم پچاس فیصد سے زائد سے عوامی خدمت کا آغاز کرتی۔
اس کا دوسرا مطلب ہے کہ حکومت ہر شعبے میںپاکستانی قوم کو ریلیف دیتی۔ تاہم شریف برادران کی حکومت موٹرویز کو وسعت دینے، میٹرو بسیں، اورنج لائن ٹرینیں چلانے میں زیادہ سرگرم دکھائی دی جبکہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے یا انھیں سستا کرنے میں زیادہ سرگرمی نہ دکھاسکی۔
عمران خان نے عوام کے مسائل اور ان کی ضروریات کو محسوس کیا، انھیں یقین دلایا کہ وہ اقتدار میں آکر پہلے ہی سال میں انھیں اس قدر زیادہ ریلیف دیں گے کہ ان کے سارے دلدر دور ہوجائیں گے ۔
تاہم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی عوام پر اس قدر زیادہ بوجھ ڈال دیا کہ ان کی حکمرانی کے پہلے 100 ایام ہی میں قوم کی چیخیں نکل گئی۔ عمران خان نے اس پر قوم کو یقین دلایا کہ وہ چھ ماہ تک انتظار کرلیں۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن چھ ماہ کے دوران ہر گزرتے دن قوم پر اس کی برداشت سے کہیں زیادہ بوجھ ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا۔
مہنگائی اور بے روزگاری اس قدر زیادہ ہوئی کہ پاکستانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈالر کی اڑان مسلسل بلند ہورہی ہے، بنیادی ضرورت کی اشیا مسلسل لوگوں کی قوت خرید کے دائرے سے باہر ہورہی ہیں۔ لوگ تیزی سے بے روزگار ہورہے ہیں۔
تاہم ایسے میں بھی وزیراعظم عمران خان حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنے وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں سو سے زائد فیصد اضافہ کرکے اس میں سے دس فیصد کم کرکے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
ان حالات میں بڑی دو اپوزیشن پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت اپنی پرتعیش رہائش گاہوں میں بیٹھ کر عوامی مشکلات کا درد سمجھنے کے بجائے کھی کھی کرنے میں مصروف ہے، اس کی حکمت عملی ہے کہ عوام جتنا زیادہ درد سہیں گے، ان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے امکانات اسی قدر بڑھ جائیں گے۔ دوسرا ن لیگی اور پی پی قائدین اپنے خلاف مقدمات میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی ہمت نہیں کررہے ہیں۔
جماعت اسلامی نے عوامی مشکلات کا احساس کیا، وہ مہنگائی، بے روزگاری سمیت عوام پر حکومتی ظلم و جبر کے خلاف اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لے آئی ہے، آج کے عوامی مارچ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جماعت اسلامی کے کارکنان ہی شریک نہیں ہوئے بلکہ عام لوگ بھی شامل ہوکر اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے رہے۔
جماعت اسلامی عام آدمی کو اپنے پرچم کا سایہ فراہم کرنے میں کامیاب ہوگی؟
جماعت کی حکمت عملی ہے کہ اب کی بار اس کی جدوجہد کا فائدہ صرف عوام کو ہو، اس کے نتیجے میںکوئی پرانا حکمران دوبارہ ایوان اقتدار میں نہ پہنچے۔ یہ حکمت عملی محتاط اقدامات کا تقاضا کرتی ہے،
جماعت اسلامی نہیں چاہتی کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرکے اسے سیاسی شہید بننے کا موقع فراہم کرے البتہ جماعت یہ ضرور چاہتی ہے کہ عمران خان حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی راہ روکی جائے،آئی ایم ایف کی حکمرانی کو نہ چلنے دیاجائے، عوام کو ظلم و جبر سے نجات دلائی جائے۔
جماعت کا مقابلہ ایک ایسی حکومت کے ساتھ ہے جو اپنے طوطوں کے لئے لاکھوں روپوں کے پنجرے تیارکروانے کے منصوبے بناتی ہے لیکن 20 ہزار، 30 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے عام پاکستانی کی ہڈیاں بھی چچوڑنے کے لئے ادھت سے ادھر بھاگ رہی ہے۔